مہنگائی میں کمی کے دعوے اور زمینی حقیقت
رمضان المبارک کے دوران مہنگائی لوٹ کھسوٹ سیل کی شکل میں سامنے آئی ہے
ملکی معیشت کی مجموعی ترقی اور شرح نمو کے حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے خوش آئند اعلانات سامنے آئے ہیں ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کی بدولت ملکی زرمبادلہ کے 23 ارب ڈالر کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں جب کہ ایف بی آر نے بھی 3104 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی) کا اجلاس یہاں وزیراعظم ہاؤس میں وفاقی وزیر خزانہ کی زیر صدارت ہوا۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی کی معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی۔جس کے مطابق تیسری سہ ماہی میں زرعی شعبے میں نقصانات کے باوجود ترقی کی رفتار برقرار رہی، صنعتی اور خدمات کے شعبے کی کارکردگی بہتر رہی، مہنگائی کی رفتار گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے، اجناس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کی رفتار کم ہوئی جب کہ پاکستان شماریات بیورو کے سربراہ آصف باجوہ کے مطابق ملک میں مہنگائی 46 سال کی کم ترین پر پہنچ گئی ہے۔
ایک معاصر انگریزی اخبار نے اسے 16سال کی سطح بتایا ہے تاہم غربت اور مہنگائی کے قریبی تعلق اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کو افراط زر یا مہنگائی کے باعث جن نامساعد حالات کا سامنا ہے انہیں سرکاری اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے جب حکومتی ادارے یا کسی سروے رپورٹ میں مہنگائی میں کمی کی بات ہوتی ہے تو عام آ دمی کے نزدیک وہ اتار چڑھاؤ مجرد سرکاری نرخ ناموں کی طرح کے ہوتے ہیں جب کہ وہ زمینی حقائق کی روشنی میں اشیائے خورو نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے پریشان ہے اور مہنگائی میں کمی کی نوید کو ''دل جلانے کی بات کرتے ہو'' کے مترادف سمجھتا ہے۔
بلاشبہ اسٹیٹ بینک اور ادارہ شماریات کے اعداد وشمار حقیقت اور ٹھوس ریسرچ کی عکاسی کرتے ہوں گے مگر عام مشاہدہ اور رمضان المبارک کے دوران مہنگائی لوٹ کھسوٹ سیل کی شکل میں سامنے آئی ہے، رمضان بازار کی افادیت اپنی جگہ مگر رمضان کے اخراجات کے ساتھ عید کی خریداری اور بچوں کے کپڑے جوتے کھلونوں کی مد میں غریبوں کی جیبیں خالی ہوگئیں، بادی النظر میں کوئی ایسی ملک گیر سرکاری یا نجی سطح پر عید رعایت یا گرانڈ سیل چین نہیں دیکھی گئی جس کا متوسط اور ملازمت پیشہ عوام عوام نے خیر مقدم کیا ہو۔ عید پر والدین سے بچوں نے جو مطالبے یا ضد کی میڈیا نے ان کی دلگداز اور دردناک خبریں دی ہیں، غربت کے ماروں نے بچے زمین پر پٹخ دیئے، کچھ نے خود کشی کی۔
ادھر ملبوسات، مشروبات، کھجور، پھینی، کھجلہ، پھل، سبزی، انڈے، ٹماٹر، خوردنی تیل، دال، چاول، ادویات کے ریٹ سمیت دودھ، دہی اور بجلی کے غیر معمولی اوسط بلوں نے شہریوں کو اذیت سے دوچار کیا۔ بہر حال ادارہ جاتی انڈیکس پر اطمینان اور مہنگائی میں کمی کی خوشخبری اسی وقت عوام کومطمئن کرسکتی ہے جب مہنگائی اور غربت کا دو طرفہ عذاب ختم نہیں تو کسی حد تک کم ضرور ہو جائے۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی کی معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی۔جس کے مطابق تیسری سہ ماہی میں زرعی شعبے میں نقصانات کے باوجود ترقی کی رفتار برقرار رہی، صنعتی اور خدمات کے شعبے کی کارکردگی بہتر رہی، مہنگائی کی رفتار گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے، اجناس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کی رفتار کم ہوئی جب کہ پاکستان شماریات بیورو کے سربراہ آصف باجوہ کے مطابق ملک میں مہنگائی 46 سال کی کم ترین پر پہنچ گئی ہے۔
ایک معاصر انگریزی اخبار نے اسے 16سال کی سطح بتایا ہے تاہم غربت اور مہنگائی کے قریبی تعلق اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کو افراط زر یا مہنگائی کے باعث جن نامساعد حالات کا سامنا ہے انہیں سرکاری اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے جب حکومتی ادارے یا کسی سروے رپورٹ میں مہنگائی میں کمی کی بات ہوتی ہے تو عام آ دمی کے نزدیک وہ اتار چڑھاؤ مجرد سرکاری نرخ ناموں کی طرح کے ہوتے ہیں جب کہ وہ زمینی حقائق کی روشنی میں اشیائے خورو نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے پریشان ہے اور مہنگائی میں کمی کی نوید کو ''دل جلانے کی بات کرتے ہو'' کے مترادف سمجھتا ہے۔
بلاشبہ اسٹیٹ بینک اور ادارہ شماریات کے اعداد وشمار حقیقت اور ٹھوس ریسرچ کی عکاسی کرتے ہوں گے مگر عام مشاہدہ اور رمضان المبارک کے دوران مہنگائی لوٹ کھسوٹ سیل کی شکل میں سامنے آئی ہے، رمضان بازار کی افادیت اپنی جگہ مگر رمضان کے اخراجات کے ساتھ عید کی خریداری اور بچوں کے کپڑے جوتے کھلونوں کی مد میں غریبوں کی جیبیں خالی ہوگئیں، بادی النظر میں کوئی ایسی ملک گیر سرکاری یا نجی سطح پر عید رعایت یا گرانڈ سیل چین نہیں دیکھی گئی جس کا متوسط اور ملازمت پیشہ عوام عوام نے خیر مقدم کیا ہو۔ عید پر والدین سے بچوں نے جو مطالبے یا ضد کی میڈیا نے ان کی دلگداز اور دردناک خبریں دی ہیں، غربت کے ماروں نے بچے زمین پر پٹخ دیئے، کچھ نے خود کشی کی۔
ادھر ملبوسات، مشروبات، کھجور، پھینی، کھجلہ، پھل، سبزی، انڈے، ٹماٹر، خوردنی تیل، دال، چاول، ادویات کے ریٹ سمیت دودھ، دہی اور بجلی کے غیر معمولی اوسط بلوں نے شہریوں کو اذیت سے دوچار کیا۔ بہر حال ادارہ جاتی انڈیکس پر اطمینان اور مہنگائی میں کمی کی خوشخبری اسی وقت عوام کومطمئن کرسکتی ہے جب مہنگائی اور غربت کا دو طرفہ عذاب ختم نہیں تو کسی حد تک کم ضرور ہو جائے۔