مسجد علی محمد خان۔۔۔۔ ملتانی فنِ تعمیر کا عظیم ترین شاہکار
شہر کے عین وسط میں واقع یہ مسجد گورنر ملتان علی محمد خوگانی نے تعمیر کرائی
PESHAWAR:
ملتان شہر کے تاریخی آثار میں مسجد علی محمد خان اپنے شکوہ اور فن تعمیر کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتی ہے، شہر کے عین وسط میں واقع یہ مسجد ملتان میں تخت کابل کے گورنر نواب علی محمد خوگانی نے تعمیر کرائی تھی۔ 1758ء میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد ملتان اندرون شہر کی مساجد میں اس دور کی سب سے بڑی اور ایک مکمل جامع مسجد ہے۔
مسجد علی محمد خان جہاں اپنے فن تعمیر کے حوالے سے ایک شاہکار ہے' وہاں شہر کی اہم ترین تاریخ کی گواہ بھی ہے، ایک زمانے میں دریائے راوی کی ایک شاخ شہر کے وسط سے ہو کر گزرتی تھی، دریا کے ہٹ جانے کے بعد یہ جگہ بے آباد پڑی رہی، شہر کی آبادی بڑھی تو یہاں کوتوالی قائم کر دی گئی، قاضی وقت یہاں اپنی عدالت لگانے لگا اور عین اسی جگہ جہاں یہ مسجد ہے، مجرموں کو سزائیں دی جاتی تھیں۔
(بعض مؤرخین کی رائے میں جس جگہ مسجد علی محمد خان تعمیر کی گئی یہاں ایک تالاب ہوا کرتا تھا جہاں اندرون شہر کے لوگ کپڑے دھوتے تھے اور جانور پانی پیتے تھے، نواب علی محمد خان نے اس تالاب کے پانی کو غیر شفاف پا کر اسے مٹی سے پٹوا دیا اور اس پر ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔) 1752ء میں جب احمد شاہ ابدالی نے خواجہ اسحاق کی جگہ نواب علی محمد خوگانی کو ملتان کا حاکم مقرر کیا تو اس نے رفاہ عامہ کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ شہر کے عین وسط میں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔ یہ مسجد دراصل ایک مرتفع چبوترہ پر قائم کی گئی ہے، مسجد کے نیچے چار اطراف دکانیں ہیں جو مسجد کی کفالت کے لیے ہی تعمیر کی گئی تھیں۔
یہ مسجد 17 فٹ چوڑی اور 44 فٹ لمبی ہے اس کے محراب و منبر سنگ مرمر کے ہیں، چوبی چھت عمدہ نقاشی سے مزین ہے، مسجد کی منقش دیواروں پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسماء الحسنی اور قرآنی آیات نقش ہیں۔ اس مسجد کے صحن میں دس مربع فٹ کا تالاب ہے جو وضو کیلئے استعمال ہوتا ہے، مسجد کے اندر آیت الکرسی اور قرآنی آیات بھی خط کوفی میں مرقوم ہیں۔
یہ مسجد ملتانی کاشی گری کے فن کا بھی بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ ملتان کی دیگر تاریخی عمارتوں کی طرح مسجد علی محمد خان کی تعمیر میں بھی چھوٹی اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے، ملتان اور ملحقہ علاقوں کی تمام قدیم عمارتوں میں چھوٹی اینٹ کا استعمال اس لیے بھی کیا جاتا تھا کہ اس میدانی علاقے میں پتھر نایاب تھے۔ یہاں عمارات کی تزئین و آرائش کے لیے نقاشی، خطاطی اور کاشی گری سے کام لیا جاتا تھا، محرابوں اور دریچوں کو بیل بوٹوں سے سجانے کی روایت بھی زیادہ تر ملتان سے ہی وابستہ ہے، اس سلسلے میں فیروزی اور نیلے رنگ کی اینٹیں استعمال کی جاتی تھیں، مسجد علی محمد خان بھی ایسے ہی طرز تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔
مسجد علی محمد خان اپنے قیام سے سکھ دور حکومت تک اندرون شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کے سبب مسلمانوں کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہی۔ اس مسجد کی تعمیر کے 60 سال بعد جب سکھوں نے ملتان پر قبضہ کیا تو شہر کی دیگر مساجد کی طرح یہ مسجد بھی سکھا شاہی کا شکار ہوئی۔ سکھوں نے ملتان کی قدیمی عیدگاہ کو اصطبل اور مہمان خانہ میں تبدیل کر دیا تھا، مزار شاہ شمسؒ پر بھی سکھوں کا تصرف رہا، مسجد علی محمد خان پر بھی سکھوں نے قبضہ کر لیا اور مسجد کے مرکزی ہال میں گرنتھ صاحب رکھ دیا جوان کے مخصوص اوقات میں پڑھا جاتا تھا۔
سکھوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس دور کے ناظم شہر نے مسجد کے مرکزی دروازے پر کچہری لگانا شروع کر دی۔ مسجد میں اذان اور نماز پر پابندی لگا دی گئی، مسلمانوں کو مسجد میں داخلے کی بھی اجازت نہ تھی۔ یوں قریباً 34 سال یہ مسجد اذان و سجود کو ترستی رہی۔ سکھ دور حکومت میں مسلمانوں نے بارہا اس مسجد کو سرکاری قبضہ سے واگزار کرانے کی کوشش کی لیکن انہیں کسی صورت بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ سکھ دور حکومت میں تمام کلیدی عہدوں پر ھندو اور سکھ متمکن تھے اور مسلمانوں کی سرکار دربار میں کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ 1848ء میں جب انگریزوں نے ملتان پر قبضہ کیا تو مسجد علی محمد خان مسلمانوں کو دوبارہ واپس مل سکی۔
انگریز دور حکومت میں جب مسجد علی محمد خاں مسلمانوں کو واپس ملی تو اس کی تزئین وآرائش کرائی گئی یہ واقعہ بھی اشعار کی صورت مسجد پر ثبت ہے:
زہے عمارتِ عالیء مسجدِ ملتان
کہ کردہ بُود بنائش علی محمد خاں
کشید برسر بازار بادوصد اقبال
لواء دین نبیؐ ہم چو آفتاب عیاں
بماند درکف سنگھاں بہ سال سی دچہار
اسیروبند کہ می کرد ماہ و سال فغاں
ظہور نور حبیبی رہاند از بندش
کہ گشتہ است ظہورش زنور کون و مکان
پس ازشکستن سنگھاں تیار شدہ ازنو
بہ زینہ ہاوستوں ہاو نقشہ دالاں
چوکرد نور محمد کشادہ از بندش
بتافت ہمچو ستارہ زطلمت سنگھاں
ترجمہ:'' ملتان کی یہ عالی شان مسجد بھی کیا خوب ہے جسے علی محمد خاں نے بنایا' اس نے دو سو سال تک رسول اﷲ کے دین کا جھنڈا سربلند اور آفتاب کی مانند چمکتا رکھا' مگر چونتیس سال سکھوں کے ہاتھ پڑ جانے سے اس پر قید کی کیفیت طاری رہی جو مایوسی میں گزرے، اﷲ تعالیٰ کے حبیب کے صدقے یہ بھی واگزار ہوئی اور سکھوں کی شکست کے بعد ازسرنو تیار ہو کر سیڑھیوں، ستونوں اور دالانوں سے آراستہ ہوئی اور جب سے نور محمد نے اسے آزاد کرایا یہ سکھ عہد کے اندھیرے سے ستارہ بن کر چمکی''۔
مسجد علی محمد خان انگریز دور حکومت میں مسلمانوں کو واپس ملی تو یہ اندرون شہر کی مرکزی مسجد بن گئی، انگریز دور حکومت کو قائم ہوئے ابھی 30 سال ہی گزرے تھے کہ 1880ء میں ملتان میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے، ان دنوں اندرون شہر میں ہندو اکثریت میں تھے، اس لئے ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے مسجد علی محمد خان کو شدید نقصان پہنچایا کیونکہ مسجد علی محمد خان ہی مسلمانوں کی تمام تر سرگرمیوں کا مرکز تھی۔
حالات معمول پر آنے کے بعد سیٹھ خدا بخش بخاری نے ایک لاکھ روپیہ سے مسجد کی ضروری تعمیر و مرمت کرائی، یوں یہ تاریخی مسجد اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔ قیام پاکستان کے بعد مسجد علی محمد خان مزید آراستہ ہو کر مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا حصہ بنی لیکن چوک بازار میں واقع ہونے کی وجہ سے اس مسجد کے اطراف تجاوزات بڑھتی چلی گئیں۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے باہر کسی دور میں ایک چھوٹا سا حوض تھا جہاں گرمیوں کے موسم میں دن بھر لٹھے کبوتر بیٹھے رہتے تھے۔
نواب علی محمد خوگانی کی کہانی......
کہا جاتا ہے کہ ملتان شہر کی تاریخ میں 1752ء سے 1767ء تک سب سے زیادہ ممتاز اور بارسوخ شخص نواب علی محمدخان خوگانی تھا' نواب علی محمد خوگانی نے دو مختلف ادوار میں ملتان شہر پر حکومت کی، اس کا پہلا دور 1752ء سے 1758ء تک رہا جبکہ دوسرا دور حکومت 1761ء سے 1767ء تک جاری رہا۔ نواب علی محمد خوگانی احمد شاہ ابدالی کی فوج میں افسر تھا' احمد شاہ ابدالی کے ملتان پر حملوں کے دوران اس کے ساتھ آتا جاتا رہا۔ نواب علی محمد خوگانی جو سردار عثمان خان محسن زئی کا بیٹا تھا، بڑا مستعد اور ہوشیار آدمی تھا، احمد شاہ ابدالی نے حسن خدمات پر اسے 1752ء میں ملتان کا گورنر مقرر کیا، اس نے مختصر سے عرصہ میں رفاہ عامہ کے بہت سے کام کئے۔
اس نے شہر میں زراعت کے فروغ کے لئے اپنے نام پر ایک نالہ احداث کرایا' حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے مزار کی مرمت کرائی' قلعہ اور شہر کی فصیلوں کی بھی مرمت کرائی' نواب علی محمد خوگانی کو حکومت سنبھالے ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ آدینہ بیگ نامی سردار کی شرارت سے ملتان مرہٹہ گردی کی زد میں آگیا۔ نواب علی محمدخوگانی پسپا ہوکر بھاگ گیا' مرہٹوں نے صالح محمد نامی افغان کو ملتان کا گورنر مقرر کیا' دو سال بعد درانی پٹھانوں نے ملتان پر حملہ کرکے مرہٹوں کو بھگا دیا تو نواب علی محمد خوگانی بھی اپنی جگہ پر واپس آگیا۔
کچھ عرصہ بعد احمد شاہ ابدالی نے نواب علی محمد خوگانی کو معطل کرکے نواب شجاع خان کو ملتان کا حاکم مقرر کردیا لیکن علی محمد خوگانی نے شجاع خاں کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے اسے قید میں ڈال دیا' احمد شاہ ابدالی تک یہ اطلاعات پہنچیں تو اس نے ملتان پر حملہ کردیا اور شجاع خاں کو رہائی دلائی' نواب شجاع خان کو قید کرنے پر احمد شاہ ابدالی ایسا غضب کا شکار ہوا کہ سردر بار نواب علی محمد خوگانی کا پیٹ چاک کرا دیا' ایک اونٹ پر الٹا لٹکا کر تین دن اس کی لاش ملتان کی گلیوں میں پھرائی گئی۔ تین دن بعد مسجد علی محمد خان کے ہی خطیب جن کا نام مولانا علی محمد تھا نے اس کی تدفین کی اور قبر پر کتبہ بھی لگوایا' نواب علی محمد خوگانی کی قبر ملتان شہر کے حسن پروانہ قبرستان میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نواب علی محمد خان خوگانی کے خلاف احمد شاہ ابدالی کے غیض و غضب کی ایک وجہ افغان سدوزئی قبیلہ کا ایک معاہدہ تھا جس کی رُو سے سدوزئیوں کو صرف سدوزئی حاکم ہی سزا دے سکتا تھا۔ نواب علی محمد خوگانی چونکہ افغان محسن زئی قبیلہ کا فرد تھا اس لئے نواب شجاع خان کو قید میں ڈالنا اور اس پر ظلم و ستم کرنا نواب علی محمد خان خوگانی کا ناقابل معافی جرم ٹھہرا۔ سو احمد شاہ ابدالی جب مرہٹوں سے نبردآزما ہو چکا تو لاہور سے ہوتا ہوا ملتان آیا اور تھلہ شجاع خان کے پاس خیمہ زن ہوا' رات کو نواب شجاع خاں کی والدہ نے قید کے دوران بڑھنے والے شجاع خان کے بال' ناخن اور وہ میخیں جن سے اسے پابجولاں کیا گیا' پیش کیں اور کہا دیکھ خوگانی نے سدو کے بیٹے کا یہ حال کیا ہے، اس پر احمد شاہ ابدالی نے نواب شجاع خاں کی والدہ کو یقین دلایا کہ وہ اپنی سزا کو پہنچے گا اور پھر ایسا ہی ہو کر رہا۔
