لے سانس بھی آہستہ
تمام سیاسی پارٹیاں اس نکتے پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی ریل گاڑی کو اب کسی بھی صورت میں پٹڑی سے اُترنے نہیں دینا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وطنِ عزیز اس وقت اپنی 65 سالہ تاریخ کے انتہائی سنگین اورنازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔
ایک جانب وہ بیرونی طاقتیں ہیں جنھیں اس ملک کا وجود تک گوارا نہیں ہے اور دوسری جانب وہ حلقے ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ دریں اثناء ایک خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ ایک جمہوری حکومت (اچھی یا بُری) ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدتِ حکمرانی مکمل کرنے کے قریب ہے۔
ایک اور خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ آپس کی تُوتُو، میں، میں اور آئے دن کی منہ ماری اور تکرار کے باوجود ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اس نکتے پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی ریل گاڑی کو اب کسی بھی صورت میں پٹڑی سے اُترنے نہیں دینا۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ایک اور حوصلہ افزاء پیش رفت یہ بھی ہے کہ ایک بے داغ شہرت کے حامل چیف الیکشن کمشنر کی ولولہ انگیز قیادت و نگرانی میں ہمارا الیکشن کمیشن ملک میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے انتہائی فعال اور پُرعزم ہے۔
وطنِ عزیز کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے جب ایک غیر جانب دار اور باوقار عدلیہ آئین، قانون اور انصاف کی حکمرانی کے لیے پُرعزم اورکمربستہ ہے اور اس کی نیت یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں انصاف اور جمہوریت کا ہمیشہ کے لیے بول بالا ہو۔ بلاشبہ امن کا سہرا ان تمام وکلاء کے سر ہے جنہوں نے ملک میں عدلیہ کی بحالی اور استحکام کے لیے لائق تحسین قربانیاں دے کر ایک انتہائی کامیاب تحریک چلائی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف عدلیہ بحال ہوئی بلکہ اس نے اپنی بحالی کے بعد انصاف کے تقاضوں کی تکمیل اور جمہوریت کے استحکام کے لیے قابلِ تعریف کردار بھی ادا کیا۔ دوسری جانب ریاست کے اہم ترین ستون یعنی افواجِ پاکستان نے بھی ملک کی تاریخ میں پہلی بار اپنا انتہائی پاکیزہ اور بے لوث کردار ادا کرکے آئین کی بالادستی کو نہ صرف صدقِ دل سے قبول کیا ہے بلکہ عملاً ثابت بھی کردکھایا ہے۔
بلاشبہ اس کے لیے ہماری محبِ وطن فوج کے سالارِ اعظم جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے رفقائے کار بجا طور پر تعریف و تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ جنرل کیانی کی مخلصانہ قیادت میں فوج کے ادارے نے عدلیہ کا نہ صرف مسلسل احترام کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کیا ہے۔اب جب کہ جمہوریت کی بیل خدا خدا کرکے منڈھے چڑھ رہی ہے اور آیندہ عام انتخابات سر پر ہیں بعض عناصر کی مذموم کوشش ہے کہ ریاست کے دونوں انتہائی اہم ستونوں یعنی عدلیہ اور فوج کو ایک دوسرے سے بھڑا دیا جائے تاکہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور ملک اندرونی کشمکش اور بدامنی کا شکار ہوجائے۔
عدالت عظمیٰ نے مدتِ دراز سے زیرِ التواء ایئر مارشل (ر) اصغر خاں کیس میں اپنا بے لاگ اور جرأتمندانہ فیصلہ دیا ہی تھا کہ آستینوں میں چھپے ہوئے سانپ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے یک بہ یک باہر نکل آئے۔ وطنِ عزیز کے ازلی دشمنوں کو یہ بات بُری طرح سے کھٹک رہی تھی کہ ریاست کے دو اہم ترین ادارے یعنی پاکستانی فوج اور عدلیہ تمام تر ریشہ دوانیوں، سازشوں اور تنقید برائے تنقید کے باوجود آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوری نظام کو کیوں قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں اور باہم گتھم گتھا کیوں نہیں ہورہے؟ انھیں سب سے زیادہ تکلیف شاید اس بات سے ہے کہ ہماری موجودہ فوجی قیادت حصولِ اقتدار کی خواہش سے قطعی بے نیاز ہوکر ماضی کی انفرادی غلطیوں کی اصلاح کے لیے اتنی سنجیدگی اور اخلاصِ نیت کے ساتھ کیوں کوشاں ہے، ان کے لیے یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز کے رکھوالے ہوسِ حکمرانی سے بالاتر ہوکر دہشتگردی کے خلاف بے دریغ اور بے مثال قربانیوں کی تاریخ کیوں رقم کر رہے ہیں؟سچی اور کھری بات یہ ہے کہ مقدس گائے کا درجہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہے اور کوئی بھی فرد یا ادارہ احتساب کے عمل سے بالاتر نہیں ہے۔
ہماری تابندہ اور قابلِ تقلید روایت یہی ہے کہ سوال خلیفۂ وقت سے بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ قانون اور انصاف کی نظر میں ہر کوئی برابر ہے، بے شک کھڑا احتساب ہر فرد اور ادارے کا ہونا چاہیے۔ سو اصغر خاں کیس میں عدالتِ عظمیٰ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے پس پشت بھی یہی نیک نیتی کار فرما ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے فوج کے دو اعلیٰ ریٹائرڈ افسروں کے نامۂ اعمال پر قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق گرفت کرتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کیا ہے اور حکومت وقت کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ خیال رہے کہ اس کارروائی کا تعلق محض افراد سے ہے، فوج کے ادارے سے نہیں۔ دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ فیئر ٹرائل کے دوران ملزمان کو اپنے اپنے دفاع اور صفائی پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا۔
علاوہ ازیں دونوں ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران نے بذاتِ خود بھی نہایت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ تحقیقات کے عمل سے گزرتے ہوئے قوم کو تمام حقائق سے آگاہ کریں گے۔ اس طرح ان دونوں ملزمان نے قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک صحت مند روایت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہمیں من حیث القوم اس سنگین صورتحال پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ بعض حلقے فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے میں مصروف ہیں جب کہ ہماری موجودہ عدلیہ اور فوج پاکستان کی پوری تاریخ کے بہترین اداروں کی صورت میں اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں پوری طرح مخلص اور منہمک ہیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یہ بیان کہ ہم سب سے ماضی میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی بے مثال اعلیٰ ظرفی اور جرأتمندانہ اعترافی قوت کا مظہر اور آئینہ دار ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی لائق تحسین ہے کہ فوج قانون کے دائرے میں رہنے کا عزم رکھتی ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی حرف بہ حرف درست اور انصاف پر مبنی ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین اسے جرم ثابت ہونے سے قبل مجرم قرار نہ دیا جائے۔ ان کا یہ فرمانا بھی بالکل بجا ہے کہ افراد کی غلطیوں کو ادارے کے خلاف الزام تراشیوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
یہ پہلو انتہائی توجہ طلب ہے کہ ہماری بہادر فوج اس وقت دہرے دباؤ میں ہے، وطنِ عزیز کی سرحدوں کی اولین ذمے داری کے علاوہ وہ گزشتہ 11 برس سے اس بے چہرہ جنگ کی بھٹی کا ایندھن بھی بنی ہوئی ہے جو ایک سابق طالع آزما اس پر بلکہ پورے ملک پر مسلط کرکے جاچکا ہے۔ دوسری جانب بعض پوشیدہ وطن دشمن قوتیں میر قاسموں اور میر جعفروں کے ذریعے اسے کسی نہ کسی طرح اشتعال دلانے اور ہوسِ اقتدار میں مبتلا کرنے کے لیے اپنے اپنے جال میں پھنسانے میں مصروف ہیں۔
حقائق شاہد ہیں کہ موجودہ حکومت کی ناقص ترین کارکردگی کے باعث جنرل کیانی کو شاید درجنوں مرتبہ ایسے مواقعے میسر آئے کہ وہ ماضی کے بعض طالع آزماؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عنان اقتدار سنبھال سکتے تھے اور بدامنی اور مہنگائی سے عاجز آئے ہوئے عوام ان کا بھرپور ساتھ بھی دیتے، لیکن ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کی خاطر انھوں نے ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانے سے گریز ہی کیا۔ یہ تمام زمینی حقائق فوج اور اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ہر قسم کی غلط فہمی، غلط قیاس آرائی اور بدگمانی کی کلیتاً نفی کرتے ہیں۔
اُمید واثق ہے کہ عدلیہ کے سربراہ اور سپاہ پاکستان کے سالارِ اعظم ملک وقوم کے خلاف بچھائے جانے والے سازشوں کے جال سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے آپس کے ٹکراؤ اور محاذ آرائی سے قطعی گریز کریں گے کیونکہ خدانخواستہ ملک اس خوفناک تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دانستہ و نادانستہ طور پر کسی ایسی سازش کا حصہ نہ بنیں جس کا مقصد وطن دشمن عناصر کے مذموم مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہو۔ تمام اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قطعی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں گے۔ وسیع تر قومی مفاد کا تقاضہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ بہ قولِ شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
رہا سوال احتساب کا، تو انصاف اور قومی مفاد کا تقاضہ یہی ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے ۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ سیاسی رہنماء اس احساس اور جذبے سے عاری ہیں کہ وہ عوام کے ووٹوں سے حکمرانی کے لیے نہیں بلکہ خدمت کے لیے منتخب ہوکر آئے ہیں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ خدانخواستہ اب اگر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا سانحہ ایک بار پھر ظہور پذیر ہوا تو ا سکی تمام تر ذمے داری ہمارے سیاست دانوں پر عائد ہوگی۔
دریں اثناء یہ بات انتہائی خوش آیند ہے کہ ریاست کے دو اہم ستونوں یعنی افواج پاکستان اور عدلیہ کے سربراہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد کو ذاتیات سے بالاتر اور مقدس و عزیز رکھتے ہوئے آپس کے ٹکراؤ سے گریز کرکے نہایت بالغ النظری اور حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے اور ان تمام حلقوں کے ارمانوں پر اوس ڈال دی ہے جو بی جمالو کا کردار ادا کرتے ہوئے اداروں کے باہمی تصادم کے خواہاں تھے۔