غریب کا بچہ

اب عید میں دن ہی کتنے رہ گئے تھے۔ خاندان اور محلے کے سب بچوں کے جوڑے آگئے تھے


Zahida Hina July 02, 2016
[email protected]

KARACHI: ان کے گھروں میں پیدائش کی تاریخ، مہینہ اور سال بھلا کون لکھتا تھا۔ اپنی ماں کے جگر کا یہ ٹکڑا تین یا شاید ساڑھے تین برس کا تھا۔ گورا چٹا، شرارت اور ذہانت سے بھری ہوئی آنکھیں۔ بولنا ابھی اس نے چند مہینوں پہلے شروع کیا تھا۔ ٹوٹے ہوئے جملے، تتلاتی ہوئی زبان۔ ماں اس کی باتوں پر نثار ہوتی۔ آس پاس کے گھروں میں بھی اس جیسے بچے تھے، اتنے ہی بڑے یا اس سے کچھ بڑے' کچھ اس سے چھوٹے بھی تھے۔ اماں روزہ رکھتی اور پھر بھی ہنستی رہتی، ابا روزہ رکھ کر آگ کا گولہ بن جاتا۔ اسے ہر وقت غصہ آتا تھا لیکن روزہ کھولتا تو کبھی کبھی مسکرا بھی دیتا تھا۔

ان دنوں برابر کے گھروں میں، ماموں اور چچا کے گھروں میں بچوں کے نئے کپڑے خریدے گئے تھے یا ان کی ماؤں اور باجیوں نے سیے تھے۔ وہ پوچھتا میرا عید کا جوڑا کب آئے گا۔ ماں اسے تسلی دیتی، آجائے گا میرے بچے، تیرا جوڑا بھی آجائے گا۔ برف کی طرح سفید ہوگا۔ اس پر گلاب کی بیل ہوگی اور یہ سن کر وہ ماں کا منہ چوم لیتا۔ سچ اماں؟

اب عید میں دن ہی کتنے رہ گئے تھے۔ خاندان اور محلے کے سب بچوں کے جوڑے آگئے تھے، بس ایک وہی تھا جس کے بابا اس کے لیے برف جیسا سفید کرتا نہیں لائے تھے۔ روزہ کھل گیا تھا لیکن اس روز اماں نے نمک کی ڈلی سے افطار کیا تھا اور بابا کو کھجور دے دی تھی۔ اس کے ننھے سے دماغ نے اسے مشورہ دیا۔ بابا سے اب پوچھ لینا چاہیے۔

اس نے بابا کے گلے میں بانہیں ڈال کر برف جیسے کرتے کے بارے میں پوچھا۔ ''تم اسے چپ نہیں کرا سکتیں؟'' بابا نے دانت پیستے ہوئے کہا ''آٹا اور پیاز خریدنے کے پیسے نہیں، اسے کرتے کی پڑی ہے''۔ ''بچہ ہے جی۔ میں سمجھادوں گی۔'' ماں نے جلدی سے کہا۔ بچے نے رونا شروع کردیا۔ باپ نے اسے زور دار تھپڑ مارا، اس کی آواز تیز ہوگئی۔ باپ نے اسے اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔ بچے نے ہچکی لی اور چپ ہوگیا۔ ہمیشہ کے لیے۔ ماں چیخیں مارنے لگی۔ اس کا اکلوتا پھول سا بچہ عید کے جوڑے کے لیے سوال کرتا ہو اچلا گیا۔

ایسی ہی کئی خبریں پہلے بھی آچکی ہیں اور بہت سے ایسے بچے بھی ہیں جن کا جان سے گزرنا اخباروں تک نہیں پہنچا۔

ہمارے بے شمار بچے جنت کے وعدے پر بارود کی بگھی میں بیٹھ کر خود بھی قتل ہوگئے اور سیکڑوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بہتوں کو بھوک اور بیماری نے کھالیا، ان پر رونے والوں میں ان کے ماں باپ اور بھائی بہن ہیں۔ کوئی ان کا نام بھی نہیں جانتا ۔ وہ تو بس اعداد و شمار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار پر ایک نگاہ ڈالیے تو کلیجہ کٹتا ہے۔ بچوں کے بارے میں ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے کتنی خوبصورت باتیں کہی ہیں۔

ٹیگور کہتے ہیں کہ ہر بچے کی پیدائش اس بات کا اشارہ ہے کہ خدا دنیا سے ابھی مایوس نہیں ہوا۔ ہم سب ہی کہتے ہیں کہ بچے دنیا کا مستقبل ہیں، ان کی زندگی جتنی بہتر ہوگی، اتنی ہی دنیا بہتر ہوگی۔2002ء میں ڈورو تھی رو یجت نے بچوں کے حقوق کے بارے میں ایک نظم کہی جو 2002 کے ایک کلینڈر پر شایع ہوئی اور اسے اقوام متحدہ کی عمارت میں آویزاں کردیا گیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ:

دنیا میں جب تک ہر بچے کا پیٹ نہ بھرا ہو... اور سردی کے موسم میں وہ گرم لباس پہنے ہوئے نہ ہوں... اور سبق پڑھتے ہوئے جن کے ذہن پرا گندہ نہ ہوں... اور بھوک، خوف اور ضرورتوں سے انھیں نجات نہ مل گئی ہو... خواہ ان کا رنگ، نسل اور مذہب و مسلک کچھ بھی ہو... وہ اپنے اپنے آسمانوں کی طرف سر اٹھا کر دیکھیں اور مسکرائیں...زندگی پر ان کا ایمان ان کی آنکھوں سے چھلکتا ہو...

