افغانستان میں مزید خود کش حملے
افغانستان کی حکومت نہ تو طالبان کے ساتھ اپنے معاملات طے کر رہی ہے اور نہ سرحدی معاملات کو طے کرنے پر آمادہ ہے
طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے ان 2 خودکش حملوں کی ذمے داری قبول کر لی ہے جن میں 40 پولیس کیڈٹس ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے۔ سرحد پار سے آمدہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ 2 خودکش حملہ آوروں نے کابل میں افغان پولیس کے دستے پر حملہ کرتے ہوئے خود کو بم دھماکے سے اڑا لیا۔ واضح رہے گزشتہ ہفتے کینیڈا کے سفارت خانے پر حفاظتی ڈیوٹی کرنے والے 14 نیپالی سیکیورٹی گارڈز کو دہشت گردی کی ایک کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تازہ واقعے میں 40 افغان پولیس اہلکار مارے گئے۔
افغان صدر اشرف غنی نے حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا کہ یہ حملے انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ صوبہ نورستان میں فضائی کارروائی کے دوران 73 طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ افغان قومی سلامتی کے مشیر محمد حنیف اتمر نے الزام عائد کیا کہ افغانستان میں داعش کے عسکریت پسندوں کی اکثریت پاکستان، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک سے آ رہی ہے۔
ایک طرف افغانستان کی طرف سے پاکستان پر عسکریت پسندوں کو افغانستان بھجوانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے دوسری طرف اسے سرحد کو محفوظ بنانے کی خاطر گیٹ لگانے پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے جو بلا جواز ہے کیونکہ گیٹ لگنے کے بعد افغانستان اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کی طرف سے محفوظ رہ سکیں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان کی اپنی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، افغانستان کی جو سرحد ازبکستان اور تاجکستان سے ملتی ہے، وہاں بھی کوئی کنٹرول نہیں ہے اور ازبک اور تاجک بلا روک ٹوک افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
افغانستان کی حکومت کو ان معاملات پر غور کرنا چاہیے، عجیب بات یہ ہے کہ افغانستان کی تاجکستان اور ازبکستان سے متصل سرحد محفوظ نہیں اور افغان انتظامیہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو بھی محفوظ بنانے پر آمادہ نہیں ہے، ایسی صورت میں دراندازی کو کیسے روک سکتی ہے، کابل میں جو خود کش حملہ ہوا ہے، وہ قابل مذمت ہے لیکن اس سے افغانستان کی حکومت کی ناکامی بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، افغانستان کی حکومت نہ تو طالبان کے ساتھ اپنے معاملات طے کر رہی ہے اور نہ سرحدی معاملات کو طے کرنے پر آمادہ ہے، وہ صرف الزام تراشیوں کے ذریعے اپنا کام چلا رہی ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا کہ یہ حملے انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ صوبہ نورستان میں فضائی کارروائی کے دوران 73 طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ افغان قومی سلامتی کے مشیر محمد حنیف اتمر نے الزام عائد کیا کہ افغانستان میں داعش کے عسکریت پسندوں کی اکثریت پاکستان، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک سے آ رہی ہے۔
ایک طرف افغانستان کی طرف سے پاکستان پر عسکریت پسندوں کو افغانستان بھجوانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے دوسری طرف اسے سرحد کو محفوظ بنانے کی خاطر گیٹ لگانے پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے جو بلا جواز ہے کیونکہ گیٹ لگنے کے بعد افغانستان اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کی طرف سے محفوظ رہ سکیں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان کی اپنی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، افغانستان کی جو سرحد ازبکستان اور تاجکستان سے ملتی ہے، وہاں بھی کوئی کنٹرول نہیں ہے اور ازبک اور تاجک بلا روک ٹوک افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
افغانستان کی حکومت کو ان معاملات پر غور کرنا چاہیے، عجیب بات یہ ہے کہ افغانستان کی تاجکستان اور ازبکستان سے متصل سرحد محفوظ نہیں اور افغان انتظامیہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو بھی محفوظ بنانے پر آمادہ نہیں ہے، ایسی صورت میں دراندازی کو کیسے روک سکتی ہے، کابل میں جو خود کش حملہ ہوا ہے، وہ قابل مذمت ہے لیکن اس سے افغانستان کی حکومت کی ناکامی بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، افغانستان کی حکومت نہ تو طالبان کے ساتھ اپنے معاملات طے کر رہی ہے اور نہ سرحدی معاملات کو طے کرنے پر آمادہ ہے، وہ صرف الزام تراشیوں کے ذریعے اپنا کام چلا رہی ہے۔