اُردو نوکروں کی زبان

ڈراموں میں ہر عورت کو غیر مرد کے ساتھ رومانس کرتے دکھایا جارہا ہے، برائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

advo786@yahoo.com

ممتاز شاعر ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ ''اُردو زبان کو نوکروں کی زبان بنادیا گیا ہے، انگریزی اسکول والے بچے کو اسکولوں میں اُردو بولنے سے منع کرتے ہیں، ہمارے بچے اُردو کتابیں نہیں پڑھ سکتے ہیں، افسوسناک بات ہے کہ 12 سال کا بچہ اُردو میں نام نہیں لکھ سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ایک مرتبہ عصمت چغتائی نے انھیں بتایا کہ میری بیٹیاں میری کتابیں نہیں پڑھتی ہیں۔ بھارت میں تو اُردو پڑھنے کا رواج نہیں تھا ہم نے اپنے ملک میں بھی اُردو کا چہرہ سرخ کردیا ہے، ہم نے اُردو کو قومی و سرکاری زبان تو قرار دیا لیکن آج تک سرکاری زبان تسلیم نہیں کیا۔ ایک پولیس والا بھی اُردو میں چالان نہیں کرتا، یہ تو تمام صوبوں کی زبان ہے اس کی کسی سے لڑائی نہیں بلکہ سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹی وی ڈراموں کو کمائی کا ذریعہ بنادیا گیا ہے ۔

ڈرامہ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کر رہاہے۔ ڈراموں میں ہر عورت کو غیر مرد کے ساتھ رومانس کرتے دکھایا جارہا ہے، برائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔'' امجد اسلام امجد کے یہ الفاظ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ اورحالات کی بروقت اور صحیح نشاندہی پر مبنی ہیں۔ چند سال قبل بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی برسی پر جمیل الدین عالی نے کہا تھا کہ ''اُردو کی ترقی کو صرف اس لیے روکا جارہا ہے کہ اگر یہ ذریعہ تعلیم بن گئی تو کلرکوں اور چپڑاسیوں کے بچے بھی پڑھ لکھ کر اشرافیہ کے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہونگے۔''

ہمارے ان دونوں مفکرین و دانشوروں نے جن اسباب کی نشاندہی کی ہے وہ بالکل بجا اورحقیقی ہیں۔ آپ اُردو خبروں، تفریحی پروگراموں،سیاسی میزبانوں، زبان، تلفظ اور شائستگی کو دیکھ لیں ان میں انگریزی اور ہندی کے الفاظ کا بے دریغ غیر ضروری اور فخریہ استعمال ہوگا۔ انٹرویو کرتے وقت نوجوان میزبان مہمانوں کے مراتب اور عمر کے علاوہ اپنی اخلاقی اقدار کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جس کو دیکھنے والے سنجیدہ و مہذب ناظرین کو بھی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔


ہمارے اشتہارات اور ڈراموں میں چپڑاسی، ڈرائیور اور مالی وغیرہ جسے ماتحت کرداروں کے لیے نام تو عبدل اور احمد جیسے نام تجویز کیے جاتے ہیں جب کہ ان کے حکمرانوں یا مالکوں کے نام لانزے، ولیزے اور عینی رکھے جاتے ہیں جن کے کرداروں میں بڑا گلیمر دکھایا جاتا ہے، جن میں انگریزی، ہندی ڈراموں اور ثقافت اور زبان کی بھرپورآمیزش نظر آتی ہے جو ناظرین کی اخلاقیات و نفسیات پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اپنی زبان و ثقافت سے رشتے کو بھی کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں غیر ملکی زبان و ثقافت سے اس قدر معتوب و مرغوب کردیا گیا ہے کہ ایک ناخواندہ شخص بھی جو اُردو لکھ پڑھ نہیں سکتا، دستخط انگریزی میں کرنے کو ترجیح دیتا ہے جس نے زندگی میں کبھی پتلون نہ پہنی ہو، شادی پر کوٹ پہننے کو ترجیح دیتا ہے یا اس کو اس بات پر مجبور کردیا جاتا ہے۔

