کراچی پولیس میں سیاسی مداخلت
فوج سرحدوں کی نگہبان ہے تو پولیس معاشرہ کی دوسری دفاعی لائن سمجھی جاتی ہے
چیف جسٹس پاکستان انورظہیر جمالی نے کراچی پولیس میں سیاسی مداخلت سے متعلق ایک اخباری مضمون کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، آئی جی سندھ و دیگر حکام کو پیر4جولائی کو طلب کرلیا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کراچی پولیس میں سیاسی مداخلت کا نوٹس لینے کی ناگزیریت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے، پولیس کسی بھی جمہوری معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کا کلیدی ادارہ ہے ۔ فوج سرحدوں کی نگہبان ہے تو پولیس معاشرہ کی دوسری دفاعی لائن سمجھی جاتی ہے اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا، لیکن کراچی پولیس کو سیاسی مداخلت کے ذریعے عدم فعالیت کی پستیوں میں دھکیلا گیا۔
جہاں سپریم کورٹ کے روبرو ایک سابق آئی جی سندھ نے اپنی بے اختیاری کا شکوہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ پولیس کو جاگیردارانہ کلچر کے زیر اثر رہتے ہوئے ا سٹیبلشمنٹ سمیت لاتعداد پریشر گروپوں کے مسلسل دباؤ اور مداخلت نے تباہ کردیا ہے، شہری انتظامیہ ہو یا دیہی علاقے پولیس کو جرائم کی روک تھام میں مکمل ناکامی کا سامنا ہے، ظاہر ہے سماج کو قانون شکن عناصر کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ، اور لامحالہ اسی فورس کے ذریعے حکومت اور ریاست سماج میں قانون کی حکمرانی کے تصور کو عملی شکل دیتی ہے، مغرب میں پولیس اس لیے فعال، متحرک اور نتیجہ خیز ہے کہ اسے ہر قسم کے دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے اپنے فرائض باوقار و پیشہ ورانہ کمٹمنٹ کے ساتھ سرانجام دینے کی آزادی حاصل ہے۔
تاہم کراچی پولیس میں سیاسی مداخلت کی شکایت دیرینہ ہے، سپریم کورٹ اپنے کراچی بدامنی کیس میں اس موضوع پر واضح اور چشم کشا رولنگ دے چکی ہے۔ کراچی میں لاقانونیت، جرائم کی لہر کے بار بار اٹھنے اور مجرموں کی سرکوبی میں پولیس کی الم ناک نااہلی اور بے بسی حالیہ دو ہائی پروفائل واقعات سے بے نقاب ہوئی ہے جب کہ شہر قائد میں قانون کی پامالی اور مافیاؤں کو کھلی چھٹی ملنے کا ایک سبب پولیس کے امور میں سیاسی مداخلت کا تسلسل ہے، حکمران، وزراء ، سیاسی رہنما اور وی آئی پی شخصیات سمیت غیر ملکی دباؤ اور بااثر عناصر کی طرف سے جاری پریشر نے پولیس کو جاگیردارنہ کلچر میں ذاتی ملازم بنادیا ہے۔
سیاسی عناصر کی بھرتیوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، مجرمانہ یا پولیس سسٹم سے نابلد غیر پیش ورانہ افراد کی من پسند تقرریوں اور تبادلوں نے کراچی پولیس کی کارکردگی کو سخت نقصان پہنچایا ہے ، سیکڑوں اہلکاروں کو خصوصی سیکیورٹی پر مامور رکھنے کی جاگیردارنہ روش انتہائی مضبوط ہے جس پر ضرب کاری لگنی چاہیے۔ ارباب بست و کشاد یاد رکھیں کہ پولیس دباؤ کا شکار ہو تو کرمنل جسٹس سسٹم تک کو ناقابل تلافی دھچکا لگتا ہے، اس لیے پولیس کے پیشہ ورانہ کردار کی بحالی ناگزیر ہے۔
جہاں سپریم کورٹ کے روبرو ایک سابق آئی جی سندھ نے اپنی بے اختیاری کا شکوہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ پولیس کو جاگیردارانہ کلچر کے زیر اثر رہتے ہوئے ا سٹیبلشمنٹ سمیت لاتعداد پریشر گروپوں کے مسلسل دباؤ اور مداخلت نے تباہ کردیا ہے، شہری انتظامیہ ہو یا دیہی علاقے پولیس کو جرائم کی روک تھام میں مکمل ناکامی کا سامنا ہے، ظاہر ہے سماج کو قانون شکن عناصر کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ، اور لامحالہ اسی فورس کے ذریعے حکومت اور ریاست سماج میں قانون کی حکمرانی کے تصور کو عملی شکل دیتی ہے، مغرب میں پولیس اس لیے فعال، متحرک اور نتیجہ خیز ہے کہ اسے ہر قسم کے دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے اپنے فرائض باوقار و پیشہ ورانہ کمٹمنٹ کے ساتھ سرانجام دینے کی آزادی حاصل ہے۔
تاہم کراچی پولیس میں سیاسی مداخلت کی شکایت دیرینہ ہے، سپریم کورٹ اپنے کراچی بدامنی کیس میں اس موضوع پر واضح اور چشم کشا رولنگ دے چکی ہے۔ کراچی میں لاقانونیت، جرائم کی لہر کے بار بار اٹھنے اور مجرموں کی سرکوبی میں پولیس کی الم ناک نااہلی اور بے بسی حالیہ دو ہائی پروفائل واقعات سے بے نقاب ہوئی ہے جب کہ شہر قائد میں قانون کی پامالی اور مافیاؤں کو کھلی چھٹی ملنے کا ایک سبب پولیس کے امور میں سیاسی مداخلت کا تسلسل ہے، حکمران، وزراء ، سیاسی رہنما اور وی آئی پی شخصیات سمیت غیر ملکی دباؤ اور بااثر عناصر کی طرف سے جاری پریشر نے پولیس کو جاگیردارنہ کلچر میں ذاتی ملازم بنادیا ہے۔
سیاسی عناصر کی بھرتیوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، مجرمانہ یا پولیس سسٹم سے نابلد غیر پیش ورانہ افراد کی من پسند تقرریوں اور تبادلوں نے کراچی پولیس کی کارکردگی کو سخت نقصان پہنچایا ہے ، سیکڑوں اہلکاروں کو خصوصی سیکیورٹی پر مامور رکھنے کی جاگیردارنہ روش انتہائی مضبوط ہے جس پر ضرب کاری لگنی چاہیے۔ ارباب بست و کشاد یاد رکھیں کہ پولیس دباؤ کا شکار ہو تو کرمنل جسٹس سسٹم تک کو ناقابل تلافی دھچکا لگتا ہے، اس لیے پولیس کے پیشہ ورانہ کردار کی بحالی ناگزیر ہے۔