نوحہ
مولانا وحید الدین خان صاحب، میرے دل میں جن کا بہت احترام پایا جاتا ہے
مولانا وحید الدین خان صاحب، میرے دل میں جن کا بہت احترام پایا جاتا ہے، بھارت کے ممتاز ترین اور عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین ہیں۔ سیرت نگار بھی ہیں اور مفسرِ قرآن بھی۔ درجنوں شاندار کتابوں کے مصنف۔ ''تصادم سے اعراض'' آپ کا فلسفۂ تعلیم ہے، یعنی اس امر کا عملی اظہار کہ بھارت میں مسلمانوں سے جتنی بھی زیادتیاں ہو جائیں، مسلمانانِ بھارت کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا چاہیے اور ظالموں کے خلاف کسی بھی قسم کا احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں نے اس پر عمل بھی کر کے دیکھ لیا ہے لیکن ہندوؤں کا رویہ بدل نہیں رہا۔ ایسے میں ہمیں ڈاکٹر سیف الدین کچلو یاد آ جاتے ہیں۔
آپ متحدہ ہندوستان کے معروف سیاستدان تھے۔ کشمیری نژاد۔ امرتسر کی متمول اور مشہور شخصیت۔ کانگریس پارٹی کے مقبول رہنما۔ گاندھی جی اور نہرو کے جی جان سے عاشق اور پیروکار۔ وہ سیاسی طور پر صحیح معنوں میں مہاتما گاندھی کے چیلے تھے۔ ہندوؤں کی نمایندہ سیاسی جماعت، کانگریس، سے ان کی محبت و شیفتگی ہر شبہ سے بالا تھی۔ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد مگر کیا ہوا؟ پاکستان بنتے ہی فسادات کی آگ بھڑکی تو امرتسر میں کانگریسی ہندوؤں اور سکھوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر سیف الدین کچلو صاحب کا گھر نذرِ آتش کیا۔
آگ لگانے، ان کا گھریلو سامان لوٹنے اور ڈاکٹر صاحب کی محترم خواتین کی توہین کرنے والوں نے اس بات کی رتی بھر پروا نہ کی کہ کچلو صاحب کانگریس کے وفادار لیڈر رہے ہیں۔ بھارتی ہندوؤں کو یہی بات یاد رہ گئی تھی کہ کچلو مسلمان ہیں اور یہی ان کا سب سے بڑا جرم تھا۔ شرمندگی کے مارے ڈاکٹر سیف الدین پاکستان بھی نہ آ سکتے تھے؛ چنانچہ وہ امرتسر سے دہلی چلے گئے لیکن ہندوؤں نے انھیں یہاں بھی احترام اور چین سے جینے نہ دیا۔ بعدازاں ڈاکٹر سیف الدین صاحب کی ایک بیٹی، زاہدہ کچلو، نے ایک متعصب ہندو موسیقار (ایم بی سری نواسن) سے شادی رچا کر بھارتی ہندوؤں سے ''ہم آہنگی'' کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا لیکن ڈاکٹر سیف الدین پھر بھی غالب اور مقتدر بھارتی ہندوؤں کے نزدیک قابلِ اعتبار ٹھہرے نہ قابلِ احترام۔ کانگریس اور آزادی کے لیے ان کی جملہ خدمات فراموش کر دی گئیں۔ ان کا ''جرم'' محض یہ تھا کہ وہ کشمیری بھی تھے اور بھارتی مسلمان بھی۔ اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک یہ ''جرم'' قابلِ معافی نہیں تھا۔
کشمیری مسلمانوں پر تو بھارتی فوج اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم اور زیادتیاں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ پاکستان کے مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایڈیٹروں اور اینکروں کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ہم کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو کسی بھی شکل میں فراموش نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود کشمیریوں پر بھارتی تشدد کم نہیں ہو رہا۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان مگر اس ظلم پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق، چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی قابض افواج (CRPF) پر کشمیری نوجوانوں کا حملہ اور اس کے نتیجے میں درجن بھر بھارتی فوجیوں کا جہنم واصل ہونا اس امر کا مظہر ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کے چند حالی موالی بھارت کے ہمنوا تو بن رہے ہیں لیکن بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دلوں میں ان لوگوں کا وہی مقام ہے جو ڈاکٹر سیف الدین کچلو ایسے وفادار لوگوں کا کانگریسیوں کے دلوں میں تھا۔ ستم ظریف کہتے ہیں کہ جب عالمِ عرب کے مؤثر ممالک میں نریندر مودی کے گلے میں محبتوں اور عقیدتوں کے ہار ڈالے جائیں گے اور انھیں اعلیٰ ترین ایوارڈوں سے نوازا جائے گا تو مظلوم کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی سید علی گیلانی اور غلام نبی فائی کی آوازوں پر کون کان دھرے گا؟ بھارتی اسٹیبلشمنٹ شاید اسی لیے بغلیں بجا رہی ہے اور اس کے اشارے پر کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں پر بھی متعصب بھارتی ہندوؤں کے ظلم کا کوڑا برس رہا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو بے جا مطالبات ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت میں ایسے ''مسلمان'' بھی ہیں جو ''بھارت ماتا کی جے'' کا نعرہ لگانے پر تیار ہو گئے ہیں۔ ایسے بھارتی مسلمانوں میں جاوید اختر بھی شامل ہیں جو بالی وڈ کے معروف لکھاری اور نغمہ نگار بھی ہیں اور بھارتی ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے رکن بھی۔ انھوں نے نہ صرف خود یہ نعرہ لگایا ہے بلکہ یہ بھی کہا: ''یہ نعرہ لگانا کونسا گناہ ہے۔'' ساتھ ہی موصوف نے اسد الدین اویسی اور وارث پٹھان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بھارت میں مسلمانوں کو ''اجنبی'' بنا رہے ہیں۔ جاوید اختر نے آگے بڑھ کر مسلمانوں کی طرف سے نماز ادا کرنے کے دوران پہنی جانے والی مخصوص ٹوپی پر بھی مخصوص الفاظ میں طنز کیے۔ مسلمانانِ بھارت حیرت زدہ ہیں۔ ( واضح رہے جاوید اختر ''صاحب'' معروف بھارتی مسلمان اداکارہ، شبانہ اعظمی، کے شوہر بھی ہیں)
آپ متحدہ ہندوستان کے معروف سیاستدان تھے۔ کشمیری نژاد۔ امرتسر کی متمول اور مشہور شخصیت۔ کانگریس پارٹی کے مقبول رہنما۔ گاندھی جی اور نہرو کے جی جان سے عاشق اور پیروکار۔ وہ سیاسی طور پر صحیح معنوں میں مہاتما گاندھی کے چیلے تھے۔ ہندوؤں کی نمایندہ سیاسی جماعت، کانگریس، سے ان کی محبت و شیفتگی ہر شبہ سے بالا تھی۔ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد مگر کیا ہوا؟ پاکستان بنتے ہی فسادات کی آگ بھڑکی تو امرتسر میں کانگریسی ہندوؤں اور سکھوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر سیف الدین کچلو صاحب کا گھر نذرِ آتش کیا۔
آگ لگانے، ان کا گھریلو سامان لوٹنے اور ڈاکٹر صاحب کی محترم خواتین کی توہین کرنے والوں نے اس بات کی رتی بھر پروا نہ کی کہ کچلو صاحب کانگریس کے وفادار لیڈر رہے ہیں۔ بھارتی ہندوؤں کو یہی بات یاد رہ گئی تھی کہ کچلو مسلمان ہیں اور یہی ان کا سب سے بڑا جرم تھا۔ شرمندگی کے مارے ڈاکٹر سیف الدین پاکستان بھی نہ آ سکتے تھے؛ چنانچہ وہ امرتسر سے دہلی چلے گئے لیکن ہندوؤں نے انھیں یہاں بھی احترام اور چین سے جینے نہ دیا۔ بعدازاں ڈاکٹر سیف الدین صاحب کی ایک بیٹی، زاہدہ کچلو، نے ایک متعصب ہندو موسیقار (ایم بی سری نواسن) سے شادی رچا کر بھارتی ہندوؤں سے ''ہم آہنگی'' کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا لیکن ڈاکٹر سیف الدین پھر بھی غالب اور مقتدر بھارتی ہندوؤں کے نزدیک قابلِ اعتبار ٹھہرے نہ قابلِ احترام۔ کانگریس اور آزادی کے لیے ان کی جملہ خدمات فراموش کر دی گئیں۔ ان کا ''جرم'' محض یہ تھا کہ وہ کشمیری بھی تھے اور بھارتی مسلمان بھی۔ اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک یہ ''جرم'' قابلِ معافی نہیں تھا۔
کشمیری مسلمانوں پر تو بھارتی فوج اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم اور زیادتیاں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ پاکستان کے مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایڈیٹروں اور اینکروں کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ہم کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو کسی بھی شکل میں فراموش نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود کشمیریوں پر بھارتی تشدد کم نہیں ہو رہا۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان مگر اس ظلم پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق، چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی قابض افواج (CRPF) پر کشمیری نوجوانوں کا حملہ اور اس کے نتیجے میں درجن بھر بھارتی فوجیوں کا جہنم واصل ہونا اس امر کا مظہر ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کے چند حالی موالی بھارت کے ہمنوا تو بن رہے ہیں لیکن بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دلوں میں ان لوگوں کا وہی مقام ہے جو ڈاکٹر سیف الدین کچلو ایسے وفادار لوگوں کا کانگریسیوں کے دلوں میں تھا۔ ستم ظریف کہتے ہیں کہ جب عالمِ عرب کے مؤثر ممالک میں نریندر مودی کے گلے میں محبتوں اور عقیدتوں کے ہار ڈالے جائیں گے اور انھیں اعلیٰ ترین ایوارڈوں سے نوازا جائے گا تو مظلوم کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی سید علی گیلانی اور غلام نبی فائی کی آوازوں پر کون کان دھرے گا؟ بھارتی اسٹیبلشمنٹ شاید اسی لیے بغلیں بجا رہی ہے اور اس کے اشارے پر کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں پر بھی متعصب بھارتی ہندوؤں کے ظلم کا کوڑا برس رہا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو بے جا مطالبات ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت میں ایسے ''مسلمان'' بھی ہیں جو ''بھارت ماتا کی جے'' کا نعرہ لگانے پر تیار ہو گئے ہیں۔ ایسے بھارتی مسلمانوں میں جاوید اختر بھی شامل ہیں جو بالی وڈ کے معروف لکھاری اور نغمہ نگار بھی ہیں اور بھارتی ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے رکن بھی۔ انھوں نے نہ صرف خود یہ نعرہ لگایا ہے بلکہ یہ بھی کہا: ''یہ نعرہ لگانا کونسا گناہ ہے۔'' ساتھ ہی موصوف نے اسد الدین اویسی اور وارث پٹھان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بھارت میں مسلمانوں کو ''اجنبی'' بنا رہے ہیں۔ جاوید اختر نے آگے بڑھ کر مسلمانوں کی طرف سے نماز ادا کرنے کے دوران پہنی جانے والی مخصوص ٹوپی پر بھی مخصوص الفاظ میں طنز کیے۔ مسلمانانِ بھارت حیرت زدہ ہیں۔ ( واضح رہے جاوید اختر ''صاحب'' معروف بھارتی مسلمان اداکارہ، شبانہ اعظمی، کے شوہر بھی ہیں)