کھانسی کا سیرپ پینے سے اموات

افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ دوا جسے صحت کی غرض سے استعمال کیا گیا‘ موت کا پیغام لے کر آ گئی۔


Editorial November 26, 2012
خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کرنا ایک سنگین جرم گردانا گیا ہے کیونکہ ایسا شخص جو انسانی صحت اور زندگی سے کھیلے قطعاً معافی کے قابل نہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

انسانی زندگی کی بقا کے لیے جس طرح خوراک' پانی اور ہوا بنیادی عنصر ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو لاحق بیماریوں کے علاج اور زندگی کے تسلسل کو رواں رکھنے کے لیے دوا کی اہمیت مسلمہ ہے۔

مہذب ممالک میں انسانی صحت کو اولین ترجیح حاصل ہونے کے باعث خوراک اور ادویات کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور اس پر خطیر رقم صرف کی جاتی ہے۔معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ ناقابل تصور ہے نتیجتاً خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کرنا ایک سنگین جرم گردانا گیا ہے کیونکہ ایسا شخص جو انسانی صحت اور زندگی سے کھیلے قطعاً معافی کے قابل نہیں۔ ہمارے ہاں چلن ہی نرالا ہے،یہاں الٹی گنگا بہتی ہے، خوراک کے خالص ہونے کا تصور ہی ناپید ہو چکا ہے۔ حد یہ ہے کہ شہری ملاوٹ شدہ خوراک کے اس قدر عادی ہو چکے کہ وہ خالص خوراک کھانے سے بیمار ہو جاتے ہیں۔یہاں سب سے ارزاں انسانی جان ہے جس سے طاقتور جب چاہے جیسے چاہے بلا خوف و خطر کھیلنے میں آزاد ہے۔ خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کے انسداد کے لیے محکمے موجود ہیں مگر ملاوٹ کی فراوانی دیکھ کر یوں گماں ہوتا ہے کہ یہ محکمے ملاوٹ کے انسداد نہیں فروغ کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔

ہفتے کو لاہور کے علاقے شاہدرہ میں گیارہ افراد کھانسی کا زہریلا شربت پینے سے زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ چھ افراد اسپتال میں پہنچ گئے جن میں سے 4 پیر کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس المناک واقعے کے بعد دوا ساز فیکٹری سیل کر دی گئی اور وزیراعلیٰ پنجاب نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی نزلہ' زکام اور کھانسی کی بیماری عام ہونے سے متعلقہ ادویات کی طلب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ دوا جسے صحت کی غرض سے استعمال کیا گیا' موت کا پیغام لے کر آ گئی۔ اس سے قبل بھی لاہور کے اسپتال پنجاب کارڈیالوجی میں بہت سے دل کے مریض ناقص اور غیر معیاری دوا کے استعمال سے زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔پاکستان میں ادویات سازی منافع بخش کاروبار ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ دوا تیار کرتے وقت اس کے معیار کا خیال نہیں رکھتے۔

یہ غیر معیاری دوا جب پاس ہونے کے لیے جاتی ہے تو وہاں اثر ورسوخ یا رشوت سے اسے پاس کرالیا جاتا ہے ، یوں یہ غیر معیاری دوا مارکیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ میڈیکل اسٹورز مالکان زائد المیعاد ادویات سستے داموں خرید کر فروخت کرتے ہیں ۔ یہ پاکستان میں عام پریکٹس ہے۔ سرکاری اہلکار شاید زہر کو بھی بطور دوا کا لائسنس جاری کرنے سے نہ ہچکچائیں۔ جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو عوامی جوش کے ابال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انتظامیہ حرکت میں آ جاتی اور عارضی کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔ حکومت ملک بھر میں پولیو کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلاتی ہے مگر پولیو کے کیسز اب بھی منظر عام پر آ جاتے ہیں۔ پشاور کے بعض علاقوں میں آلودہ پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی کے انکشاف ہوا ہے۔کراچی اور دیگر شہروں کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ حکومت اگر حقیقی معنوں میں خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی کرے تو امید ہے کہ کم از کم ادویات کو ملاوٹ یا نقائص سے پاک کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں