کراچی بھنور میں
کراچی ایک عرصے سے جرائم کی گرفت میں تھا، قتل و غارت گری نے اس کو گھیر رکھا تھا
لاہور:
کراچی ایک عرصے سے جرائم کی گرفت میں تھا، قتل و غارت گری نے اس کو گھیر رکھا تھا، سیاسی طور پر بھی اس کی تعمیر و ترقی، آب رسانی اور سیوریج، صفائی سب ساکت تھے اور ہیں، البتہ ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان ضرب عضب کے بعد تھمے تھے، مگر رمضان کی آمد پر وارداتوں میں اچانک سے پھر اضافہ ہوا اور دو وارداتوں نے کراچی کو غمگین کر دیا، 19 جون کو اویس شاہ، جو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے ہیں، کا اغوا اور 22 جون کو امجد صابری جیسے عاشق رسول کریمؐ اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی شخصیت کو شہید کر دیا۔
ان دونوں واقعات نے ایک بڑی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ دو سال کی آرمی و رینجرز کی کاوشوں سے کراچی میں مسلح گروہوں کی کارروائی تو کمزور ہوئی اور فاٹا کے بگڑے حالات میں بہتری ضرور آئی لیکن مجموعی طور پر کراچی میں حالات مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے جب چیف جسٹس کی فیملی محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہے۔ چیف جسٹس کے فرزند کو اغوا کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ انصاف دینے والا ادارہ خود اغواکاروں کے ہاتھوں میں مقید ہے اور اس کا سراغ بھی نہیں مل رہا، قیاس اور مفروضوں پر دماغ دوڑایا جا رہا ہے، مگر تفتیش کا دائرہ کار کسی واضح سمت کی طرف نہیں بڑھ رہا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ان دو برسوں میں حالات کی بہتری کا سن کر لوگوں نے واپس آنا شروع کر دیا تھا مگر رمضان المبارک میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ، سڑکوں پر روزمرہ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہاں جان و مال محفوظ نہیں۔ مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات بھی لوگوں کو گوارا نہیں، اس کی واضح مثال امجد صابری قوال کا وحشیانہ قتل ہے۔ قاتل نے ایسے مرد مومن کو قتل کیا جس نے لیاقت آباد کا آبائی گھر نہ چھوڑا، فیملی بڑی ہوتی گئی، نام بڑھتا گیا، جب ایک کے بعد ایک بچہ پیدا ہوا مگر جس علاقے نے ان کو اپنی پہچان دی انھوں نے وہ علاقہ کسر نفسی کی روایت میں نہ چھوڑا۔ پوری دنیا میں پاکستان کی اس صنف گائیکی اور روحانی طرز کو درجہ کمال تک پہنچانے میں مصروف تھے، ایک عجیب بات ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندوں کا ایک ایسا طبقہ بھی جو نہایت مختصر ہے مگر فعال اور آتشیں ہے کہ وہ قوالی کی صنف کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے۔
امجد صابری کے قتل کی خبر جب ٹی وی پر آئی، اس کے چند گھنٹوں بعد جہاں ان کے قتل کی مذمت میڈیا اور سوشل میڈیا پر گشت کرنے لگی وہاں بعض لوگوں کے فیس بک پر حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کے پیغامات بھی دیکھے گئے۔ آخر یہ کون اور کس قسم کے لوگ ہیں جو فن قوالی کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو درگاہوں پر حملہ کرنے اور وہاں جانے والوں کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ گو کہ ان لوگوں کی تعداد نہایت قلیل ہے مگر وہ ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے جن کی آواز اور کردار سے قوالی کے فن کو فروغ مل رہا ہے۔ چونکہ امجد صابری نے نہ صرف قوالی کے فن کو نئے نئے تجربات سے دلکش بنایا بلکہ غیر مسلموں کو بھی آواز کے حسن کی بدولت اسلام سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ رشد و ہدایت کا بھی معاملہ عجیب ہے، انسان پہلے راغب ہوتا ہے، جب وہ قریب آتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ اسلام اس کے قلب میں اترتا جاتا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کے اوصاف کا علم ہو۔ البتہ 99 ناموں میں ایک عام نام ''المصور'' ہے، ذرا سا غور فرمائیں تو آپ کو احساس ہو جائے گا کہ بنانے والے نے انسان کو کیا اور کیسا خلق کیا ہے اور ہر چیز میں بے مثل حسن و حکمت ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں اگر انسان کے 3 آنکھیں ہوتیں یا ایک آنکھ پیچھے ہوتی یا درمیان میں تو وہ کیسا لگتا، یا جسم کے کسی عضو کی جگہ تبدیل کرنے کی جگہ سوچیں تو تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس کی موجودہ شکل اور اعضا بندی کس منزل پر ہے، انسانی عقل کسی تبدیلی کی متحمل نہیں ہو سکتی، بلکہ ہر تبدیلی ایک نقص یا عیب معلوم ہو گا، لہٰذا انسان کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار صرف خالق کو ہے۔ جو کچھ اصلاحات اور تشریحات پیغمبران خدا کو ہیں، یعنی شریعت اور دین کامل اور اختتام رسول اکرم آخری پیغمبر محمدؐ کے احکامات کی روشنی میں ہے، مگر کسی کے دین کو زبردستی تبدیل کرنے، کسی کی عبادت گاہ کو ڈھانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ مگر گزشتہ 20/25 برسوں سے زبردستی اپنے عقائد تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس سے دوسرے ملکوں میں پاکستان کی پوزیشن بہت خراب ہو رہی ہے، کیونکہ دوسرے ملکوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں خصوصاً غیر مسلم ممالک میں، وہاں وہ محفوظ ہیں اور اپنے مذہبی عقائد کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ میں جو لوگ شہید ہو رہے ہیں ان میں عقائد کا تصادم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امجد صابری شہید چونکہ آواز کا جادو رکھتے تھے اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ان کی آواز سے متاثر ہو رہے تھے خصوصاً انگلینڈ میں اور امریکا میں خصوصیت کے ساتھ سکھ اور ہندو گریہ و زاری میں مبتلا تھے اور آہیں بھر رہے تھے اور کہتے تھے ہم تو ان کی پوجا کرتے یعنی تعظیم کرتے اور کہتے تھے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو نبی جی کے عاشق کو قتل کرتے ہیں۔
اس طرح جب کہ قوالی کے فن کو نئی زندگی مل رہی تھی لہٰذا ٹارگٹ کلر نے اس چراغ کو گل کر دیا مگر شہید ہونے والے نے بھی کمال کر دکھایا۔ 40 سال کی قلیل عمر میں امجد صابری نے کیا کمال کر دکھایا، ابھی تو وہ فن کی دنیا میں جوان ہوئے تھے، حمد و نعت، منقبت کو انھوں نے نئے انداز بخشے، اسی لیے ان کے چاہنے والوں کے قافلے کراچی کے گلی کوچوں سے چل پڑے۔ گو کہ میڈیا نے ہزاروں کا لفظ استعمال کیا مگر حقیقت میں لاکھوں کا مجمع تھا، لوگ آتے اور جاتے رہے، یہاں تک کہ آنے والے بھارت سے بھی آئے، ان کی نماز جنازہ میں اس قدر لوگ شریک تھے کہ نماز جنازہ 4 نمبر لیاقت آباد کے مین روڈ پر ادا کی گئی۔ اس شیدائی رسولؐ کی نماز جنازہ پاک پتن شریف کے سجادہ نشین احمد مسعود نے پڑھائی حالانکہ ان سے کوئی بہت قربت کا رشتہ نہ تھا بلکہ چند ملاقاتوں میں لوگ ان کی شرافت، لبوں پر مسکراہٹ، عشق رسول اور نرم آواز سے ان کے اسیر ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ چھوٹے اور نوآموز آرٹسٹوں کی اخلاقی اور عملی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے اوصاف تو میڈیا کے ہر کونے سے بیان کیے گئے مگر ان کے قتل کی تحقیقات کے زاویے پر کوئی رہنمائی نہ کی گئی۔
ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں اہم شخصیت کا ٹھکانہ آسان نہیں، ہر ہونہار شخصیت سے بلاوجہ دشمنی ہو جاتی ہے۔ وہ نہ کوئی بڑی کاروباری شخصیت تھے اور نہ ہی سیاسی طور پر کسی کے مخالف تھے۔ وہ صرف ساز اور آواز کے ساتھ ہی زندہ تھے اور اپنے روزگار کے علاوہ سیکڑوں لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ دہلی میں نظام الدین اولیا کی درگاہ کے والی اور خواجہ غریب نواز کے نگہبان مزار شریف اور درگاہ کے والی سلمان چشتی نے امجد صابری کے خانوادے کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ جب امجد صابری بھارت آتے تو خواجہ صاحب کی درگاہ ضرور آتے تھے اور جب وہ آتے تھے تو ایک بڑا مجمع جمع ہو جاتا تھا، اس سے امجد صابری کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
وہ تو دنیا سے چلے گئے مگر کراچی جس کو عرف عام میں Mini Pakistan کہا جاتا ہے، جب یہاں اتنے بڑے پروفائل کے آدمی کو ہلاک کر دیا جاتا ہے تو اس سے کس قدر بے چینی پھیلے گی، خاص طور سے ایسے ملک میں جہاں عاشقان رسول کی تعداد ان کے جنازے سے ظاہر ہوتی ہے کہ کراچی اشکبار تھا اور ساتھ ہی شرمسار کہ امجد صابری ہم تیری حفاظت نہ کر سکے۔ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص بھنور میں پھنس چکا ہے۔ کچھ امید ہو چلی تھی مگر انتہاپسندوں کے عمل کو اب تک قابو نہ پایا جا سکا۔