جنوبی ایشیائی صنعتی حفاظتی اقدامات مذاق ہیں ہیومین رائٹس واچ

پاکستان کے بعد بنگلہ دیشی فیکٹری میں آتشزدگی نجی شعبے کے سی ایس آر ماڈل کی ناکامی ہے۔


AFP November 27, 2012
پاکستان کے بعد بنگلہ دیشی فیکٹری میں آتشزدگی نجی شعبے کے سی ایس آر ماڈل کی ناکامی ہے۔ فوٹو: گوگل

پاکستان کے بعد بنگلہ دیش میں گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی سے 110 ہلاکتوں کے بعد انگلیاں مغربی ریٹیل برانڈز پر اٹھنے لگی ہیں اور الزام لگایا جا رہا ہے کہ مغربی گارمنٹ فرمز ایسے واقعات کی ذمے داری لینے کے بجائے بے وقت حفاظتی آڈٹ کے پیچھے چھپ رہی ہیں۔

یاد رہے کہ 11 ستمبر کو کراچی ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے 289 ورکر جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بعد ہفتہ کو بنگلہ دیشی تزرین فیشن پلانٹ میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں 110 صنعتی کارکن جل کر مرگئے، ان واقعات سے جنوبی ایشیا کے برآمدی گارمنٹ سیکٹر میں کارکنوں کے عدم تحفظ کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہیومین رائٹس واچ کے ایشیاڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ کئی فیکٹری مالکان دھوکہ دیتے ہیں یا نام نہاد سیفٹی کمپلائنس خرید لیتے ہیں جس کا مقصد غیرملکی خریداروں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔

یہ نجی شعبے کے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلیٹی ماڈل کی ناکامی کی ایک اور واضح مثال ہے۔ آتشزدگی کا شکار تزرین پلانٹ کے آنر طوبیٰ گروپ کا کہنا ہے کہ ان کی فیکٹریاں معروف عالمی ریٹیلرز بشمول وال مارٹ، کار فور، آئی کے ای اے اور سی اینڈ اے کیلیے ملبوسات تیار کرتی ہیں اور ان کے پاس محفوظ اور اخلاقی پیداواری سرگرمیوں کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائیڈ ریسپانسبل ایکریڈیٹڈ پراڈکشن (ڈبلیوآراے پی) کا سرٹیفکیٹ ہے تاہم انڈسٹری فنڈنگ کے الزام کا شکار امریکا بیسڈ تنظیم ڈبلیوآراے پی نے تزرین فیکٹری کی سرٹیفکیشن سے انکار کردیا ہے۔

ہیومین رائٹس واچ کے رابرٹسن نے جنوبی ایشیا میں صنعتوں میں حفاظتی اقدامات کو ''عالمی سطح کامذاق'' قراردیا اور کہاکہ ان فیکٹریوں کی مصنوعات استعمال کرنے والی مغربی چینز کو ان میں کام کرنیوالے ورکرز کی براہ راست ذمے داری لینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں