طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش
شام سے صبح تک پوری رات خیر ہی خیر ہے۔ اﷲ کی رحمت تمام رات مائل بہ کرم رہتی ہے۔
فرمان الٰہی ہے ''ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے، تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے، طلوع فجر تک (القدر)۔
سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔'' (آیت185) اور سورۃ القدر میں فرمایا گیا ہے کہ ''ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے''۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ شب جس میں پہلی دفعہ جبرائیل امین ؑ غار حرا میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات سے وحی کا آغاز کیا وہ شب قدر تھی۔ اسی شب قدر کو سورۂ دخان میں مبارک رات کے نام سے موصول کیا گیا ہے۔ ''ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے''۔ آیت3)
اس طرح شب قدر اور شب مبارک ایک ہی شب کے دو نام ہیں۔ شب قدر میں قرآن کے نزول کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا آغاز اس رات سے ہوا اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن ام الکتاب سے منتقل کرکے حامل وحی فرشتوں کے حوالے کردیا گیا اور پھر وہ حالات اور واقعات کی مناسبت سے وقتاً فوقتاً نجماً نجماً 23 سال کے عرصے میں جبرائیل امینؑ حکم الٰہی سے اس کی سورتیں اور آیات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل فرماتے رہے۔
قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیے ہیں۔ یعنی وہ رات ہے جس میں اﷲ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے عملدرآمد کے لیے فرشتوں کے سپرد کردیتا ہے، اس کی تائید اور توثیق سورۂ دخان کی یہ آیت کرتی ہے ''اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے''۔ (آیت 5)
سورۂ دخان میں لفظ ''امر حکیم'' اور سورۂ قدر میں ''کل امر'' استعمال ہوا ہے۔ الفاظ جدا ہیں لیکن ان میں رواں روح ایک ہی ہے۔ یعنی اس رات میں پختہ اور محکم فیصلے ہوتے ہیں۔ ان مٹ جسے بدل دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔ انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں۔ فرد و قوم، ملک و سلطنت، عروج و زوال، بلندی و پستی، ترقی و تنزلی، آبادی و بربادی، حیات وممات وغیرہ وغیرہ، گویا اﷲ حکیم اپنے بندوں کے حق میں امر حکیم صادر فرماتا ہے۔ چاہے اس کی حکمت انسانی عقل سے ماورا ہو اور وہ فیصلہ چاہے ظاہر میں وقتی طور پر نظر آئے لیکن ہر حال میں بشر کے حق میں خیر ہی خیر ہوتا ہے، چاہے انسان کی محدود عقل و فہم قبول کرے یا نہ کرے۔
قدر کے معنی بعض مفسرین جن میں امام زہری پیش پیش ہیں، عظمت و شرف کے لیے ہیں جس کی تائید سورۂ قدر کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ''شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے''۔
یہ کون سی رات ہے، اس بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن علمائے دین کی کافی بڑی تعداد کی رائے ہے کہ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب قدر ہے اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت کی حمایت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں جو معتبر اور ثقہ احادیث منقول ہوئی ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے۔ (ابو داؤد) دوسری روایت ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے۔ (مسند احمد)
حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے۔ 21 ویں، 23 ویں، 25 ویں، 27 ویں، 29 ویں۔ (مسنداحمد)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جب کہ مہینہ ختم ہونے میں 9 دن باقی ہوں۔ یا 7 دن باقی یا 5دن باقی۔ (بخاری)
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو۔ (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی)
یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت متواترہ تھی کہ آپؐ نے تادم وصال رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا۔ علمائے سلف کی بڑی تعداد 27 ویں رمضان المبارک ہی کو شب قدر قرار دیتی ہے۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ''شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے جو شخص ان کے اجر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا اﷲ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے گا۔ (مسند احمد)
یہ اس رات میں عمل خیر کا حال ہے لیکن شب قدر کی بذات بات کچھ اور ہے، انسان کیا جانے رب ہی جانے کہ ''شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے'' سے کیا مراد ہے۔ ہزار مہینوں سے مراد 83 سال 4 مہینے نہیں ہیں بلکہ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ کثرت تعداد کا تصور پیش کرنے کے لیے وہ محاورتاً ہزار کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ فلک برسوں پھرتا رہا، انسانیت ایک عرصہ دراز تک اپنی بے نوری پر روتی رہی، ابر کرم کو ترستی رہی، تب جاکر اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حکمت و بصیرت نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آچکا ہے کہ انسانیت کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا جائے جس کی روشنی میں وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کرسکیں۔
ازل سے لے کر قرآن کے نزول تک کتنا عرصہ لگا، اس کا قطعی علم اﷲ عز و جل کے سوا کسی کو نہیں۔ انسان کیا جانے، اس کو اسی کی زبان و محاورے میں ہزار مہینوں سے زیادہ کہہ کر سمجھادیا گیا۔ شب قدر اہل اسلام کے لیے اس لیے قابل قدر ہے۔ مکرم، معظم اور محترم ہے کہ اس شب میں انسانیت کے لیے سرچشمہ ہدایت بصورت قرآن نازل ہوا۔ نزول قرآن نے رمضان المبارک کی طاق راتوں کو عموماً اور 27 ویں شب کو خصوصاً چار چاند لگادیے۔ دنیائے اسلام اس رات کو بالخصوص اﷲ کی بزرگی اور کبریائی کا اظہار کرتی ہے۔ قیام، رکوع و سجود کے ذریعے رب کعبہ کا شکر بجا لاتی ہے، عطیہ قرآن پر اس کے احسان کا اعتراف کرتی ہے۔ تلاوت قرآن سے زبانیں رطب اللسان رہتی ہیں۔
اﷲ کی حمد و ثنا بیان کرکے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتی ہے، رو روکر، گڑگڑا، گڑگڑاکر اپنے حق میں فلاح و صلاح مانگتی ہے۔ شب قدر کی شان یہ ہے کہ اس میں اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن نازل کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ اپنے بندوں کی تقدیر اور ان کے حق میں مختلف فیصلوں کے لیے اس کا انتخاب کیا۔ اﷲ کے انتخاب نے اس شب کی عظمت اور قدر و منزلت کے حسن کو دوبالا کردیا، جو کچھ افراد اور اقوام کی قسمتوں میں لکھا ہے ان فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ قرآن کی زبان میں ''فرشتہ اور روح (جبرائیل) اس میں اپنے رب کے اذن سے حکم لے کر اترتے ہیں''۔
المختصر شب قدر کے دو پہلو ہیں اور دونوں نمایاں، واضح صاف اور روشن ہیں، ایک پہلو یہ ہے کہ شب قدر بڑی ہی مبارک، بابرکت، باعث رحمت و مفرت، شرف و منزلت والی قابل قدر رات ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے اپنا کلام بزبان قرآن اس رات نازل کرنے کا فیصلہ کیا، اسی طرح اس کاتب تقدیر نے تحریر تقدیر کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے سب قدر کا انتخاب کیا۔
شام سے صبح تک پوری رات خیر ہی خیر ہے۔ اﷲ کی رحمت تمام رات مائل بہ کرم رہتی ہے۔ کسی سائل کو اﷲ اپنی رحمت سے محروم نہیں کرتا۔ پوری رات جاگنے کی رات ہے۔ سائل بن کر قیام، رکوع و سجود، توبہ استغفار کے ذریعے اﷲ کی رحمت کو اپنی طرف مائل کرنے کی رات ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں شب قدر کی فضیلت سمجھنے اور اس سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)