کیا یہ سب احکام الٰہی کے مطابق ہے
تمام اکاؤنٹ ہولڈرز کے اکاؤنٹ سے یکم رمضان کو ہر سال زکوٰۃ منہا کی جاتی ہے
BUKAVU:
ملک میں باقاعدہ وزارت عشر و زکوٰۃ موجود ہے۔ تمام اکاؤنٹ ہولڈرز کے اکاؤنٹ سے یکم رمضان کو ہر سال زکوٰۃ منہا کی جاتی ہے اور لوگ ازخود بھی بڑھ چڑھ کر رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم رکن ہے ۔
جس کو ہر صاحب نصاب اپنا فرض سمجھ کر ادا کرے اور حکومتی محکمہ اس کو شریعت کے مطابق استعمال کرے تو کسی بھی اسلامی ملک میں پانچ دس برس کے بعد زکوٰۃ لینے والا ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے۔ شرط یہ ہے کہ نصاب کے مطابق خلوص نیت سے زکوٰۃ ادا کی جائے اور زکوٰۃ جمع کرنے والے اس کو دیانتداری سے جو اس کا شرعی استعمال ہے، اسی طرح استعمال بھی کریں بینک سے زکوٰۃ منہا ہونے کے علاوہ ملک کا ہر فلاحی ادارہ حصول زکوٰۃ کے لیے بڑی بڑی اشتہاری مہم چلاتا ہے۔ کسی بھی نیک کام میں عوام کو زکوٰۃ ادا کرکے شامل ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ تمام سال ہر چھوٹی دکان سے لے کر بڑے بڑے اسٹورز، ہوٹل، ریسٹورنٹ کے کاؤنٹر پر زکوٰۃ کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں۔
لوگ خریداری یا ہوٹلز وغیرہ میں کھانا کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ رقم ان ڈبوں میں پوری عقیدت سے ڈال دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی کارخیر میں اپنا حصہ ڈال کر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔اس طرح نہ اسلامی طریقے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے اور اس پورے نظام میں زکوٰۃ (بلکہ ان کو چندہ کہا جائے تو بہتر ہوگا) ادا کرنے والے کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی رقم واقعی کسی کارخیر میں استعمال ہو رہی ہے یا کسی اور کی جیب میں جا رہی ہے۔
اگر یہ رقم عوام کے کسی اہم مسئلے کو حل کرنے میں خرچ ہو رہی ہے تو یہ ضرور کارخیر وگرنہ تو اپنے مال کو ضایع کرنا اور غیر مستحق کو فائدہ پہنچانا جس کا نتیجہ آخر کے نقصان کے سوا کچھ نہیں (کیونکہ اصل مستحق تو محروم ہی رہ جاتا ہے) عوامی مسائل میں ذرائع آمد و رفت حل کیا گیا ہو، اچھے معیاری اسپتال جہاں انسانی مساوات کی بنیاد پر ہر امیر و غریب یکساں سہولت سے مستفیض ہوئے ہوں۔ کوئی تعلیمی ادارہ جہاں غریب اور کم آمدنی والے افراد کے بچوں کو معیاری تعلیم مفت فراہم کی جا رہی ہو۔ کوئی ادارہ کسی کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر ضرورت مند سفید پوش ایسے افراد جس کا کوئی ذریعہ معاش نہ ہو، کسی قسم کی کوئی آمدنی نہ ہو اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ان کی عزت نفس کے خلاف ہو۔
اسلام نے ایسے ہی عزت دار، غیرت مند افراد کی امداد کے لیے نظام زکوٰۃ بطور نظام الٰہی متعارف کرایا تھا۔ احکام زکوٰۃ کی روح یہی ہے کہ کسی سیٹھ، صنعتکار، تاجر یا وڈیرے کا احسان مند ہوئے بغیر اپنے اللہ کی جانب سے ان کی باعزت گزر بسر کا انتظام ہو اور وہ کسی کے بھی سامنے محض اس لیے شرمندہ یا کسی کے بھی احسان مند نہ ہوں کہ فلاں صاحب نے ہمارا فلاں مسئلہ حل کیا تھا۔
محترمہ رئیس فاطمہ صاحبہ نے صرف ایک گھر کا فون نمبر دیا ہے کہ اگر کوئی واقعی کسی کی باعزت امداد کرنا چاہے تو ازخود حقیقت معلوم کرکے جو کرسکتا ہے وہ کرے، اسی طرح ہم میں سے کتنے ایسے افراد یا خاندانوں کو جانتے ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں نہ جہاں مفت راشن تقسیم کیا جاتا ہے وہاں دامن پھیلاتے ہیں مگر عزت کے ساتھ بے انتہا عسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ہماری ادا کی گئی زکوٰۃ وزارت عشر و زکوٰۃ یا مذہبی امور کی جانب سے ان تک نہیں پہنچتی۔
