تماشائے اہل کرم
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوشحال تھا۔
کرنل مسعود اختر شیخ نے ترکی کے عظیم طنز نگار، عزیز نہ سن کی بیس شگفتہ تحریروں کا اردو میں بہت خوبصورت ترجمہ کیا ہے جو ''تماشائے اہل کرم'' کے عنوان سے کتابی صورت میں شایع ہوا ہے۔ کرنل مسعود نے استنبول میں ترکی کے اسٹاف کالج میں پڑھا، ترکی زبان پر دسترس حاصل کی اور اپنے دوران قیام ترکی ادب اور ترک ادیبوں سے متعارف ہوئے پھر ترکی ادب کو پاکستان میں روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا۔
''تماشائے اہل کرم'' میں ایک کہانی ''گدھا اور تمغۂ خدمت'' کے عنوان سے دلچسپ ہے یہ کہانی اس کتاب کا بہترین تعارف ہے۔ سو یہ پیش خدمت ہے۔
''ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوشحال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔
وقت گزرتا گیا پھر ایک زمانہ آیا کہ نامعلوم پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی رہا کرتی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے۔
جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جا رہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی، ڈھنڈورچی روانہ کروائے اور بذریعہ منادی مندرجہ ذیل فرمان شاہی رعایا تک پہنچایا۔
''میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغہ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے فوراً شاہی محل میں حاضرہوجائے۔ مابدولت اسے تمغہ خدمت سے نوازیں گے۔
منادی سنتے ہی ملک کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر پر تمغہ خدمت حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط، بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغہ خدمت درجہ اول خالص سونے کا بنوایا گیا، درجہ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ کا۔ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کردیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخدلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے میں مزید تمغے بنانے کے لیے ملک میں نہ سونا بچا نہ چاندی اور نہ کوئی اور دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیا تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔ ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے یوں ٹن ٹن کرتے سنائی دیتے جیسے دھوبی کے گدھے کی گردن میں گھنٹیاں۔
ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے ٹنٹناتے دیکھے تو اسے بھی قسم آزمائی کا شوق ہوا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، ہڈیاں تک گنی جاسکتی تھیں۔ اس کے باوجود وہ گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا تو بولی بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرف ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔ دربانوں نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے گائے سے پوچھا کیا چاہتی ہے۔ گائے نے عرض کیا، بادشاہ سلامت! آپ رعایا کو تمغے عنایت فرما رہے ہیں۔ میں بھی اپنا حق لینے حاضر ہوئی ہوں۔ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا، تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرأت کیسے ہوئی۔ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمت انجام دیتے ہیں جس کے عوض انھیں تمغے دیے جائیں۔
گائے نے جواب دیا، حضور والا! اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حقدار نہیں تو پھر بھلا اور کون حقدار ہوسکتا ہے۔ میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہر ممکن خدمت کرتی ہوں۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے، تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کسی خدمت کی ضرورت ہے۔
گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور حکم دیا کہ گائے کو فورا تمغہ خدمت درجہ دوم عطا کیا جائے۔
گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے ٹھمکتی ٹھمکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا۔ بولا باجی! آج بڑی خوش نظرآرہی ہو۔کیا وجہ ہے اور یہ گردن میں کیا لڑکا رکھا ہے؟ گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آیا۔ سرپٹ بھاگا اور شاہی محل پر جاکر دم لیا۔ دربانوں سے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی خواہش ظاہرکی مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر نے دو دربانوں پر دولتیاں جھاڑیں، ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ خچر اندر آنا چاہتا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا، خچر کو پیش کیا جائے۔ آخر وہ بھی تو ہماری رعایا میں شمار ہوتا ہے۔ خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔
بادشاہ نے پوچھا۔ اے خچر! تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغے کا حقدار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو؟
خچر نے عرض کیا، اعلا حضرت! مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو ناچیز کی خدمات کا علم نہیں۔ بھلا بتائیے جنگ کے دوران آپ کی فوج کی توپیں، گولہ بارود اور دوسرا جنگی سامان اپنی کمر پر اٹھا کر دشوار گزار راستوں سے گزر کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک کون پہنچاتا ہے۔ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے۔ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا حصہ کچھ کم نہیں ہے۔
بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو تمغہ خدمت درجہ اول دینے کا حکم ہوا۔
خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے لوٹ رہا تھا کہ راستے میں گدھا ملا۔ علیک سلیک کے بعد گدھے نے خچر سے پوچھا، کہو اتنے خوش کہاں سے آرہے ہو؟ خچر نے سارا واقعہ سنایا تو گدھا رینکا۔ ٹھہرو! میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔
یہ کہا اور بھاگم بھاگ سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کی لیکن گدھا کہاں سنتا۔ آخر کار بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ بادشاہ انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر تنگ آچکا تھا، گدھے کو دیکھ کر جھلا کر کہا، گدھے کہیں کے! تمہیں کیسے جرأت ہوئی شاہی محل میں آنے کی۔ میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔ خچر امن اور جنگ کے زمانے میں بوجھ اٹھا کر قومی خدمت انجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کو سوائے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کے کوئی کام نہیں۔ بتاؤ! تمہیں کس خوشی میں تمغہ دوں۔
گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں مگر اس نے ہمت نہیں ہاری، کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت توگدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنھیں آپ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی بدستور محفوظ چلی آرہی ہے۔
گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا ''واقعی گدھا حق بجانب ہے'' پھر وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا۔
اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں مگر ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ رہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرو۔''