اے کاش کہ ایسا ہوجائے

اسلام ایک فطری دین ہے اور آزادی و مساوات انسان کا فطری حق ہے۔۔


November 26, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: رسول انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بڑی عطا اوردنیا پر آپؐ کا باقی رہنے والا احسان، وحدتِ انسانی کا تصورہے۔

اس سے پہلے انسان قبائل واقوام کے اونچے اونچے طبقات اور تنگ نسلی دائروں میں بٹا ہوا تھا اور ان طبقات کا باہمی فرق ایسا اور اتنا تھا جتنا انسان وحیوان، آزاد وغلام اور عابد و معبود کا فرق ہوسکتا ہے۔ آپؐ سے پہلے وحدت و مساواتِ انسانی کا تصور خواب وخیال بن چکا تھا، رسول اللہؐ نے صدیوں کی طویل خاموشی اورچھائے ہوئے اندھیرے میں یہ انقلابی، عقلوں کو جھنجھوڑ دینے والا اور حالات کا رُخ موڑ دینے والا اعلان فرمایا کہ:

''اے لوگو! تمہارا ربّ ایک اور تمہارا مورثِ اعلیٰ بھی ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، تم میں اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے زیادہ شریف سب سے زیادہ متقی انسان ہے، اور کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی سرخ کو کسی سفید پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ ہی کے سبب سے۔''

فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلی عصبیت اور آباء پر فخر کا طریقہ ختم کردیا ہے، اب یا تو مومن متقی ہوگا یا فاجر شقی، لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، عربی کو عجمی پر بھی کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔''

اسی طرح قرآنِ حکیم فرقان حمید نے انسانی وحدت و مساوات اور انسانی اخوت کا بلیغ و تاریخی اعلان ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ:

''اے لوگو! اپنے پروردگار سے تقویٰ اختیارکرو جس نے تم (سب) کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد اور عورتیں پھیلا دیے اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطے سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور قرابتوں کے باب میں بھی تقویٰ اختیار کرو، بے شک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے۔''

قرآن مزید فرماتا ہے کہ:

آ''اے لوگو! ہم نے تم (سب) کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم میں سے پرہیزگار تر، اللہ کے نزدیک معزز تر ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے، پورا خبردار ہے۔'' یہی وجہ ہے کہ حضورؐ کی حضرت بلالؓ سے شفقت ومحبت اسلام کا ہی خاصہ تھی، نیز تمام اکابر صحابہؓ حضرت بلال حبشیؓ کی جس قدر عزت و احترام کرتے تھے وہ اپنی مثال آپ ولازوال تھا۔

اسلام کی یہ روشنی اور یہ بلیغ و تاریخی اعلان و پیغام دنیا میں جہاں جہاں پہنچا اور جس جس نے قبول کیا اور اپنایا وہاں وہاں اسلام کا نور پھیلتا چلا گیا اور انسانی وحدت و مساوات کا تصور عام ہوگیا، غلامی کا خاتمہ ہوگیا اور انسانیت کا سر فخر سے بلند تر ہوگیا۔

اسی لیے اسلام ایک فطری دین ہے اور آزادی و مساوات انسان کا فطری حق ہے۔ اس فطری حق کے حصول کی ایک داستان کے چند نقوش مندرجہ ذیل سطور میں نظر آئیں گے جوکہ مارٹن لوتھر کا دیرینہ خواب تھا۔

دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح امریکا میں بھی 1860ء سے قبل غلامی کا رواج تھا، پھر ان کی زندگی میں ابراہم لنکن آیا اور اس نے 1860ء میں انھیں غلامی کی لعنت سے آزاد کرایا۔ ابراہم لنکن نے انھیں آزادی تو دے دی لیکن انھیں امریکا میں انسانی حقوق، انسانی وحدت اور مساوات و رواداری نہ مل سکی۔

چنانچہ نومبر 1868ء میں امریکی ایوانِ نمایندگان میں منتخب ہوکر آنے والے سیاہ فام جان ولز مینارڈ کو امریکی سفید فام منتخب نمایندگان نے قبول کرنے سے قطعی انکار کردیا اور ان کے ایوان میں بیٹھنے پر پابندی عائد کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایوان میں کسی کالے کو برداشت نہیں کرسکتے۔

