پاکستانی بچے اور ان کا مستقبل
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق بن چکا ہے، تعلیم سے ہی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
NEW DEHLI:
''بچوں کو تعلیم دینے کا فرض ادا نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
غربت اورجہالت شدت پسندی کو جنم دیتی ہے، غربت اورجہالت اکٹھی نہیں رہ سکتیں، ان کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے، تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق بن چکا ہے، تعلیم سے ہی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، وسیلہ تعلیم پروگرام کے تحت 30 لاکھ بچوں کو وظائف دیے جائیں گے۔'' (صدر مملکت آصف علی زرداری کا اسلام آباد میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وسیلہ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب)۔ تقریب میں تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر اورسابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے بھی شرکت کی اورکہا ہے کہ 2015ء تک ہر بچے کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا ہدف حاصل کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے دنیا پاکستان کی مدد کو تیار ہے۔
انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن فرزانہ راجہ نے کہا کہ پاکستان میں 90 لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، ان بچوں کو تعلیم سے بہرہ مند کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس موقعے پر پاکستان میں فروغ تعلیم کے متعلق دستاویزی فلم دکھائی گئی۔
امت مسلمہ کے لیے سب سے پہلے سماوی حکم تھا ''اقراء'' یعنی ''پڑھو''۔لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور یہاں کے حکمرانوں نے اس ملک کے بچوں خصوصاً بچیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی۔ زیر نظر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی رپورٹ حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔''پاکستان میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد بھارت اور نیپال کی نسبت آدھی سے بھی کم ہے، جب کہ بنگلہ دیش کے مقابلے میں یہ تعداد بہ مشکل ایک چوتھائی ہے۔'' پاکستان میں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد دنیا بھر میں غالباً سب سے زیادہ نہیں تو شاید کسی ایک آدھ پسماندہ ملک سے قدرے کم ہوگی، لیکن اس کے باوجود آفرین ہے پاکستان کے ارباب اختیار و صاحبان اقتدار پر کہ انھوں نے وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے رقم میں مزید کمی کردی ہے حالانکہ پہلے بھی وطن عزیز کے حکمران تعلیم پر جی ڈی پی کی 2.3 فیصد سے بھی کم رقم خرچ کرتے رہے ہیں اور جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم کا تعلق ہے تو اس میدان میں پاکستان پورے جنوبی ایشیاء کے ممالک میں سب سے نچلے مقام پر کھڑا ہے۔
رپورٹ میں ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن کی بناء پر پسماندہ ممالک میں تعلیم کی اہمیت پر اس قدر کم توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں ان میں دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے۔ پاکستان میں اسکول نہ بھیجے جانے والے بچوں کی تعداد 50 لاکھ سے زائد بیان کی گئی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قسم کے بنیادی اہمیت کے اعدادوشمار بھی ہمیں(پاکستان کو) دساور سے درآمد کرنے پڑتے ہیں کہ وطن میں ڈیمو گرافی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں اسکول کی تعلیم کی استطاعت نہ رکھنے والی غریب لڑکیوں کی شرح 78 فیصد تک گِر گئی ہے۔ بھارت میں یہ شرح 66 فیصد سے کم ہوکر 30 فیصد پر آگئی ہے، نیپال میں 52 فیصد سے کم ہوکر 22 فیصد رہ گئی ہے، بنگلہ دیش میں یہ شرح 91 فیصد سے کم ہوکر 44 فیصد پر آگئی ہے۔ رپورٹ میں یونیسکو کی ڈائریکٹر پالین روز کے حوالے سے انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 1999ء میں دنیا بھر کے ممالک کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ملک کے تمام بچوں کو اسکول بھیجیں، لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی پیشرفت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ادھر وزارت انسانی حقوق کے حکام نے بچوں کے حقوق کے لیے قائم قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں دو کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے، پاکستان سے بچے جنسی استحصال کے لیے دبئی بھیجے جاتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل انسانی حقوق ڈویژن حسان مانگی نے بتایا کہ ایک سال کے دوران صرف ملتان ڈویژن میں 23 ہزار سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے، یہاں سے بچے غیر اخلاقی کاموں کے لیے دبئی بھی بھیجے جاتے ہیں، بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، ملک کے نصف علاقوں میں پرائمری اسکول ہی نہیں ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ ملتان اور سندھ سے کم عمر بچوں کو جنسی استحصال کی غرض سے اسمگل کیا جارہا ہے، جہاں سے انھیں دوسرے ملکوں میں بھیج کر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ملک میں بچوں کا جنسی استحصال روکنے، ان کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی اور دیگر حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ یونیسیف نے پاکستان میں بچوں کو حقوق نہ ملنے پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی ہے جس سے حکومت کے ذمے داران کو آگاہ کیا جائے گا۔
ایک سروے کے مطابق کراچی میں 32 ہزار سے زائد لاوارث بچے ہیں جن میں سے 17 ہزار سے زائد بچے سڑکوں پر سوتے ہیں، دیگر شہروں سے بھاگ کر روزانہ 10 سے 12 کراچی پہنچتے ہیں، 9 ہزار سے زائد نو عمر بچے مزدوری کرتے ہیں جوکہ لیبر قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، 11500 بچے ہوٹلوں اور چائے خانوں پر کام کرتے ہیں، 1600 سے زائد بچے گیراجوں پر کام کرتے ہیں، 3000 سے زائد بچوں کو بدفعلی اور جنسی تشدد کے کاروبار میں ملوث کیا گیا ہے، بلاشبہ ایسے بچوں کی دیکھ بھال اور کفالت حکومت کی ذمے داری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سوشل پروٹیکشن کے نام پر سالانہ31,614,397 ملین روپے مختص کیے جاتے ہیں، مگر حکومت یہ فنڈ ضایع کردیتی ہے یا ہڑپ کرجاتی ہے۔ امید ہے کہ حکومت لاوارث بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال کا مناسب انتظام کرے گی اور انھیں تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم کرے گی۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق صوبہ سندھ کے محکمہ تعلیم نے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے آرٹیکل 25 اے کے تحت 2015ء تک ''مفت اور لازمی تعلیم'' کے لیے قانون سازی کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔ مسودے کے مطابق آبادی کے تناسب سے سرکاری اسکولوں کی تعداد کم ہونے کے سبب سندھ کے نجی اسکول اپنی مجموعی انرولمنٹ میں سے 20 فیصد داخلے 5 سال سے 16 سال تک کی عمر کے غریب بچوں کو دینے کے پابند ہوں گے، تاہم غریب طلباء ایک مقررہ حد تک فیس لینے والے نجی اسکولوں میں ہی داخلے لے سکیں گے جن کے تمام تر اخراجات حکومت سندھ خود برداشت کرے گی، بچوں کو اسکول نہ بھیجنے والے والدین پر جرمانہ عائد کیے جائیں گے۔
مسودے کے مطابق جن نجی اسکولوں سے حکومتی کوٹے پر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء سے فیسیں وصول کرنے کی شکایات موصول ہوئیں تو ان سے ایک ماہ کی فیس سے 25 گنا زیادہ جرمانہ لیا جائے گا۔ محکمہ تعلیم کے افسر کے مطابق نجی اسکولوں کو غریب طلباء کو داخلے دینے کا پابند کرنے کے لیے فیسوں کا تعین بھی کیے جانے کا امکان ہے۔ امید کامل ہے کہ مسودے کی وزیر اعلیٰ سندھ سے منظوری کے بعد اسے صوبائی اسمبلی میں بل کی صورت میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