مسجد علی محمد خان کا نام ایک تاریخی مغالطہ
نواب علی محمد خوگانی نے اپنے دور حکومت میں ملتان شہر میں دو بڑی تعمیرات کرائیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعمیرات ہی اس کے نام سے منسوب نہ ہوسکیں۔ مسجد علی محمد خان اور نالہ علی محمد کو ملتان شہر کے لوگ قریباً تین صدیوں سے مسجد ولی محمد اور نالہ ولی محمد کہتے چلے آرہے ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نواب علی محمد خان نے یہ نالہ اور مسجد اپنے بھائی ولی محمد خان کے نام پر بنوائے تھے لیکن ملتان شہر کی تاریخ میں نواب علی محمد خان کے کسی بھائی کا وجود نہیں ملتا۔ ب
عض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ نواب علی محمد خان نے چونکہ اپنے دوسرے دور حکومت میں شہریوں پر بڑے ظلم و ستم کئے اور ٹیکس لگائے اس لئے ملتانیوں کے جذبہ انتقام نے اسے اس کے کریڈٹ سے محروم کردیا لیکن ملتان کے معروف مؤرخ مولانا نور احمد فریدی اس بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''دوسرے دور حکومت میں جب نواب علی محمد خان خوگانی نے چارج سنبھالا تو خزانہ خالی تھا' مرہٹے قلعہ اور فصیل کو جو نقصان پہنچا گئے تھے اس کی تعمیر کے لئے اس نے غلہ منڈی پر واجبی سا محصول لگا دیا چونکہ اس نے بزوربازو ملتان کے سدوزئی افغانوں سے حکومت چھینی تھی اس لئے انہوں نے نواب کو عوام اور احمد شاہ ابدالی کی نظروں میں گرانے کے لئے رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کیا'' نواب پر دوسرا الزام یہ تھا کہ اس نے خانقاہوں کے لئے آنے والے غلہ پر بھی ٹیکس لگا دیا تھا' مولانا نور احمد فریدی لکھتے ہیں ''جہاں تک خانقاہوں کے غلے کی معافی کا تعلق ہے تو وہ اس فرمان سے ظاہر ہے جو کتبہ کی صورت حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے مزار کے غربی دروازے پر نصب ہے:
حاصل غلہ را معاف نمود
بندئہ حق علی محمد خاں
مولانا نور احمد فریدی کے مطابق ''اگر غلہ کی معافی منسوخ ہو جاتی تو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے مزار کے سجادگان اس تختی کو ہی اکھاڑ پھینکتے۔''
ملتان شہر کے تاریخی آثار میں مسجد علی محمد خان اپنے شکوہ اور فن تعمیر کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتی ہے، شہر کے عین وسط میں واقع یہ مسجد ملتان میں تخت کابل کے گورنر نواب علی محمد خوگانی نے تعمیر کرائی تھی۔ 1758ء میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد ملتان اندرون شہر کی مساجد میں اس دور کی سب سے بڑی اور ایک مکمل جامع مسجد ہے۔
مسجد علی محمد خان جہاں اپنے فن تعمیر کے حوالے سے ایک شاہکار ہے' وہاں شہر کی اہم ترین تاریخ کی گواہ بھی ہے، ایک زمانے میں دریائے راوی کی ایک شاخ شہر کے وسط سے ہو کر گزرتی تھی، دریا کے ہٹ جانے کے بعد یہ جگہ بے آباد پڑی رہی، شہر کی آبادی بڑھی تو یہاں کوتوالی قائم کر دی گئی، قاضی وقت یہاں اپنی عدالت لگانے لگا اور عین اسی جگہ جہاں یہ مسجد ہے، مجرموں کو سزائیں دی جاتی تھیں۔
(بعض مؤرخین کی رائے میں جس جگہ مسجد علی محمد خان تعمیر کی گئی یہاں ایک تالاب ہوا کرتا تھا جہاں اندرون شہر کے لوگ کپڑے دھوتے تھے اور جانور پانی پیتے تھے، نواب علی محمد خان نے اس تالاب کے پانی کو غیر شفاف پا کر اسے مٹی سے پٹوا دیا اور اس پر ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔) 1752ء میں جب احمد شاہ ابدالی نے خواجہ اسحاق کی جگہ نواب علی محمد خوگانی کو ملتان کا حاکم مقرر کیا تو اس نے رفاہ عامہ کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ شہر کے عین وسط میں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔ یہ مسجد دراصل ایک مرتفع چبوترہ پر قائم کی گئی ہے، مسجد کے نیچے چار اطراف دکانیں ہیں جو مسجد کی کفالت کے لیے ہی تعمیر کی گئی تھیں۔
یہ مسجد 17 فٹ چوڑی اور 44 فٹ لمبی ہے اس کے محراب و منبر سنگ مرمر کے ہیں، چوبی چھت عمدہ نقاشی سے مزین ہے، مسجد کی منقش دیواروں پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسماء الحسنی اور قرآنی آیات نقش ہیں۔ اس مسجد کے صحن میں دس مربع فٹ کا تالاب ہے جو وضو کیلئے استعمال ہوتا ہے، مسجد کے اندر آیت الکرسی اور قرآنی آیات بھی خط کوفی میں مرقوم ہیں۔
یہ مسجد ملتانی کاشی گری کے فن کا بھی بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ ملتان کی دیگر تاریخی عمارتوں کی طرح مسجد علی محمد خان کی تعمیر میں بھی چھوٹی اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے، ملتان اور ملحقہ علاقوں کی تمام قدیم عمارتوں میں چھوٹی اینٹ کا استعمال اس لیے بھی کیا جاتا تھا کہ اس میدانی علاقے میں پتھر نایاب تھے۔ یہاں عمارات کی تزئین و آرائش کے لیے نقاشی، خطاطی اور کاشی گری سے کام لیا جاتا تھا، محرابوں اور دریچوں کو بیل بوٹوں سے سجانے کی روایت بھی زیادہ تر ملتان سے ہی وابستہ ہے، اس سلسلے میں فیروزی اور نیلے رنگ کی اینٹیں استعمال کی جاتی تھیں، مسجد علی محمد خان بھی ایسے ہی طرز تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔
مسجد علی محمد خان اپنے قیام سے سکھ دور حکومت تک اندرون شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کے سبب مسلمانوں کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہی۔ اس مسجد کی تعمیر کے 60 سال بعد جب سکھوں نے ملتان پر قبضہ کیا تو شہر کی دیگر مساجد کی طرح یہ مسجد بھی سکھا شاہی کا شکار ہوئی۔ سکھوں نے ملتان کی قدیمی عیدگاہ کو اصطبل اور مہمان خانہ میں تبدیل کر دیا تھا، مزار شاہ شمسؒ پر بھی سکھوں کا تصرف رہا، مسجد علی محمد خان پر بھی سکھوں نے قبضہ کر لیا اور مسجد کے مرکزی ہال میں گرنتھ صاحب رکھ دیا جوان کے مخصوص اوقات میں پڑھا جاتا تھا۔
سکھوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس دور کے ناظم شہر نے مسجد کے مرکزی دروازے پر کچہری لگانا شروع کر دی۔ مسجد میں اذان اور نماز پر پابندی لگا دی گئی، مسلمانوں کو مسجد میں داخلے کی بھی اجازت نہ تھی۔ یوں قریباً 34 سال یہ مسجد اذان و سجود کو ترستی رہی۔ سکھ دور حکومت میں مسلمانوں نے بارہا اس مسجد کو سرکاری قبضہ سے واگزار کرانے کی کوشش کی لیکن انہیں کسی صورت بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ سکھ دور حکومت میں تمام کلیدی عہدوں پر ھندو اور سکھ متمکن تھے اور مسلمانوں کی سرکار دربار میں کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ 1848ء میں جب انگریزوں نے ملتان پر قبضہ کیا تو مسجد علی محمد خان مسلمانوں کو دوبارہ واپس مل سکی۔
انگریز دور حکومت میں جب مسجد علی محمد خاں مسلمانوں کو واپس ملی تو اس کی تزئین وآرائش کرائی گئی یہ واقعہ بھی اشعار کی صورت مسجد پر ثبت ہے:
زہے عمارتِ عالیء مسجدِ ملتان
کہ کردہ بُود بنائش علی محمد خاں
کشید برسر بازار بادوصد اقبال
لواء دین نبیؐ ہم چو آفتاب عیاں
بماند درکف سنگھاں بہ سال سی دچہار
اسیروبند کہ می کرد ماہ و سال فغاں
ظہور نور حبیبی رہاند از بندش
کہ گشتہ است ظہورش زنور کون و مکان
پس ازشکستن سنگھاں تیار شدہ ازنو
بہ زینہ ہاوستوں ہاو نقشہ دالاں
چوکرد نور محمد کشادہ از بندش
بتافت ہمچو ستارہ زطلمت سنگھاں
ترجمہ:'' ملتان کی یہ عالی شان مسجد بھی کیا خوب ہے جسے علی محمد خاں نے بنایا' اس نے دو سو سال تک رسول اﷲ کے دین کا جھنڈا سربلند اور آفتاب کی مانند چمکتا رکھا' مگر چونتیس سال سکھوں کے ہاتھ پڑ جانے سے اس پر قید کی کیفیت طاری رہی جو مایوسی میں گزرے، اﷲ تعالیٰ کے حبیب کے صدقے یہ بھی واگزار ہوئی اور سکھوں کی شکست کے بعد ازسرنو تیار ہو کر سیڑھیوں، ستونوں اور دالانوں سے آراستہ ہوئی اور جب سے نور محمد نے اسے آزاد کرایا یہ سکھ عہد کے اندھیرے سے ستارہ بن کر چمکی''۔
مسجد علی محمد خان انگریز دور حکومت میں مسلمانوں کو واپس ملی تو یہ اندرون شہر کی مرکزی مسجد بن گئی، انگریز دور حکومت کو قائم ہوئے ابھی 30 سال ہی گزرے تھے کہ 1880ء میں ملتان میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے، ان دنوں اندرون شہر میں ہندو اکثریت میں تھے، اس لئے ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے مسجد علی محمد خان کو شدید نقصان پہنچایا کیونکہ مسجد علی محمد خان ہی مسلمانوں کی تمام تر سرگرمیوں کا مرکز تھی۔
حالات معمول پر آنے کے بعد سیٹھ خدا بخش بخاری نے ایک لاکھ روپیہ سے مسجد کی ضروری تعمیر و مرمت کرائی، یوں یہ تاریخی مسجد اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔ قیام پاکستان کے بعد مسجد علی محمد خان مزید آراستہ ہو کر مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا حصہ بنی لیکن چوک بازار میں واقع ہونے کی وجہ سے اس مسجد کے اطراف تجاوزات بڑھتی چلی گئیں۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے باہر کسی دور میں ایک چھوٹا سا حوض تھا جہاں گرمیوں کے موسم میں دن بھر لٹھے کبوتر بیٹھے رہتے تھے۔
نواب علی محمد خوگانی کی کہانی......