بلا مبالغہ سیکڑوں نظمیں ہیں جو بچوں کے حقوق پر لکھی گئیں۔ ان میں کچھ بچوں نے خود لکھیں اور کچھ ان سے بے پناہ محبت کرنے والوں نے ان کے لیے لکھیں۔ میں ان میں سے بہت سی نظمیں پڑھتی ہوں اور دل بوجھل ہوجاتا ہے۔ ہماری ریاست جس نے بچوں کے حقوق کے اعلان نامہ پر دستخط کیے اور پھر انھیں بھول گئی۔

اس نے شہری اور سیاسی حقوق کے انٹرنیشنل کوویننٹ پر دستخط کیے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی تفریق اور امتیاز کے بغیر، نسل، رنگ، صنف، زبان، مذہب، سماجی، حیثیت، جائیداد کے حق اور اپنی جان اور مال کا تحفظ ہر بچے کا حق ہے۔ پاکستانی آئین میں کہا گیا کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ 14 برس سے کم عمر کے بچے سے کسی فیکٹری، کسی دکان یا دوسرے خطرناک شعبوں میں کام نہ لیا جائے ، یہ ریاست کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اس کی جان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس کی تعلیم اور اس کی صحت کی دیکھ بھال، کوئی بھی بچہ دیہاتی ہو یا شہری اس کے حقوق کی نگہداری ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہوگی۔

یہ کتنی دل خوش کردینے والی باتیں ہیں لیکن جب ہم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2015 ء میں انسانی حقوق کی صورت حال پڑھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کہ بچوں کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والے نظام کا نہ اطلاق کیا گیا، نہ اسے بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔ صرف ایک بات حوصلہ افزا ہے کہ 2015ء میں بچوں کو پولیو سے تحفظ دینے کے لیے جو مہم چلائی گئی اس میں 80 فیصد کامیابی ہوئی۔

آئی ایل او کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں مزدور بچوں کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ تک ہے۔ ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے حکومت پنجاب 2016 ء میں سروے کروانے والی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔ ان بچوں کو بھٹہ مالکان کی جبری مشقت سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں اسکولوں میں داخل کرایا ہے۔ انھیں کتابیں، کاپیاں اور بستے مفت فراہم کیے جاتے ہیں اور ان کے والدین کو کچھ رقم بھی دی جاتی ہے تاکہ بچوں کا ذریعہ آمدنی نہ ہونے کا ان کے خاندان پر برا اثر نہ ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکتوبر میں آنے والے زلزلے میں جو جانی نقصان ہوا، اس میں سے نصف تعداد بچوں کی تھی۔

2015 ء کے دوران بچوں کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد، اسلام آباد میں جس خوف ناک حد تک بڑھا۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے صوبے میں 113 بچے بے حرمت کیے گئے جب کہ وفاقی دارالحکومت میں 167 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ اس گھناؤنے جرم میں گزشتہ برس کی نسبت 85 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بات بھی ہولناک ہے کہ اسلام آباد میں بے حرمتی کا نشانہ بننے والوں سے 97 بچے اور بچیاں قتل کردیئے گئے۔

کم عمری کی شادی جو قانونی طور پر جرم ہے، وہ بھی عروج پر رہی اور بچوں پر گھروں اور اسکولوں اور مدرسوں میں جسمانی تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ بعض حالات میں اس تشدد میں اضافہ ہوا۔ یہ خبر تو پاکستان بھر میں عام ہوئی کہ ایک باپ نے 12 برس کی بچی کو اس جرم پر مار مار کر ہلاک کردیا کہ اس بچی کی پکائی ہوئی چپاتی گول نہیں تھی، اسی طرح 4 برس کے ایک بچے کو سگے باپ اور سوتیلی ماں نے اس جرم میں ہلاک کردیا کہ اس نے رات کو سوتے ہوئے ماں باپ کو اٹھایا تھا کہ وہ پیشاب کرنا چاہتا ہے اور کمرے سے باہر جاتے ہوئے اسے ڈر لگتا ہے۔

ہم بچوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن جب ان بچوں کو ہم اپنے گھروں میں ملازم رکھتے ہیں تو ان کے ساتھ ہم میں سے بیشتر کا سلوک ظالمانہ ہوتا ہے ۔ ان میں سے اکثر بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔ اس کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ انھیں موسم کے حساب سے کپڑے پہنائے جائیں۔ نہ ان کی نیند اور آرام کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ آوارہ گرد اور بھیک مانگنے والے بچوں اور بچیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بھیک منگوانے والوں کے گروہ ہیں جو ان پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچے دور درازکے علاقوں سے اغوا کیے جاتے ہیں اور عمر بھر کے لیے محبتوں کو ترستے ہیں۔

کیا ہماری ریاست بچوں کے لیے نئے قوانین بنانے سے پہلے ان بچوں کے تحفظ اور ان کی مسرت کے لیے بنے ہوئے قوانین کا سختی سے اطلاق نہیں کرسکتی؟ کیا بچوں کی جیلوں کا حال نہیں سدھارا جاسکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اپنے تمام بچوں کو مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم نہیں دے سکتے؟ عید کے چاند پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے والے کیا ان معاملات پر بھی غور کریں گے؟ غریب کے بچے کا دل بھی اتنا ہی آرزوؤں سے بھرا ہوا اور خوشی کی طرف لپکتا ہوا ہوتا ہے، جتنا ہمارے اپنے بچوں کے دل ۔ ہم کچھ تو کریں کہ غریب کا بچہ عید کے جوڑے کی فرمائش کرتا ہوا رخصت نہ ہوجائے اور وہ بھی باپ کے ہاتھوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں