احساس کی ضرورت ہے
ایک مثالی معاشرہ اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب ایک دوسرے کا احساس ایک دوسرے کے دل و دماغ میں موجود ہو۔
شہر کی مرکزی اور تجارتی شاہراہ کے بیچ و بیچ کھڑی اس کار کے ڈرایئور کے کان پر لگے موبائل فون میں اگر صرف تھرتھراہٹ سی ہوتی تو وہ شاید یہی سمجھتا کہ ایک اور کال درمیان میں آگئی ہے شاید، مگر اس کی کار نے دوبارہ جھٹکا لیا تو اسے احساس ہوا کہ یہ تو کچھ اور ہی معاملہ ہے، اور یہی جاننے کے لئے اس نے پہلے تو اپنی ائر کنڈیشنڈ کار کا شیشہ نیچے کیا اور جب گردن گھما کر پیچھے کی جانب دیکھا تو صورت حال واضح ہوئی کہ یہ تو پچھلی کار کی ٹکر تھی۔
اس کی کار ایسے زاویہ سے کھڑی تھی کہ ہر گزرنے والی ٹریفک کو نہ صرف آہستہ ہونا پڑ رہا تھا بلکہ کئی تو رک کر محتاط انداز سے اپنی سواری کو وہاں سے گزار رہے تھے۔ ایک قسمت جلی کار کے بمپر کی معمولی سی رگڑ نے گویا غضب کردیا۔ اب موصوف اپنی کار کا دروازہ کھلا چھوڑ کرجس جارحانہ انداز سے باہر نکلے تھے راہگیروں کو ایک اور تماشا دیکھنے کو مل گیا تھا۔ پل بھر میں ساری سڑک ہی بلاک ہو کر رہ گئی، جس کی جانب سے رگڑ لگی تھی وہ اپنی صفائی دے رہا تھا کہ جناب ایک تو آپ بیچ سڑک پر کار روک کر کھڑے ہیں، دوسرا آپ کو کافی ہارن بھی تھے، مگر آپ موبائل فون پر مصروف تھے۔
آپ پیسے بتائیں میں آپ کا نقصان پورا کر دیتا ہوں ٹکرانے والی گاڑی کے مالک نے کہا، مگر دوسرے صاحب کا کہنا تھا کہ انکے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ کافی دیر تک یہی تماشا چلتا رہا اور پھر آخر کار دونوں اپنی اپنی کار میں سوار ہوئے اور بھیڑ بھی چھٹ گئی۔ اسطرح کے واقعات عید کی گہما گہمی کے دوران زیادہ تواتر سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے بیشتر شہروں میں ابھی بھی وہی پرانے اور روایتی طرز تعمیر کے بازار ہی معاشی و ثقافتی سرگرمیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، جہاں زیادہ تر پیدل چل کر ہی خریداری کی جا سکتی ہے جبکہ ہر شخص اپنی سواری دوکان کے سامنے پارک کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تہوار میں ٹریفک بے ہنگم انداز اختیار کر کے مسائل کو بڑھا دیتا ہے۔
ایک شخص اپنے خاندان کے افراد کو بازار میں مطلوبہ دکان تک اتارنے کے بعد غیر مناسب جگہ گاڑی کھڑی کر کے محو انتظار ہوتا ہے کہ کب اہل خانہ کا فون آئے اور کب وہ دوبارہ سے انہیں لے کر واپس گھر روانہ ہو۔ اس انتظار کی کوفت سے بچنے کے لئے وہ سیل فون سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے، تیز رفتار انٹرنیٹ، ملٹی و سوشل میڈیا کی بدولت ساری دنیا سمٹ کر آپکی انگلیوں تلے آ جاتی ہے جو آپکو اس مقام سے بے خبر کر دیتی ہے جہاں آپ موجود ہوتے ہیں، جو ایسی صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست ٹریفک اہلکار کا کہنا ہے کہ میں جرمانے کرتا رہتا ہوں لیکن میرا مشاہدہ بلکہ تجربہ ہے کہ عوام دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال سے باز نہیں آتے، اور ساتھ ہی نو پارکنگ ایریا میں بھی گاڑی کھڑی کر چل پڑتے ہیں، جب کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے اور اس پر اچھا خاصا جرمانہ ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ان قوانین کو موثر بنایا جائے اور یہ شعور بیدار کیا جائے کہ قوانین انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اس لئے ان پر عملدرآمد نہایت ضروری ہے، ساتھ ہی اس خوف کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہے کہ لوگ قوانین کی خلاف ورزی کی سوچ سے بھی باز رہیں۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ سخت سے سخت سزائیں، قوانین یا جرمانوں کی مدد سے عارضی طور پر تو اس نوعیت کے جرائم کو روکا جاسکتا ہے، مگر ان کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس شعور کو زندہ رکھیں کہ ایک مثالی معاشرہ اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب ایک دوسرے کا احساس ایک دوسرے کے دل و دماغ میں موجود ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس کی کار ایسے زاویہ سے کھڑی تھی کہ ہر گزرنے والی ٹریفک کو نہ صرف آہستہ ہونا پڑ رہا تھا بلکہ کئی تو رک کر محتاط انداز سے اپنی سواری کو وہاں سے گزار رہے تھے۔ ایک قسمت جلی کار کے بمپر کی معمولی سی رگڑ نے گویا غضب کردیا۔ اب موصوف اپنی کار کا دروازہ کھلا چھوڑ کرجس جارحانہ انداز سے باہر نکلے تھے راہگیروں کو ایک اور تماشا دیکھنے کو مل گیا تھا۔ پل بھر میں ساری سڑک ہی بلاک ہو کر رہ گئی، جس کی جانب سے رگڑ لگی تھی وہ اپنی صفائی دے رہا تھا کہ جناب ایک تو آپ بیچ سڑک پر کار روک کر کھڑے ہیں، دوسرا آپ کو کافی ہارن بھی تھے، مگر آپ موبائل فون پر مصروف تھے۔
آپ پیسے بتائیں میں آپ کا نقصان پورا کر دیتا ہوں ٹکرانے والی گاڑی کے مالک نے کہا، مگر دوسرے صاحب کا کہنا تھا کہ انکے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ کافی دیر تک یہی تماشا چلتا رہا اور پھر آخر کار دونوں اپنی اپنی کار میں سوار ہوئے اور بھیڑ بھی چھٹ گئی۔ اسطرح کے واقعات عید کی گہما گہمی کے دوران زیادہ تواتر سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے بیشتر شہروں میں ابھی بھی وہی پرانے اور روایتی طرز تعمیر کے بازار ہی معاشی و ثقافتی سرگرمیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، جہاں زیادہ تر پیدل چل کر ہی خریداری کی جا سکتی ہے جبکہ ہر شخص اپنی سواری دوکان کے سامنے پارک کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تہوار میں ٹریفک بے ہنگم انداز اختیار کر کے مسائل کو بڑھا دیتا ہے۔
ایک شخص اپنے خاندان کے افراد کو بازار میں مطلوبہ دکان تک اتارنے کے بعد غیر مناسب جگہ گاڑی کھڑی کر کے محو انتظار ہوتا ہے کہ کب اہل خانہ کا فون آئے اور کب وہ دوبارہ سے انہیں لے کر واپس گھر روانہ ہو۔ اس انتظار کی کوفت سے بچنے کے لئے وہ سیل فون سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے، تیز رفتار انٹرنیٹ، ملٹی و سوشل میڈیا کی بدولت ساری دنیا سمٹ کر آپکی انگلیوں تلے آ جاتی ہے جو آپکو اس مقام سے بے خبر کر دیتی ہے جہاں آپ موجود ہوتے ہیں، جو ایسی صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست ٹریفک اہلکار کا کہنا ہے کہ میں جرمانے کرتا رہتا ہوں لیکن میرا مشاہدہ بلکہ تجربہ ہے کہ عوام دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال سے باز نہیں آتے، اور ساتھ ہی نو پارکنگ ایریا میں بھی گاڑی کھڑی کر چل پڑتے ہیں، جب کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے اور اس پر اچھا خاصا جرمانہ ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ان قوانین کو موثر بنایا جائے اور یہ شعور بیدار کیا جائے کہ قوانین انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اس لئے ان پر عملدرآمد نہایت ضروری ہے، ساتھ ہی اس خوف کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہے کہ لوگ قوانین کی خلاف ورزی کی سوچ سے بھی باز رہیں۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ سخت سے سخت سزائیں، قوانین یا جرمانوں کی مدد سے عارضی طور پر تو اس نوعیت کے جرائم کو روکا جاسکتا ہے، مگر ان کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس شعور کو زندہ رکھیں کہ ایک مثالی معاشرہ اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب ایک دوسرے کا احساس ایک دوسرے کے دل و دماغ میں موجود ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