کہا جاتا ہے کہ ملتان شہر کی تاریخ میں 1752ء سے 1767ء تک سب سے زیادہ ممتاز اور بارسوخ شخص نواب علی محمدخان خوگانی تھا' نواب علی محمد خوگانی نے دو مختلف ادوار میں ملتان شہر پر حکومت کی، اس کا پہلا دور 1752ء سے 1758ء تک رہا جبکہ دوسرا دور حکومت 1761ء سے 1767ء تک جاری رہا۔ نواب علی محمد خوگانی احمد شاہ ابدالی کی فوج میں افسر تھا' احمد شاہ ابدالی کے ملتان پر حملوں کے دوران اس کے ساتھ آتا جاتا رہا۔ نواب علی محمد خوگانی جو سردار عثمان خان محسن زئی کا بیٹا تھا، بڑا مستعد اور ہوشیار آدمی تھا، احمد شاہ ابدالی نے حسن خدمات پر اسے 1752ء میں ملتان کا گورنر مقرر کیا، اس نے مختصر سے عرصہ میں رفاہ عامہ کے بہت سے کام کئے۔
اس نے شہر میں زراعت کے فروغ کے لئے اپنے نام پر ایک نالہ احداث کرایا' حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے مزار کی مرمت کرائی' قلعہ اور شہر کی فصیلوں کی بھی مرمت کرائی' نواب علی محمد خوگانی کو حکومت سنبھالے ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ آدینہ بیگ نامی سردار کی شرارت سے ملتان مرہٹہ گردی کی زد میں آگیا۔ نواب علی محمدخوگانی پسپا ہوکر بھاگ گیا' مرہٹوں نے صالح محمد نامی افغان کو ملتان کا گورنر مقرر کیا' دو سال بعد درانی پٹھانوں نے ملتان پر حملہ کرکے مرہٹوں کو بھگا دیا تو نواب علی محمد خوگانی بھی اپنی جگہ پر واپس آگیا۔
کچھ عرصہ بعد احمد شاہ ابدالی نے نواب علی محمد خوگانی کو معطل کرکے نواب شجاع خان کو ملتان کا حاکم مقرر کردیا لیکن علی محمد خوگانی نے شجاع خاں کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے اسے قید میں ڈال دیا' احمد شاہ ابدالی تک یہ اطلاعات پہنچیں تو اس نے ملتان پر حملہ کردیا اور شجاع خاں کو رہائی دلائی' نواب شجاع خان کو قید کرنے پر احمد شاہ ابدالی ایسا غضب کا شکار ہوا کہ سردر بار نواب علی محمد خوگانی کا پیٹ چاک کرا دیا' ایک اونٹ پر الٹا لٹکا کر تین دن اس کی لاش ملتان کی گلیوں میں پھرائی گئی۔ تین دن بعد مسجد علی محمد خان کے ہی خطیب جن کا نام مولانا علی محمد تھا نے اس کی تدفین کی اور قبر پر کتبہ بھی لگوایا' نواب علی محمد خوگانی کی قبر ملتان شہر کے حسن پروانہ قبرستان میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نواب علی محمد خان خوگانی کے خلاف احمد شاہ ابدالی کے غیض و غضب کی ایک وجہ افغان سدوزئی قبیلہ کا ایک معاہدہ تھا جس کی رُو سے سدوزئیوں کو صرف سدوزئی حاکم ہی سزا دے سکتا تھا۔ نواب علی محمد خوگانی چونکہ افغان محسن زئی قبیلہ کا فرد تھا اس لئے نواب شجاع خان کو قید میں ڈالنا اور اس پر ظلم و ستم کرنا نواب علی محمد خان خوگانی کا ناقابل معافی جرم ٹھہرا۔ سو احمد شاہ ابدالی جب مرہٹوں سے نبردآزما ہو چکا تو لاہور سے ہوتا ہوا ملتان آیا اور تھلہ شجاع خان کے پاس خیمہ زن ہوا' رات کو نواب شجاع خاں کی والدہ نے قید کے دوران بڑھنے والے شجاع خان کے بال' ناخن اور وہ میخیں جن سے اسے پابجولاں کیا گیا' پیش کیں اور کہا دیکھ خوگانی نے سدو کے بیٹے کا یہ حال کیا ہے، اس پر احمد شاہ ابدالی نے نواب شجاع خاں کی والدہ کو یقین دلایا کہ وہ اپنی سزا کو پہنچے گا اور پھر ایسا ہی ہو کر رہا۔
مسجد علی محمد خان کا نام ایک تاریخی مغالطہ
نواب علی محمد خوگانی نے اپنے دور حکومت میں ملتان شہر میں دو بڑی تعمیرات کرائیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعمیرات ہی اس کے نام سے منسوب نہ ہوسکیں۔ مسجد علی محمد خان اور نالہ علی محمد کو ملتان شہر کے لوگ قریباً تین صدیوں سے مسجد ولی محمد اور نالہ ولی محمد کہتے چلے آرہے ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نواب علی محمد خان نے یہ نالہ اور مسجد اپنے بھائی ولی محمد خان کے نام پر بنوائے تھے لیکن ملتان شہر کی تاریخ میں نواب علی محمد خان کے کسی بھائی کا وجود نہیں ملتا۔ ب
عض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ نواب علی محمد خان نے چونکہ اپنے دوسرے دور حکومت میں شہریوں پر بڑے ظلم و ستم کئے اور ٹیکس لگائے اس لئے ملتانیوں کے جذبہ انتقام نے اسے اس کے کریڈٹ سے محروم کردیا لیکن ملتان کے معروف مؤرخ مولانا نور احمد فریدی اس بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''دوسرے دور حکومت میں جب نواب علی محمد خان خوگانی نے چارج سنبھالا تو خزانہ خالی تھا' مرہٹے قلعہ اور فصیل کو جو نقصان پہنچا گئے تھے اس کی تعمیر کے لئے اس نے غلہ منڈی پر واجبی سا محصول لگا دیا چونکہ اس نے بزوربازو ملتان کے سدوزئی افغانوں سے حکومت چھینی تھی اس لئے انہوں نے نواب کو عوام اور احمد شاہ ابدالی کی نظروں میں گرانے کے لئے رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کیا'' نواب پر دوسرا الزام یہ تھا کہ اس نے خانقاہوں کے لئے آنے والے غلہ پر بھی ٹیکس لگا دیا تھا' مولانا نور احمد فریدی لکھتے ہیں ''جہاں تک خانقاہوں کے غلے کی معافی کا تعلق ہے تو وہ اس فرمان سے ظاہر ہے جو کتبہ کی صورت حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے مزار کے غربی دروازے پر نصب ہے:
حاصل غلہ را معاف نمود
بندئہ حق علی محمد خاں
مولانا نور احمد فریدی کے مطابق ''اگر غلہ کی معافی منسوخ ہو جاتی تو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے مزار کے سجادگان اس تختی کو ہی اکھاڑ پھینکتے۔''