اُردو کے استحصال کے لیے ایک جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انگریزی کے بغیر دنیا میں ترقی نہیں کی جاسکتی جب کہ ہمارے سامنے چینی، جاپان، روسی، فرانسیی اور جرمنی جیسی چھوٹی زبانوں کی مثالیں موجود ہیں جنھیں اپناتے ہوئے یہ ممالک دنیا کی مضبوط اقتصادی اور سیاسی قوتوں کے طور پر اُبھرے ہیں لیکن ہمارا بعض ارکان اسمبلی صحیح انگریزی بولنے کے لیے ٹیوٹر کی خدمات لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بعض کھلاڑی بین الاقوامی ریکارڈ قائم کرنے سے اس لیے ہچکچاتے ہیں کہ اس کے بعد انھیں انگریزی میں انٹرویو دینا ہوگا۔ ایک چینی طالبعلم جو پاکستانی یونیورسٹی میں اُردو کی تعلیم حاصل کرنے آیا تھا نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ پاکستان اُردو سیکھنے آیا تھا لیکن ہر شخص اس سے انگریزی میں بات کرنے کو ترجیح دیتا ہے جس سے اس کی انگلش بہت اچھی ہو گئی ہے۔

اُردو کی ترقی و ترویج کا باقاعدہ آغاز انگریز سامراج کے دورِ اقتدار میں ہندی کو سرکاری زبان قرار دیے جانے کے بعد سے ہوا۔ جس میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی لامتناہی کوششوں کے علاوہ شبلی نعمانی، سردار عبدالرب نشتر، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور جمیل الدین عالی کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔مقتدرہ قومی زبان مجلس زبان دفتر، مجلس وضع و اصلاحات، اُردو سائنس بورڈ، انجمنِ ترقی اُردو، اُردو اکیڈمی اور جامعات بھی اپنے تئیں سائنسی و علمی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور تراجم کا فریضہ ادا کرکے بھرپو رکردار ادا کرتی رہی ہیں جب کہ اُردو کا نفاذ حکومت پاکستان کا آئینی فرض و ذمے داری ہے۔

1973ء کے آئین میں قرار دیا گیا تھا کہ اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور سرکاری طور پر اس کے نفاذ اور استعمال کے انتظامات کرکے 15 سال کے اندر اندر اس کا نفاذ کردیا جائے گا، لیکن 40 سال گزر جانے کے بعد بھی آئین کی یہ شق تشنہ تعبیر ہے جو حکمرانوں کی قومی زبان سے بے اعتنائی، بے حسی اور اس کی بے قدری و بے وقعتی کو ظاہر کرتی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انگریزوں اور ہندوؤں کے جو مفادات تھے وہی ہمارے حکمرانوں کے مفادات اور ترجیحات ہیں۔ بلکہ اب تو اُردو زبان کی قومی حیثیت ختم کرنے کے لیے اسمبلی میں اس بات پر بھی بحث ہورہی ہے کہ تمام علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے دیا جائے اور انگریزی کو سرکاری زبان رکھا جائے اور اس بحث پر کسی بھی جانب سے کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا جو قابل افسوس ہے۔ شاید بحیثیت قوم ہم تمام پاکستانی انگریزی سے مرغوب ہی نہیں بلکہ اس کی حاکمیت کو تسلیم کرچکے ہیں۔

اُردو زبان سے نابلدی ہمارے لیے شرمندگی نہیں بلکہ فخر کی بات محسوس ہوتی ہے۔ اس کا اظہار ہماری عام زندگی کے علاوہ ایسے ٹی وی پروگراموں سے بھی ہوتا ہے جس میں مہمانوں کو انگریزی کے الفاظ اُردو میں ترجمہ کرنے کے لیے یا لکھنے کے لیے دیے جاتے ہیں تو اکثر وبیشتر وہ لکھ نہیں پاتے یا اپنی معذوری کا فخریہ اظہار کرتے ہیں ان کی اس معذوری کو میزبان بھی سراہتا ہے اور حاضرین و شرکاء بھی تالیوں کے ذریعے خوب سراہتے ہیں۔ اُردو بولنے سے معذور شخصیات اپنی اُردو گفتگو میں انگریزی الفاظ کی بیساکھیاں استعمال کرکے ایسا تاثر پیش کرتے ہیں جیسے اُردو معذور یا نامکمل زبان ہو۔ آج دنیا کی یہ تیسری بڑی زبان اپنی بقاء اور دفاع کی جنگ تنہا لڑ رہی ہے۔ اُردو نوکروں کی زبان بھی رہتی ہے یا نہیں فیصلہ مستقبل کرے گا۔
Load Next Story