انقلاب انسانوں کے اندر سے نمو دار ہو تا ہے

گاندھی اپنی گفتگو اورتقریروں میں شیلے کی نظم Mask of Anarchy کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔

آفتاب احمد خانزادہ

شیلے کو دفنایا نہیں جلایا گیا جب سمندر کے کنارے اس کی میت جل رہی تھی تو اس کے دوست ٹریلی وے نے شیلے کے جلتے جسم سے اس کا دل نکال لیا تھا جسے اس کی بیوی میری شیلے نے ایک شیشے کے برتن میں محفوظ کرلیا اور جب تک وہ جیتی رہی اسے اپنے پاس رکھا ۔

میری کی موت کے بعد دل کو روم کے قدیمی چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور اس پر Heart of Hearts کی تختی لگا دی گئی ۔ شیلے کو انقلاب فرانس کا حقیقی وارث قراردیا جاتا ہے انقلاب فرانس کی اصلی روح اس انگریزی شاعر کے اندر موجود تھی شیلے ساری زندگی ایک نئی دنیا کے خواب دیکھتا رہا ایسی دنیا جو ظلم و ستم اور ناانصافی سے پاک ہو۔ ایسی دنیا جو انتشاردہشت اور خوف سے خالی ہو فرانسیسی مصنفین کو شیلے نے سینے سے لگایا اس نے والٹئر ،روسو اور دیدورکو پڑھا، گوڈون میں اپنے آپ کو گم کردیا اور بنی نوع انسان کے دکھوں کے تدارک کی فکر کی اور پھر آکسفورڈ کالج جانے سے پہلے عہد کیا '' میں عہد کرتا ہوں ہمیشہ انصاف اور ذہانت کے راستے پر چلوں گا میں عہد کرتا ہوں مساوات اور آزادی کی خاطر جدوجہد کروں گا میں عہد کرتا ہوں ہمیشہ حسن کی پرستش کرونگا ۔''

انگریزی رومانوی عہد انقلاب فرانس کی دین تھاورڈز ورتھ کولرج ،بائرن ،کیٹس اور شیلے نے اسی سے جنم لیا لیکن شیلے اپنے نظریات اور فلاسفی کے لحاظ سے سب سے پیش تھا۔ اس نے ساری زندگی آزادی، مساوات اور انصاف کے خواب دیکھے ایک ایسی دنیا کا خواب جو ان تینوں چیزوں سے آراستہ ہو انقلاب فرانس میں یہ تینوں چیزیں اہم ترین محرکات ثابت ہوئیں۔ شیلے کو وہ واحد شاعر کہا جاسکتا ہے جس نے آزادی، مساوات اورانصاف کے گیت گائے،اور ایک نئے آنے والے عہد کی بشارت دی شیلے واقعے کی بجائے نظریات سے متاثر ہوا وہ اپنے ایک ڈرامے کے دیباچے میں کہتا ہے '' میں اپنے قارئین کے دلوں میں آزادی ،مساوات اور انصاف کی شمع روشن کرنا چاہتا ہوں بنی نوع انسان کے دل سے تعصب اور تشدد کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور امید کو جنم دینا چاہتا ہوں ۔''

کا رل مارکس جارج برنا ڈشا اور برٹرینڈ رسل شیلے کے شیدائی تھے، سیاسی عمل میں عدم تشدد کے فلسفے پر عمل گاندھی نے شیلے ہی سے سیکھاگاندھی اپنی گفتگو اورتقریروں میں شیلے کی نظم Mask of Anarchy کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔ شیلے ساری زندگی انسان کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھتا رہا۔ ایک نئے سماج کے خواب جن میں انسانوں کے دکھ درد کا مدا وا ہوسکے وہ ہمیشہ معاشرے کے ان قوانین اور ان رکاوٹوں کے خلاف نبردآزمار رہا جو آزادی، انصاف اور سچائی کی راہ میں رکاوٹ تھیں وہ انسان کے لیے آزاد معاشرہ چاہتا تھا اور یہ خواب وہ ساری دنیا کے انسانوں کو دکھانا چاہتا تھا اور ہوا کو وسیلہ بنا کر وہ اپنے خیالات کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا تھا۔ اس کی نظم ode to the west wind ان ہی تصورات خیالات اور خوابوں کی عکاسی کرتی ہے ۔نظم کوئین میب شیلے کے انقلابی خیالات کی ترجمانی کرتی ہے شیلے پورے نظام کو بدلنا چاہتا تھا وہ کہتا ہے '' مجھے واپس اس دھرتی کی جانب ماں کی طرف جانے دو جہاں میں اپنے ہاتھوں سے کھیتوں اور جنگلوں سے اپنی خوراک حاصل کرسکوں ۔ ''

شیلے کا ڈراما Prometheus un bound بڑی اہم تخلیق ہے شیلے نے اس میں اپنی فکر اور نظریات کو شامل کرکے اسے آزادی اور ظلم اور آمریت کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بنادیا ہے شیلے دراصل انسانوں کے اندر سوئے جذبوں کو جگانا چاہتا تھا۔ ٹالسٹائی نے کہا تھا ''انقلاب انسانوں کے اندر سے نمودار ہوتا ہے۔'' شیلے اسی جذبے کو انسانوں کے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا انسان خوشگوار زندگی صرف اس وقت گذارسکتا ہے جب وہ آزاد ہو اور اسی آزادی کے لیے شیلے انسانوں کو اکساتا ہے وہ کہتا تھا غلامی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ کزامیاں کہتا ہے ''شیلے کا تعلق انسانوں کے اس مخصوص گروہ سے تھا جنہوں نے جذبات اورادراک کے مرکب سے انقلابی ذہن کو تیار کیا ۔بچپن سے جوانی تک یہ چنگاری اس کے اندر سلگتی رہی۔ ''


دنیا میں جو بیماری سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ وہ نا انصافی ہے۔ تیسری دنیا تو اس نا انصا فی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ماوزے تنگ نے کہا ہے کہ ''ہمیں بانجھ اور بنجر سو چ سے نجا ت حاصل کرنی چا ہیے وہ تمام نظریے جو دشمن کی طاقت کو زیادہ اور عوام کی طا قت کو کم سمجھتے ہیں بے حد غلط ہیں۔'' لنکن نے کہا تھا ووٹ کی طاقت بندوق کی گولی سے زیادہ ہو تی ہے ووٹ کی طاقت سے ہی نظام بدلتے ہیں ترقی اور خوشحالی آتی ہے ۔ عوام طاقتور ہو تے ہیں معاشرتی اور سماجی رویے جب تاریخ کے ساتھ سفر کر تے ہیں تو اس منزل پر پہنچتے ہیں جسے ہم جمہو ریت کہتے ہیں جمہوریت عوام کو مقتدرکرنے کا نام ہے۔

جمہوریت میں طاقت کا محور شخصیا ت نہیں بلکہ عوام ہو تے ہیں ۔آج دنیا میں 30ممالک میں مکمل جمہوریت ہے جب کہ 50 ممالک میں ناقص جمہوری نظام اور 51مما لک میں بادشاہت اورآمرانہ نظام رائج ہے۔ 36ممالک میں ملی جلی جمہوریت ہے ان 30ممالک میں جہاں مکمل جمہوریت موجود ہے وہاں جرائم کی شرح صفر ہے بے روزگاری کی شرح صفر ہے۔ ان ممالک میں عوام آزاد، خوشحال،تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہیں یہ ممالک انتہائی ترقی یافتہ ہیں ۔

آئیں اب ہم پاکستان اور اس کے 18کروڑ عوام کے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کو آزاد ہو ئے 64سال بیت چکے ہیں ان 64سالوںمیں 40سال سے زائد عرصے ملک پر غیرسیاسی و غیرجمہوری قوتوں نے حکمرانی کی ۔ آزادی کے 23سال بعد ملک میں عام انتخابات کروائے گئے ۔اس سے پہلے ملک کو غیرسیاسی عناصر چلاتے رہے نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کمزور عوام بد حال ادارے کمزور ہوگئے۔ مجبو ری کی حالت میں1971 میں حکومت پاکستان کے عوام کے نمایندوں کے حوا لے کر دی گئی نتیجے میں ملک میں خوشحالی آگئی عوام آزاد اور بااختیار ہوگئے ملک نے ترقی کی منزلیں تیزی کے ساتھ طے کرنا شروع کر دیں۔ لیکن یہ سب کچھ تاریکی کی قو توں کو پسند نہ آ یا اور عوام کی حکو مت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس کے نتیجے کو آج ہم بھگت رہے ہیں۔

انتہا پسندی ، دہشت گردی ، غربت، جہالت، بدامنی یہ سب ہماری ہی فخریہ پیشکش ہیں۔آج ایک بار پھر آمریت کے اتحادیوں،ساتھیوں اورجمہوریت دشمنوںکے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی ہے کہ جمہوریت کو لپیٹ کر کسی طرح دوبارہ ملک کو تاریکیوں کی طر ف لے جایا جائے۔ اور پاکستان پر مذہبی انتہا پسندوں کو غلبہ دلوا دیا جائے ۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی نہ کسی صورت میں یہ عناصر پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں ۔

ان عناصر کو اب اپنی بانجھ اور بنجر سوچ سے نجات حاصل کرلینی چاہیے اور عوام کے خلاف سازش بند کردینی چاہیے۔ پاکستان کے عوام انتہائی باشعور ہیں انھوں نے جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کی ہے وہ اپنی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں وہ ایک ایسا سماج چاہتے ہیں جس میں ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکے ۔ ان کے دلوں میں آزادی، مساوات اور انصاف کی شمع کی لو اور تیزہو گئی ہے۔ اور وہ اس شمع کو اب کسی بھی صورت میں بجھنے نہیں دیں گے آج انقلاب کا نام جمہوریت ہے اور جمہوریت کے ذریعے ہی ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہے۔ جمہوریت کے سوا تمام راستے مکمل تباہی کی جانب جاتے ہیں۔
Load Next Story