کراچی اک شہرِبے اماں پہلا حصہ
وہ شہرجو قیام پاکستان سے بہت پہلے ایک اربن تجارتی مرکز کے طورپر اپنی شناخت بناچکاتھا،آج زخم زخم ہے۔
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہاتھا۔آج بھی ایک روم جل رہا ہے، مگر ایک نہیںکئی نیروبانسریاں بجارہے ہیں۔وہ شہرجو قائدکا مولد ومدفن ہے۔
جو اس ملک کا پہلادارالحکومت رہاہے،آج آسیب زدہ ہوچکاہے۔وہ شہرجو قیام پاکستان سے بہت پہلے ایک اربن تجارتی مرکز کے طورپر اپنی شناخت بناچکاتھا،آج زخم زخم ہے۔یہ شہر سوبرس پہلے بھی ملک کے دیگر شہروں سے مختلف تھا،آج بھی مختلف ہے۔مگر اس وقت انگریز کی دانشمندی اور پارسی اورہندوکمیونٹی کی اربن سوچ کے نتیجے میں ترقی کی منازل طے کررہاتھا۔آج قبائلی اورجاگیردارانہ ذہنیت کی حامل سیاسی قیادتوںاورنا اہل اورکرپٹ انتظامیہ کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے۔کئی برسوں سے روزانہ درجن بھرافرادکسی نہ کسی سبب لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
ان میں زیادہ تر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار کوئی اہم شخصیت اس دہشت گردی کانشانہ بن جائے،تو اس کے ردعمل میں پھر درجن بھر یا اس سے زائد افراد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑجاتا ہے۔آگ و خون کا یہ کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے وقفے وقفے سے جاری ہے۔روزانہ میتیں اٹھ رہی ہیں،مگر سوائے ذرایع ابلاغ پر بیٹھ کربقراطیت جھاڑنے کے کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آرہا۔ کراچی جو ملک کا واحد میٹروپولیٹن شہر ہے، اس صورتحال سے کیوں دوچار ہے، اس پر موضوع پرسیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔
کراچی کی سیاسی،سماجی ،معاشی،معاشرتی اور ثقافتی زندگی پر گزشتہ تین دہائیوں کے دوران خاص طورپر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔اب تک ہزاروں کی تعداد میںاظہاریے اور اداریے شایع ہوچکے ہیں،جن میںاس شہر کے مسائل کا ہر زاویے سے احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔صرف قومی اخبارات ہی نہیں،بلکہ عالمی ذرایع ابلاغ میں بھی اس شہر کی صورتحال پر تبصرے شایع ہوتے رہتے ہیں۔ نومبر1994ء میںٹائمزلندن میںشایع ہونے والے ایک مضمون میں کراچی کو ''امراء اور بکھرے خوابوں کا شہر'' قرار دیاگیاتھا۔1990ء کے عشرے میںمعروف مارکسی دانشور حمزہ علوی نے اپنے مقالے میںاس شہر کے تاریخی پس منظر ،سماجی ڈھانچے،معاشی مسائل اورسیاسی درجہ بندیوں پر تفصیل کے ساتھ بحث کی۔یہ مقالہ ارتقاء کے چھ شماروں میں قسط وار شایع ہوچکاہے ۔
سٹی پریس کی جانب سے کراچی پر دو جلدوں میں کتاب بھی شایع ہوئی ہے، جو اس شہر کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ارتقاء کی کہانی سناتی ہے۔لیکن محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ لکھاگیاہے وہ بہت کم ہے اور ابھی اس شہر کے بارے میںبہت کچھ کہنے اورلکھنے کو باقی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر مسلسل کروٹیں بدل رہاہے اور اس کی سیاسی،سماجی اور ثقافتی زندگی میں ہر طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ نئی اور چونکادینے والی خوش رنگ اور دردناک تبدیلیاں رونماء ہورہی ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس شہر کا اصل مسئلہ فرقہ وارانہ آویزش ہے۔کچھ دانشوراسے لسانی چپقلشوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں شہر کے مسائل کا سبب امراء اورغرباء کی بستیوں میں سہولیات کابڑھتا ہوا فرق ہے ۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ،لیکن اس شہر کے مسائل کوجوایک پیچیدہ میٹروپولیس بن چکاہے، پاکستان میں قائم ہونے والی نمایندہ اورغیر نمایندہ حکومتوں کی ناکامی کے تناظر میںدیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سے قبل کراچی پونے چار لاکھ آبادی کا ایک انتہائی پرسکون تجارتی مرکز تھا۔ جس کی معاشی سرگرمیوں میںزیادہ تر ہندواور پارسیوں کے علاوہ مسلمانوں کی اسماعیلی اور بوہرہ کمیونٹیزشریک تھیں۔شہر کی سماجی سرگرمیوں میں بھی انھی کمیونیٹیز کا عمل دخل تھا۔قیام پاکستان کے بعد صرف ایک لاکھ کے قریب ہندوئوں نے نقل مکانی کی، جنکی جگہ تقریباً 13لاکھ کے قریب افراد کا فوری بوجھ اس شہر پر پڑا، ان میں سے 10لاکھ افراد نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اس شہر کا رخ کیاتھا،جب کہ تین لاکھ کے قریب لوگ ملک کے مختلف حصوں سے اس شہرکی طرف آئے تھے۔
