لمبے بوٹوں اور فضائی دوروں کا موسم
حکومتیں بدل گئیں، افسران تبدیل ہو گئے مگر جو نہیں بدلا وہ نظام ہے۔
لیجئے جناب! وطن عزیز میں مون سون کا آغاز قریباً ہوچکا ہے، ہر سال جون کے آخری ہفتے سے مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق شروع ہوتی ہیں اور یوں سارا سال پانی کو ترسنے والا ملک ان دنوں پانی میں ڈوب جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گلی محلوں سے لیکر ٹیلی ویژن کی اسکرینوں، اخبارات کے صفحات اور ٹاک شوز کے موضوعات تک پانی ہی پانی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر نیوز بلیٹن کا آغاز اس خبر سے ہوتا ہے کہ پانی کہاں تک پہنچ گیا ہے اور کتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ہمارے ہاں تبدیلی چونکہ دیر سے نہیں بلکہ بہت دیر سے آتی ہے اس لئے یہ سمجھنا فضول ہے کہ اس دفعہ کچھ مختلف ہوگا بلکہ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی پوری کوشش ہے کہ اس تسلسل کو اسی طرح برقرار رکھا جائے۔
حالیہ تاریخ میں پہلا سیلاب 2010ء میں گزشتہ دور حکومت میں آیا تھا جس سے ملکی معیشت کو قریباً پانچ بلین ڈالر کا نقصان پہنچا، کتنے ہی متاثرین بے گھر ہوئے اور معیشت کا پہیہ جام ہوا، مگر چونکہ ہم دنیا سے الگ چلتے ہیں اور اسی نرالی چال کی وجہ سے ہم نے اس تباہی سے نپٹنے کا حل یہ نکالا کہ اسے اپنے معمول کا حصّہ بنالیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن مون سون کا آغاز ہمارے لئے وہ تباہی لے کر آتا ہے جس کا ہمیں پہلے سے بخوبی علم ہوتا ہے۔
سیلابی ریلے اور دریاؤں کی صورتحال پر گفتگو بعد میں کرتے ہیں، پہلے ہمارے ترقی یافتہ شہروں پر ایک نظر دوڑالی جائے تو بہتر ہے۔ موجودہ پنجاب حکومت جس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے سب سے پہلا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس نے پورے صوبے کے وسائل صرف ایک شہر میں لگا دیئے ہیں۔ جس کی مثالوں میں سرِفہرست 50 ارب کی میٹرو بس اور اب 180 ارب کی اورنج ٹرین شامل ہیں۔ باقی درجنوں انڈر پاس اور فلائی اوور اس کے علاوہ ہیں اور دوسری جانب سے یہ حکومتی موقف سامنے آتا ہے کہ ہم دارالخلافہ کو پیرس بنانے کی جانب گامزن ہیں۔
اس ترقی کی اصلیت جاننا ہو تو 20 منٹ کی ایک بارش کے بعد لاہور شہر میں نکل کر دیکھ لیجئے آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ اربوں کے فنڈز سے محض پانی کے تالاب بنائے گئے ہیں یا میٹرو کی پل پر فوارے لگائے گئے ہیں جو بارش کے پانی کی نکاسی نیچے سے گزرنے والی ٹریفک پر کرتے ہیں اور اگر آپ ترقی کے ان میناروں سے تھوڑا ہٹ کر کسی گلی، محلے میں داخل ہوجائیں تو یوں محسوس ہوگا کہ گویا آپ پیرس سے وینس میں داخل ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب اب جبکہ راولپنڈی میں بھی شاندار میٹرو بنادی گئی ہے مگر راولپنڈی کے مشہور نالہ لئی کے پانی سے نپٹنے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق نالہ لئی میں نہ سیلاب کی پیشگی اطلاع ہوگی اور نہ ہی خبردار کرنے کا نظام کام کرے گا۔ برسات میں نالہ لئی میں کتنا پانی آرہا ہے، بارش کہاں کتنی برسی، پانی کا بہاؤ کس رفتار سے ہے، نالہ لئی کس تیز رفتاری سے بہہ رہا ہے، پانی خطرے کے نشان سے قریب ہے یا آبادی کو خالی کرنے کا وقت آگیا ہے، محکمہ موسمیات کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہوگا۔
اُدھر سندھ کے دارالخلافہ کراچی شہر پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی وہی پارٹی برسرِاقتدار ہے جس نے گزشتہ پانچ سال بھی حکومت میں گزارے مگر حالات اور معاملات ہیں کہ وہ بھی قائم سرکار کی طرح وہیں قائم ہیں۔ ابھی دو دن پہلے آدھے گھنٹے کی بارش کے بعد شہر کی حالت بگڑ کر رہ گئی تھی۔ بجلی کے فیڈر ٹرپ کرگئے اور آدھے شہر نے اندھیرے میں افطاری کی، گویا شہر کراچی کے مکینوں کے لئے یہ بارانِ رحمت کا بھتہ تھا جو حکومت کی جانب سے وصول کیا گیا۔
یہ تو بات ہوگئی ان شہروں کی جہاں آزاد میڈیا کے کیمرے بھی موجود ہیں، سوشل میڈیا کی طاقت بھی قائم ہیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی حرکت میں ہیں، عدالتیں اور اشرافیہ بھی موجود ہیں اور جن کے بارے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ وہ ترقی کر رہے ہیں، مگر حالات پھر بھی جوں کے توں ہیں۔ اب چلتے ہیں اس طرف جہاں پہلے سے غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، افلاس، بیروزگاری کی داستانیں ہیں۔ بجلی، گیس، سیوریج اور بنیادی سہولیات نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یعنی کہ پنجاب اور سندھ کے وہ دیہی علاقے جو دریاؤں اور نہروں کے ساتھ واقع ہیں اور ہر سال سیلاب کی زد میں آنا ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
ہر سال ہزاروں مویشی مرتے ہیں، سینکڑوں انسان پانی کی بے رحم موجوں کے آگے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، درجنوں دیہات اپنی فصلوں سمیت زیر آب آجاتے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے اس نقصان کو ''قدرتی آفت'' کے کھاتے میں ڈال کر اپنا دامن بچالیا جاتا ہے۔ حالانکہ جس آفت کے متعلق معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی روک تھام نہ کی جائے اسے آفت کہا جائے یا حکمرانوں اور بیورو کریسی کی نا اہلی اور غفلت؟
یہ بات ہر زی شعور کو معلوم ہے کہ اس موسم میں ملک میں بارشیں زیادہ ہوں گی، ہمارے ہمسائے میں واقع بھارت کے ڈیمز میں پانی جب زیادہ ہوگا تو وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اضافی پانی کا رخ ہماری طرف کردے گا، دریاؤں میں طغیانی ہوگی اور سیلاب کا اندیشہ ہوگا مگر اس سب کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم تو وہ حکومت وقت اور متعلقہ محکموں کی بیورو کریسی ہے۔ جن کے پاس کرنے کے لئے اور بہت سے کام ہیں، ہمارے ہاں ان آفات سے نپٹنے کے لیے ایک ادارہ موجود ہے جسے این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کہتے ہیں، مگر پچھلے کچھ سالوں سے اس کا کام صرف ٹی وی چینلوں کو یہ مطلع کرنا ہے کہ اب تک کتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور کتنے دیہات سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔
ایک حوالے سے مون سون کا موسم حکمرانوں اور بیورو کریسی کا پسندیدہ موسم بھی ہے، صوبوں اور مرکز کے وہ کرتا دھرتا جو سارا سال مخالفین کو چپ کروانے میں لگے رہے، سیلاب آنے کے بعد لمبے لمبے بوٹ پہن کر ہیلی کاپٹر میں سوار ہوں گے اور متاثرین کے پاس پہنچ کر ان کی داد رسی کے لئے لمبی لمبی تقریریں بھی جھاڑ دیں گے۔ کیمرے کی موجودگی میں امدادی سامان تقسیم کرنے کی رسم کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ دوسری جانب سرکاری افسران کو مال بنانے کا نایاب موقع مل جائے گا۔ ہنگامی سیلابی بجٹ کا اعلان ہوگا، سیلابی پشتوں کی مرمت، سیمنٹ، بجری، خیمے اور دوسری چیزیں ہنگامی طور پر خریدی جائیں گی اور یوں جہاں بہت سارے متاثرین کے گھر اُجڑیں گے وہیں بہت سارے سرکاری افسروں کے گھر ''سنوریں'' گے بھی ضرور۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سارے معاملات ہمیشہ اسی طرح ہی چلتے رہیں گے یا کچھ بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ دنیا میں سیلاب جیسی آفات سے نپٹنے کا باقاعدہ نظام موجود ہے جب کہ ہمارے ہاں کچھ کرنے کی جستجو تک نہیں۔ حکومتیں بدل گئیں، افسران تبدیل ہوگئے مگر جو نہیں بدلا وہ نظام ہے۔ پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہوش سنبھالنے کی روایت ابھی بھی برقرار ہے اور لگتا یہی ہے کہ اس دفعہ بھی سیلاب آئے گا، مگر حکومتی سطح پر سیلاب کے دوران کمیشن کھایا جائے گا اور سیلاب کے بعد صرف کمیشن بنایا جائے گا۔
[poll id="1156"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
حالیہ تاریخ میں پہلا سیلاب 2010ء میں گزشتہ دور حکومت میں آیا تھا جس سے ملکی معیشت کو قریباً پانچ بلین ڈالر کا نقصان پہنچا، کتنے ہی متاثرین بے گھر ہوئے اور معیشت کا پہیہ جام ہوا، مگر چونکہ ہم دنیا سے الگ چلتے ہیں اور اسی نرالی چال کی وجہ سے ہم نے اس تباہی سے نپٹنے کا حل یہ نکالا کہ اسے اپنے معمول کا حصّہ بنالیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن مون سون کا آغاز ہمارے لئے وہ تباہی لے کر آتا ہے جس کا ہمیں پہلے سے بخوبی علم ہوتا ہے۔
سیلابی ریلے اور دریاؤں کی صورتحال پر گفتگو بعد میں کرتے ہیں، پہلے ہمارے ترقی یافتہ شہروں پر ایک نظر دوڑالی جائے تو بہتر ہے۔ موجودہ پنجاب حکومت جس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے سب سے پہلا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس نے پورے صوبے کے وسائل صرف ایک شہر میں لگا دیئے ہیں۔ جس کی مثالوں میں سرِفہرست 50 ارب کی میٹرو بس اور اب 180 ارب کی اورنج ٹرین شامل ہیں۔ باقی درجنوں انڈر پاس اور فلائی اوور اس کے علاوہ ہیں اور دوسری جانب سے یہ حکومتی موقف سامنے آتا ہے کہ ہم دارالخلافہ کو پیرس بنانے کی جانب گامزن ہیں۔
اس ترقی کی اصلیت جاننا ہو تو 20 منٹ کی ایک بارش کے بعد لاہور شہر میں نکل کر دیکھ لیجئے آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ اربوں کے فنڈز سے محض پانی کے تالاب بنائے گئے ہیں یا میٹرو کی پل پر فوارے لگائے گئے ہیں جو بارش کے پانی کی نکاسی نیچے سے گزرنے والی ٹریفک پر کرتے ہیں اور اگر آپ ترقی کے ان میناروں سے تھوڑا ہٹ کر کسی گلی، محلے میں داخل ہوجائیں تو یوں محسوس ہوگا کہ گویا آپ پیرس سے وینس میں داخل ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب اب جبکہ راولپنڈی میں بھی شاندار میٹرو بنادی گئی ہے مگر راولپنڈی کے مشہور نالہ لئی کے پانی سے نپٹنے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق نالہ لئی میں نہ سیلاب کی پیشگی اطلاع ہوگی اور نہ ہی خبردار کرنے کا نظام کام کرے گا۔ برسات میں نالہ لئی میں کتنا پانی آرہا ہے، بارش کہاں کتنی برسی، پانی کا بہاؤ کس رفتار سے ہے، نالہ لئی کس تیز رفتاری سے بہہ رہا ہے، پانی خطرے کے نشان سے قریب ہے یا آبادی کو خالی کرنے کا وقت آگیا ہے، محکمہ موسمیات کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہوگا۔
اُدھر سندھ کے دارالخلافہ کراچی شہر پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی وہی پارٹی برسرِاقتدار ہے جس نے گزشتہ پانچ سال بھی حکومت میں گزارے مگر حالات اور معاملات ہیں کہ وہ بھی قائم سرکار کی طرح وہیں قائم ہیں۔ ابھی دو دن پہلے آدھے گھنٹے کی بارش کے بعد شہر کی حالت بگڑ کر رہ گئی تھی۔ بجلی کے فیڈر ٹرپ کرگئے اور آدھے شہر نے اندھیرے میں افطاری کی، گویا شہر کراچی کے مکینوں کے لئے یہ بارانِ رحمت کا بھتہ تھا جو حکومت کی جانب سے وصول کیا گیا۔
یہ تو بات ہوگئی ان شہروں کی جہاں آزاد میڈیا کے کیمرے بھی موجود ہیں، سوشل میڈیا کی طاقت بھی قائم ہیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی حرکت میں ہیں، عدالتیں اور اشرافیہ بھی موجود ہیں اور جن کے بارے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ وہ ترقی کر رہے ہیں، مگر حالات پھر بھی جوں کے توں ہیں۔ اب چلتے ہیں اس طرف جہاں پہلے سے غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، افلاس، بیروزگاری کی داستانیں ہیں۔ بجلی، گیس، سیوریج اور بنیادی سہولیات نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یعنی کہ پنجاب اور سندھ کے وہ دیہی علاقے جو دریاؤں اور نہروں کے ساتھ واقع ہیں اور ہر سال سیلاب کی زد میں آنا ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
ہر سال ہزاروں مویشی مرتے ہیں، سینکڑوں انسان پانی کی بے رحم موجوں کے آگے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، درجنوں دیہات اپنی فصلوں سمیت زیر آب آجاتے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے اس نقصان کو ''قدرتی آفت'' کے کھاتے میں ڈال کر اپنا دامن بچالیا جاتا ہے۔ حالانکہ جس آفت کے متعلق معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی روک تھام نہ کی جائے اسے آفت کہا جائے یا حکمرانوں اور بیورو کریسی کی نا اہلی اور غفلت؟
یہ بات ہر زی شعور کو معلوم ہے کہ اس موسم میں ملک میں بارشیں زیادہ ہوں گی، ہمارے ہمسائے میں واقع بھارت کے ڈیمز میں پانی جب زیادہ ہوگا تو وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اضافی پانی کا رخ ہماری طرف کردے گا، دریاؤں میں طغیانی ہوگی اور سیلاب کا اندیشہ ہوگا مگر اس سب کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم تو وہ حکومت وقت اور متعلقہ محکموں کی بیورو کریسی ہے۔ جن کے پاس کرنے کے لئے اور بہت سے کام ہیں، ہمارے ہاں ان آفات سے نپٹنے کے لیے ایک ادارہ موجود ہے جسے این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کہتے ہیں، مگر پچھلے کچھ سالوں سے اس کا کام صرف ٹی وی چینلوں کو یہ مطلع کرنا ہے کہ اب تک کتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور کتنے دیہات سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔
ایک حوالے سے مون سون کا موسم حکمرانوں اور بیورو کریسی کا پسندیدہ موسم بھی ہے، صوبوں اور مرکز کے وہ کرتا دھرتا جو سارا سال مخالفین کو چپ کروانے میں لگے رہے، سیلاب آنے کے بعد لمبے لمبے بوٹ پہن کر ہیلی کاپٹر میں سوار ہوں گے اور متاثرین کے پاس پہنچ کر ان کی داد رسی کے لئے لمبی لمبی تقریریں بھی جھاڑ دیں گے۔ کیمرے کی موجودگی میں امدادی سامان تقسیم کرنے کی رسم کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ دوسری جانب سرکاری افسران کو مال بنانے کا نایاب موقع مل جائے گا۔ ہنگامی سیلابی بجٹ کا اعلان ہوگا، سیلابی پشتوں کی مرمت، سیمنٹ، بجری، خیمے اور دوسری چیزیں ہنگامی طور پر خریدی جائیں گی اور یوں جہاں بہت سارے متاثرین کے گھر اُجڑیں گے وہیں بہت سارے سرکاری افسروں کے گھر ''سنوریں'' گے بھی ضرور۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سارے معاملات ہمیشہ اسی طرح ہی چلتے رہیں گے یا کچھ بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ دنیا میں سیلاب جیسی آفات سے نپٹنے کا باقاعدہ نظام موجود ہے جب کہ ہمارے ہاں کچھ کرنے کی جستجو تک نہیں۔ حکومتیں بدل گئیں، افسران تبدیل ہوگئے مگر جو نہیں بدلا وہ نظام ہے۔ پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہوش سنبھالنے کی روایت ابھی بھی برقرار ہے اور لگتا یہی ہے کہ اس دفعہ بھی سیلاب آئے گا، مگر حکومتی سطح پر سیلاب کے دوران کمیشن کھایا جائے گا اور سیلاب کے بعد صرف کمیشن بنایا جائے گا۔
[poll id="1156"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