جان ولز مینارڈ امریکا کی تاریخ کا پہلا سیاہ فام رکن اسمبلی تھا، اس نے اس زیادتی پر احتجاج کیا اور ایوان میں اسپیکر کو مخاطب کرکے بولا: ''جناب عالی! میں بھی دوسرے معزز ارکان کی طرح عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آیا ہوں، مجھے اس ایوان میں بیٹھنے اور بولنے کے لیے بھیجا گیا ہے، اگر مجھے بولنے اور بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تو یہ جمہوریت کی توہین ہوگی۔''

تاہم نسل پرست ایوان نمایندگان نے اس کے احتجاج کو حقارت اور توہین آمیز انداز میں رَد کردیا اور اس کی آواز جلد ہی گوروں کی سرخ زبان تلے دب گئی اور اسے بالآخر ایوان سے باہر نکلنا ہی پڑا۔ جان ولز مینارڈ کا تعلق غلاموں کی نسل سے تھا اور 1860ء تک امریکا میں سیاہ فام باشندوں کو صرف ایک ہی حق حاصل تھا اور وہ حق تھا غلامی۔

خود صدر اوباما کے اپنے الفاظ کے مطابق ''جب میں کسی بڑے اسٹور میں داخل ہوتا تھا تو سکیورٹی گارڈ میری رنگت کی وجہ سے مجھے چور سمجھ لیتے تھے اور میں جب تک اسٹور میں رہتا تھا یہ میرے پیچھے پیچھے منڈلاتے رہتے تھے، میں جوان ہوا اور کھانے کے لیے ریستوران میں جانے لگا تو سفید فام جوڑے مجھے ریستوران کا کاربوائے سمجھ کر اپنی گاڑیوں کی چابیاں پکڑا دیتے تھے اور مجھے پولیس بھی بلاوجہ تنگ کرتی تھی، میں ان زیادتیوں پر دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا، میں بعض اوقات اشتعال میں بھی آجاتا تھا۔''

الغرض کہ ایک طویل عرصے تک امریکا میں رنگ و نسل کی بنیاد پر کالے اور گوروں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل رہی اور یہ وسیع خلیج ان کی زندگیوں کے ہر رُخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں، افرادی و اجتماعی اور قومی و بین الاقوامی ہر سطح پر مکمل طور پر حائل تھی۔

1860ء میں انھی نامساعد اور عصبیت سے پُر معاشرے پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ابراہم لنکن نے اپنے عزم مصمم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میں نے عزم صمیم کر لیا ہے کہ اس ملک کی سر زمین غلاموں کے مالکوں کے لیے اس قدر گرم کردوں گا کہ وہ اس پر قدم نہ رکھ سکیں گے۔'' لنکن کے نزدیک غلامی سب سے بڑا ظلم تھا جوکہ انسان اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان پر روا رکھتا ہے، چنانچہ لنکن کہتا ہے کہ ''اگرغلامی ظلم نہیں ہے تو دنیا میں کوئی بھی فعل ظلم نہیں ہے۔'' غلامی کا خاتمہ آسان کام نہ تھا تاہم لنکن نے اس عظیم امر کی تکمیل کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔

یکم جنوری 1863ء میں لنکن نے غلامی کے خاتمے کے پروانے پر دستخط تو کردیے تاہم وہ امریکیوں کو غلامی سے آزادی کے لفظ سے تو آشنا کرانے میں کامیاب ہوگئے لیکن ان کی سوچ اور انداز فکر نہیں بدل سکے اور گوروں کا سیاہ فاموں کے ساتھ امتیازی سلوک اور معاشرتی عدم مساوات کا سلسلہ بدستور جاری رہا، گویا دنیا کی جدید ترین ریاست کے یہ باسی عہد جدید میں قدیم طرز زندگی جو نفرت و حقارت سے بھرپور تھی بسر کر رہے تھے۔

اسی دوران 1950ء میں انھیں مارٹن لوتھر کنگ کی صورت میں ایک نجات دہندہ مل گیا۔ مارٹن لوتھر سیاہ فام پادری تھا، ایک دن اس نے ایک سفید فام امریکی کو بائبل پیش کی، لیکن اس شخص نے اس کے کالے ہاتھوں سے بائبل لینے سے انکار کردیا، یہ وہ لمحہ تھا جب مارٹن لوتھر کنگ نے اس نظام باطل کو للکارنے کا فیصلہ کیا، اس نے تمام سیاہ فاموں کو جمع کیا اور سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے لانگ مارچ شروع کردیے، مارٹن لوتھر کنگ تقریر کے فن سے واقف ایک شعلہ بیان مقرر تھے ان کی تقاریر نے سفید فام امریکیوں کو سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا، ان کے الفاظ سننے والوں کے دلوں کی دھڑکن بنتے گئے۔