اخبارات میں سیٹھوں، تاجروں کے نام کے ساتھ کئی کئی من آٹا، چاول، چینی اور دالیں غربا میں تقسیم کرنے کی تصاویر شایع ہوتی ہیں، ٹی وی پر مناظر دکھائے جاتے ہیں ان کا احوال کچھ یوں ہے کہ جب راشن تقسیم کیا جاتا ہے تو ہٹے کٹے لوگ زور زبردستی سے تھیلے چھین کر لوگوں کو دھکے دے کر لے جاتے ہیں اور بھوکے کمزور افراد دھکے کھا کر خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو رش میں کچل کر زخمی بھی ہوتے ہیں۔ سال گزشتہ گلشن اقبال میں کئی خواتین اسی دھکم پیل میں کچل کر اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی تھیں کیا خیرات کا یہ طریقہ کار مناسب ہے جس میں مستحقین کو کچھ دینے سے زیادہ نمود و نمائش کا عنصر زیادہ شامل ہو؟ جب کہ زکوٰۃ وہ معاشی نظام ہے جس میں ایک ہاتھ دے تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔
ہمارے یہاں جو کام نیکی اور خیرات کے نام پر ہوتا ہے وہ بھی مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث ''خیر'' کے بجائے ''شر'' کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کسی سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ آخر یہ سب جاتا کہاں ہے؟ کیونکہ اگر یہ تمام رقم شرعی طریقے سے استعمال کی جاتی تو کیا اتنے برسوں بعد بھی ہمارے یہاں 60 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہوتی؟ زکوٰۃ پر پہلا حق غریب و نادار افراد کا ہی ہے، غربت بے شمار مسائل کی جڑ ہے حدیث مبارکہ ہے کہ ''ایک دروازے سے غربت داخل ہوتی ہے تو ایمان دوسرے دروازے سے نکل جاتا ہے'' ہمارے علما نان ایشوز پر تو بڑی پرزور تقاریر اور بیانات دیتے رہتے ہیں مگر ارکان دین میں تصرف، من مانی، نمائش اور نام و نمود کے خلاف ایک حرف بھی زبان و قلم سے ادا نہیں کرتے۔
ہم اور بہت سے غور و فکر کرنے والے موجودہ نظام سے اس لیے غیر مطمئن ہیں کہ اگر یہ درست ہوتا تو ملک سے غربت کب کی ختم ہوچکی ہوتی اور کوئی زکوٰۃ لینے والا باقی نہ رہتا۔ غربت معاشرے کی وہ بیماری ہے جو پورے معاشرتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے۔ غربت میں لوگ اور بہت کچھ تو کیا اپنی عزت تک ایک وقت کی روٹی کے لیے فروخت کردیتے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر چوری ڈکیتی بلکہ قتل جیسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا گیا ہے ''صدقہ و خیرات اس وقت تک قبول نہیں ہوتے جب تک مستحق تک نہ پہنچ جائیں۔''
ملک میں باقاعدہ وزارت عشر و زکوٰۃ موجود ہے۔ تمام اکاؤنٹ ہولڈرز کے اکاؤنٹ سے یکم رمضان کو ہر سال زکوٰۃ منہا کی جاتی ہے اور لوگ ازخود بھی بڑھ چڑھ کر رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم رکن ہے ۔
جس کو ہر صاحب نصاب اپنا فرض سمجھ کر ادا کرے اور حکومتی محکمہ اس کو شریعت کے مطابق استعمال کرے تو کسی بھی اسلامی ملک میں پانچ دس برس کے بعد زکوٰۃ لینے والا ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے۔ شرط یہ ہے کہ نصاب کے مطابق خلوص نیت سے زکوٰۃ ادا کی جائے اور زکوٰۃ جمع کرنے والے اس کو دیانتداری سے جو اس کا شرعی استعمال ہے، اسی طرح استعمال بھی کریں بینک سے زکوٰۃ منہا ہونے کے علاوہ ملک کا ہر فلاحی ادارہ حصول زکوٰۃ کے لیے بڑی بڑی اشتہاری مہم چلاتا ہے۔ کسی بھی نیک کام میں عوام کو زکوٰۃ ادا کرکے شامل ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ تمام سال ہر چھوٹی دکان سے لے کر بڑے بڑے اسٹورز، ہوٹل، ریسٹورنٹ کے کاؤنٹر پر زکوٰۃ کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں۔
لوگ خریداری یا ہوٹلز وغیرہ میں کھانا کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ رقم ان ڈبوں میں پوری عقیدت سے ڈال دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی کارخیر میں اپنا حصہ ڈال کر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔اس طرح نہ اسلامی طریقے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے اور اس پورے نظام میں زکوٰۃ (بلکہ ان کو چندہ کہا جائے تو بہتر ہوگا) ادا کرنے والے کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی رقم واقعی کسی کارخیر میں استعمال ہو رہی ہے یا کسی اور کی جیب میں جا رہی ہے۔
اگر یہ رقم عوام کے کسی اہم مسئلے کو حل کرنے میں خرچ ہو رہی ہے تو یہ ضرور کارخیر وگرنہ تو اپنے مال کو ضایع کرنا اور غیر مستحق کو فائدہ پہنچانا جس کا نتیجہ آخر کے نقصان کے سوا کچھ نہیں (کیونکہ اصل مستحق تو محروم ہی رہ جاتا ہے) عوامی مسائل میں ذرائع آمد و رفت حل کیا گیا ہو، اچھے معیاری اسپتال جہاں انسانی مساوات کی بنیاد پر ہر امیر و غریب یکساں سہولت سے مستفیض ہوئے ہوں۔ کوئی تعلیمی ادارہ جہاں غریب اور کم آمدنی والے افراد کے بچوں کو معیاری تعلیم مفت فراہم کی جا رہی ہو۔ کوئی ادارہ کسی کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر ضرورت مند سفید پوش ایسے افراد جس کا کوئی ذریعہ معاش نہ ہو، کسی قسم کی کوئی آمدنی نہ ہو اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ان کی عزت نفس کے خلاف ہو۔
اسلام نے ایسے ہی عزت دار، غیرت مند افراد کی امداد کے لیے نظام زکوٰۃ بطور نظام الٰہی متعارف کرایا تھا۔ احکام زکوٰۃ کی روح یہی ہے کہ کسی سیٹھ، صنعتکار، تاجر یا وڈیرے کا احسان مند ہوئے بغیر اپنے اللہ کی جانب سے ان کی باعزت گزر بسر کا انتظام ہو اور وہ کسی کے بھی سامنے محض اس لیے شرمندہ یا کسی کے بھی احسان مند نہ ہوں کہ فلاں صاحب نے ہمارا فلاں مسئلہ حل کیا تھا۔
محترمہ رئیس فاطمہ صاحبہ نے صرف ایک گھر کا فون نمبر دیا ہے کہ اگر کوئی واقعی کسی کی باعزت امداد کرنا چاہے تو ازخود حقیقت معلوم کرکے جو کرسکتا ہے وہ کرے، اسی طرح ہم میں سے کتنے ایسے افراد یا خاندانوں کو جانتے ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں نہ جہاں مفت راشن تقسیم کیا جاتا ہے وہاں دامن پھیلاتے ہیں مگر عزت کے ساتھ بے انتہا عسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ہماری ادا کی گئی زکوٰۃ وزارت عشر و زکوٰۃ یا مذہبی امور کی جانب سے ان تک نہیں پہنچتی۔
اخبارات میں سیٹھوں، تاجروں کے نام کے ساتھ کئی کئی من آٹا، چاول، چینی اور دالیں غربا میں تقسیم کرنے کی تصاویر شایع ہوتی ہیں، ٹی وی پر مناظر دکھائے جاتے ہیں ان کا احوال کچھ یوں ہے کہ جب راشن تقسیم کیا جاتا ہے تو ہٹے کٹے لوگ زور زبردستی سے تھیلے چھین کر لوگوں کو دھکے دے کر لے جاتے ہیں اور بھوکے کمزور افراد دھکے کھا کر خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو رش میں کچل کر زخمی بھی ہوتے ہیں۔ سال گزشتہ گلشن اقبال میں کئی خواتین اسی دھکم پیل میں کچل کر اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی تھیں کیا خیرات کا یہ طریقہ کار مناسب ہے جس میں مستحقین کو کچھ دینے سے زیادہ نمود و نمائش کا عنصر زیادہ شامل ہو؟ جب کہ زکوٰۃ وہ معاشی نظام ہے جس میں ایک ہاتھ دے تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔
ہمارے یہاں جو کام نیکی اور خیرات کے نام پر ہوتا ہے وہ بھی مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث ''خیر'' کے بجائے ''شر'' کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کسی سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ آخر یہ سب جاتا کہاں ہے؟ کیونکہ اگر یہ تمام رقم شرعی طریقے سے استعمال کی جاتی تو کیا اتنے برسوں بعد بھی ہمارے یہاں 60 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہوتی؟ زکوٰۃ پر پہلا حق غریب و نادار افراد کا ہی ہے، غربت بے شمار مسائل کی جڑ ہے حدیث مبارکہ ہے کہ ''ایک دروازے سے غربت داخل ہوتی ہے تو ایمان دوسرے دروازے سے نکل جاتا ہے'' ہمارے علما نان ایشوز پر تو بڑی پرزور تقاریر اور بیانات دیتے رہتے ہیں مگر ارکان دین میں تصرف، من مانی، نمائش اور نام و نمود کے خلاف ایک حرف بھی زبان و قلم سے ادا نہیں کرتے۔
ہم اور بہت سے غور و فکر کرنے والے موجودہ نظام سے اس لیے غیر مطمئن ہیں کہ اگر یہ درست ہوتا تو ملک سے غربت کب کی ختم ہوچکی ہوتی اور کوئی زکوٰۃ لینے والا باقی نہ رہتا۔ غربت معاشرے کی وہ بیماری ہے جو پورے معاشرتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے۔ غربت میں لوگ اور بہت کچھ تو کیا اپنی عزت تک ایک وقت کی روٹی کے لیے فروخت کردیتے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر چوری ڈکیتی بلکہ قتل جیسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا گیا ہے ''صدقہ و خیرات اس وقت تک قبول نہیں ہوتے جب تک مستحق تک نہ پہنچ جائیں۔''