1947ء میں کراچی کو وفاقی دارالحکومت بنانے کے بعد نامساعد حالات کے باوجود شہرکے لیے ٹائون پلاننگ کا آغاز کیا گیا۔اس منصوبے کے تحت چونکہ مستقبل قریب میں وفاقی دفاتر کو گڈاپ کے علاقے میں منتقل ہونا تھا، جس کے لیے زمین اور علاقے کا تعین وزیراعظم لیاقت علی خان نے کرلیاتھا۔لہٰذا جدید ٹائون پلاننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کم آمدنی والے افراد کو دفاتر سے قریب آباد کرنے کے لیے نئی کراچی کا انتخاب کیا گیا۔اس سے ملحقہ علاقے میںیعنی نارتھ ناظم آبادکو اعلیٰ سرکاری افسران ،تاجروں صنعت کاروں اور متمول شہریوں کے لیے مختص کیا گیاتھا۔اس کے ساتھ ہی گڈاپ سے بندرگاہ تک دو رویہ چوڑی سڑک بندرگاہ تک تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔صنعتکاری کے لیے سائٹ اور لانڈھی، کورنگی کے علاقوں کو منتخب کیا گیاتھا۔
جن سے ملحقہ زمین پر مزدوروں کے لیے بستیاں تجویز کی گئی تھیں۔ میٹروول ون اور کورنگی کا علاقہ اسی زمانے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔اس کے علاوہ وفاقی ملازمین کی رہائشی سوسائٹی کے لیے گورا قبرستان سے آگے زمین الاٹ کی گئی،جو آج PECHSکہلاتی ہے۔لیاقت آباد، ناظم آباداورڈرگ کالونی(شاہ فیصل)وغیرہ کی بستیوںکا منصوبہ بھی1950ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں کے دوران منظور ہوکرشروع ہوا۔یہ منصوبے شہری منصوبہ بندی میں جدید ٹائون شپ پلاننگ کے تمام اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے شروع کیے گئے تھے۔یوں 1948ء سے1958ء کے دوران کراچی کے لیے ہونے والی منصوبہ بندی وفاقی دارالحکومت کے وقت کے ساتھ متوقع پھیلائو کو سامنے رکھ کرکی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 1958-59ء میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس(PIDE) کی جانب سے شہر کاپہلااور آخری وسیع البنیاد سروے کیا گیا۔اس کے بعد اس کی زحمت گوارانھیں کی گئی۔ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ گزشتہ52برس کے دوران شہر کی آبادی میں بیس گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے،مگراس کے باجود آج تک جامع سروے کی کوشش نہیں کی گئی۔صرف مردم شماری کے اعدادوشمار پرتکیہ کیا گیا،جن پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں، کیونکہ ان میں ہمیشہ گھپلاکیاگیا۔
1959ء میں دارالحکومت مرگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں منتقل ہونے کے بعد اس شہر سے حکمرانوں کی توجہ بھی ہٹ گئی۔کراچی،جو ملک کی70فیصد صنعت اور60فیصد تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے،ایک شہر بے نکیل ہوکر رہ گیاہے۔چونکہ کراچی ملک کا واحد صنعتی وتجارتی مرکز ہے،اس لیے پورے ملک سے آبادی کا بہائو اس جانب ہونا فطری امر ہے۔ایوب خان کے ابتدائی دور میں ان کے وزیر بحالیات جنرل اعظم خان نے اپنی کوششوں سے کورنگی انڈسٹریل ایریا کے قریب کورنگی بسانے میں تو خصوصی دلچسپی دکھائی، مگر ان کے وزارت سے الگ ہونے کے بعد نہ کسی وزیر اور نہ ہی نوکرشاہی نے شہر میں آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے مدنظر وسیع البنیاد منصوبہ بندی پرتوجہ دی ۔
نتیجتاًروزگار کی تلاش میںپورے ملک سے آنے والے غریب محنت کشوں کو سرچھپانے کے لیے جب کوئی جگہ نہیں ملی تو انھوں نے پکی بستیوں کے اطراف،شہر کے مغرب میںموجود پہاڑی کے علاوہ شہر سے گذرنے والی دو بڑی ندیوں اور پانچ برساتی نالوں کے اطراف کچی بستیاںآباد کرنا شروع کردیں۔لازمی طورپران بستیوں کے مکینوں نے شہر کی دی جانے والی یوٹیلیٹیز کا غیر قانونی استعمال بھی شروع کردیا۔جس کی وجہ سے شہر میں تنائو کی ایک خاموش فضاء بہت پہلے پیدا ہوچکی تھی، جس نے وقت گذرنے کے ساتھ لسانی رنگ اختیار کرلیا،مگراس کا ادراک نہیں کیاگیا۔آج یہ کچی بستیاں کالعدم تنظیموں اور شدت پسند عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔ان میں اسلحے اور منشیات کے انبار لگے ہوئے ہیں اور پولیس سمیت تمام انتظامی ادارے اس کھیل کے حصے دارہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ کراچی کا اصل مسئلہ نظم حکمرانی کی ناکامی ہے۔ایوب خان سے لے کر تادم تحریرکسی منتخب یا غیر منتخب حکومت نے اس شہر کی میٹروپولیٹن حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے اس کے لیے ملک کے دیگر شہروں سے مختلف طرز حکمرانی کا تعین کرنے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ جبراً ایک انتہائی فرسودہ نو آبادیاتی انتظامی ڈھانچے کومسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائے جانے والے مقامی حکومتی نظام کے تحت اس شہر کو کسی حد تک اپنے میٹروپولیٹن تشخص کے ساتھ ترقی کرنے کا موقع ملاتھا،مگر اس نظام کو تمام سیاسی جماعتوں نے محض پرویزمشرف کی دشمنی میں لپیٹ دیا۔حال ہی میںپیپلز پارٹی نے سندہ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری کیا،جس میں بیشمار سقم ہیں، لیکن قوم پرستوں کی مخالفت کی وجہ سے اس پربھی عمل درآمد بھی مشکل نظر آرہا ہے۔
(جاری ہے ۔)