27 اگست 1963ء کی مشہور تقریر میں مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ ''ایک دن میرے لوگ ایسی دنیا میں رہیں جہاں ان کی پہچان رنگ و نسل کی بجائے ان کا کردار ہو، یہی میرا خواب ہے۔'' مارٹن لوتھر کنگ کا یہ خواب امریکا میں نسلی وحدت کے حوالے سے تھا اور شاید لوتھر کنگ کو خود بھی یہ یقین نہ ہو کہ یہ خواب صرف پینتالیس برس میں حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ اسی طرح سے ابراہم لنکن کی جانب سے 1863ء میں دستخط کیے جانے کے 145 برس بعد یہ ممکن ہوسکا کہ ایک سیاہ فام امریکی صدارتی الیکشن لڑ کر وائٹ ہاؤس پہنچ سکے اور لنکن کے ساتھ ساتھ اپنے جدامجد لوتھر کے طویل خواب کی حسین تعبیر کا روپ دنیا کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کرسکے کہ جدید امریکا رنگ و نسل کی تمام جاہلانہ بندشوں سے آزاد ایک متحدہ منظم امریکا ہے۔

بارک اوباما 2008ء میں جب صدر منتخب ہوئے تو ایک جانب پوری دنیا حیران رہ گئی اور دوسری جانب سیاسی مبصرین کی نظر میں یہ امریکا میں سیاسی انقلاب ایک جدید دور کا آغاز تھا اور اب امریکیوں نے 6 ؍نومبر 2012ء کو اوباما کو دوسری مدّت کے لیے بھی ایک بار پھر امریکا کا صدر منتخب کرلیا ہے اور یوں ایک مسلمان سیاہ فام غیر ملکی باشندے کا غریب بیٹا دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر بن کر دنیا کا سب سے طاقتور شخص بن چکا ہے،کیا اس میں ہمارے لیے سبق نہیں ہے؟ ہمارا دین اسلام ہمیں رنگ، نسل اور زبان کی تمام جاہلانہ حدود و قیود سے کلی آزادی کا سبق دیتا ہے تاہم ہم ان تنگ نظریوں میں جکڑے ہوئے باہم آپس میں دست و گریباں ہیں جب کہ آج امریکا اور دیگر غیر اسلامی ممالک جاہلانہ تعصبات سے آزاد ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن اور مشعل راہ ہیں۔

اپنی پہلی انتخابی مہم میں اوباما نے ''تبدیلی'' کا نعرہ لگاکر کامیابی حاصل کی تھی تاہم اوباما اپنے پہلے دور اقتدار میں عالم اسلام و مسلم امہ کے لیے سابقہ صدر بش جونیئر سے زیادہ مختلف واقع نہ ہوسکے، نہ امریکی افغان پالیسی بدلی، نہ ڈرون حملوں میں کوئی قابل ذکر فرق پڑا، الٹا شدت ضرور آئی، افغانستان، عراق، فلسطین، کشمیر وغیرہ میں ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رہا،۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو غیر منصفانہ اور ظالمانہ سزا بھی اوباما کے دور میں سامنے آئی اور اسامہ کی ہلاکت بھی اوباما کے دور اقتدار میں ہی عمل میں آئی اور ثابت ہوگیا کہ امریکی صدر گورا ہو یا کالا وہ امریکی صدر ہی ہوتا ہے اور اس سے امریکی پالیسیوں پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اوباما کے یہ مذکورہ بالا اقدام اگرچہ عالم اسلام کے خلاف صحیح تاہم امریکیوں کا مطمع نظر اور اوباما ان کے منظور نظر ثابت ہوکر دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوگئے تاہم اس بار اوباما کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکا کو جنگ سے بہت دور لے جائیں گے، اگر امریکا جنگ سے دور چلا جائے تو دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ خودبخود ہوجائے گا اور چہار سُو امن و امان کا دور دورہ ہوگا، اے کاش! کہ ایسا ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں