ملاقاتیں کیا کیا

یوں تو اس میں شامل ہر شخصیت اپنی جگہ پر ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے


Amjad Islam Amjad July 02, 2016
[email protected]

الطاف حسن قریشی صاحب کی تحریروں سے میرا پہلا تعارف ان ہی کی ادارت میں شایع ہونے والے ایک ٹرینڈ سیٹر ماہنامے ''اردو ڈائجسٹ'' سے ہوا جس کے نام اور انداز پر تو ''ریڈرز ڈائجسٹ'' کا سایا تھا مگر جس کے مندرجات اپنی نوعیت کے اعتبار خالص مقامی اور پاکستانی تھے۔

اس رسالے کو اگر قدیم اور جدید صحافت کے درمیان پل کا درجہ دیا جائے تو یہ کوئی ایسی غلط بات نہ ہو گی کہ اس کے صفحات میں آپ نہ صرف ماضی حال اور مستقبل کو ایک جگہ پر دیکھ سکتے تھے بلکہ اس کے ذریعے عالمی ادب کے منتخب فن پارے بھی پڑھنے کو مل جاتے تھے لیکن اس کی جن دو خوبیوں نے سب سے زیادہ متاثر اور متوجہ کیا وہ اس کا گٹ اپ اور الطاف حسن قریشی کی وہ تحریریں تھیں جو اداریوں اور انٹرویوز کی شکل میں اس کا حصہ بنتی تھیں۔

آج تقریباً نصف صدی بعد جب ان کے لیے ہوئے انٹرویوز کا ایک انتخاب ''ملاقاتیں کیا کیا'' پڑھنے کا موقع ملا ہے تو ان کی رواں دواں نثر' بے باک سوالات اور انٹرویو کے حصول اور اس کے دوران کی دلچسپ اور غیر رسمی تفصیلات نے بہت لطف دیا، اس کتاب کی ایک اور اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں پاکستان کے ابتدائی برسوں کی تاریخ نہ صرف بہت سلیقے سے مرتب ہو گئی ہے بلکہ اس دور کی نمائندگی مختلف الخیال شخصیات کے خیالات و نظریات کے تناظر اور پس منظر میں اسے ہر پہلو سے دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔

یوں تو اس میں شامل ہر شخصیت اپنی جگہ پر ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے کہ ان کے خیالات' نظریات' کردار اور کارکردگی کا مطالعہ ہماری قومی تاریخ کے اہم ترین واقعات کی بہتر تفہیم کا ایک ذریعہ ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو' شیخ مجیب الرحمن' جنرل ضیاء الحق اور شاہ فیصل کے انٹرویوز اس اعتبار سے زیادہ اہم ہیں کہ ان میں 24 برس کے اندر اندر ایک بے شمار جانی و مالی قربانیوں کے بعد حاصل کردہ خواب' اس کی تعبیر اور پھر شکست خواب کی ایسی عکاسی ملتی ہے جو شاید ایسے عمدہ اور مرتب انداز میں کہیں اور نہ مل سکے لیکن ان کا ذکر کرنے سے پہلے میں اس بات کا اقرار ضروری سمجھتا ہوں کہ میں بھی بہت سے دوسروں کی طرح الطاف حسن قریشی صاحب سے منسوب کچھ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا شکار رہا ہوں مثال کے طور پر یہی بات کہ جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک اپنے عروج پر تھی وہ اپنے قارئین کو ''محبت کا زم زم بہہ رہا ہے'' کی طوطا مینا سنا رہے تھے اور یہ کہ انھوں نے جنرل محمد ضیاء الحق کی آمریت اور افغان پالیسی کا کھل کر ساتھ دیا۔

اگرچہ ان دونوں باتوں کی وضاحت اس کتاب میں مختلف حوالوں سے ہو جاتی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جس وقت مشرقی پاکستان کا یہ سفرنامہ تھا تجزیہ لکھا گیا (1966) اس وقت تک تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ایک بہت محدود اقلیت سے قطع نظر مشرقی پاکستان کے بیشتر لوگ صرف اپنے مسائل کا حل اور شکایات کا ازالہ چاہتے تھے اور پاکستان سے محبت اور وفاداری کا اتنا ہی دم بھرتے تھے جس کا کوئی اور دعویٰ کر سکتا تھا اور یہی وہ پس منظر تھا جس میں الطاف حسن قریشی جسے ایک محب الوطن پاکستانی اور امید پرست انسان کو محبت کا زم زم بہتا دکھائی دے رہا تھا۔

آئندہ چار پانچ برس میں جو کچھ ہوا بلاشبہ اس نے حالات کی صورت بہت حد تک بدل دی مگر کوئی تجزیہ کار کچھ بھی ہو بہر حال نجومی نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ بات بھی مجھے اسی کتاب کے توسط سے معلوم ہوئی کہ قائداعظم کے ''ایک قوم ایک زبان' والے اعلان کو مشرقی پاکستان کے عوام اور سیاسی نمائندوں کے احتجاج کے بعد واپس تو لے لیا گیا تھا مگر 1952 میں خواجہ ناظم الدین نے (جن کا تعلق خود مشرقی پاکستان سے تھا) کسی موقع پر پھر اسے دہرایا جس کے نتیجے میں وہ لسانی فسادات ہوئے جنھوں نے ''بنگلہ دیش'' کے تصور کے ابتدائی نقش و نگار مرتب کیے۔

اب ان چاروں مذکورہ انٹرویوز کا ایک ایک مختصر اقتباس دیکھئے اور ان کی عمدہ نثر' بیانیے اور موضوعات سے اندازہ کیجیے کہ اس کتاب میں ہماری قومی تاریخ اور اس متعلق شخصیات کو کس ہنرمندی سے چند صفحات میں بیان اور محفوظ کیا گیا ہے یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ ان شخصیات کا وہ رخ ہے جو الطاف حسن قریشی صاحب نے دیکھا یا محسوس کیا اور ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اس سے اتفاق ہو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مصنف نے اس منظر کو کیمرہ مین کی طرح جوں کا توں محفوظ کیا ہے یا مصور کی طرح اس میں اپنے پوائنٹ آف ویو کا اضافہ بھی کر دیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں الطاف صاحب نے یہ کام کم و بیش کیمرہ مین کے انداز میں کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات کیمرے کی Placing اور روشنیوں کے امتزاج سے بھی منظر اور صاحب منظر اپنی اصل سے کچھ مختلف نظر آ سکتے ہیں۔

''صحیح اسلامی ذہن رکھنے والے ذہین اور باصلاحیت افراد ڈٹ کر غیراسلامی نظریات کا مقابلہ کریں اور اسلامی زندگی کے تمام گوشے منطقی استدلال کے ساتھ ایسے دل نشین انداز میں پیش کیے جائیں کہ وہ جدید ذہنوں کو متاثر کرتے چلے جائیں''(شاہ فیصل)

''ہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ضیا الحق دراصل ضیاالرحمن کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، وہ بھی ریفرنڈم کروائیں گے اور پاکستان کے صدر بن جائیں گے، اس بھٹکی ہوئی سوچ میں ذرہ برابر صداقت نہیں، میں کئی بار اعلان کر چکا ہوں کہ میرے سیاسی عزائم نہیں''(جنرل محمد ضیاء الحق)

''میں خاندان کے پس منظر کو اہمیت نہیں دیتا، میرے خیال میں ہر شخص کے اندر ایک انفرادیت ہوتی ہے، وہی انفرادیت میدان عمل میں کام آتی ہے۔ میرا تصور یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنی جداگانہ حیثیت قائم کرنے کی تگ و دو کرنی چاہیے'' (ذوالفقار علی بھٹو)

''میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ مجھے نکات قرآن اور بائبل نہیں، یہ تو میں نے سیاسی سمجھوتے کے لیے پیش کیے تھے مگر بعض اخبارات اور بعض قائدین انھیں ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کر رہے ہیں۔ گفتگو اور بات چیت کے ذریعے ایک سیاسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکتا ہے'' (شیخ مجیب الرحمن)

اور آخر میں ایک اقتباس الطاف حسن قریشی صاحب کے دیباچے سے جو کسی وضاحت کا محتاج نہیں''ایک دن کا ذکر ہے کہ میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں یورپ کے عظیم آدمیوں کا ذکر تھا ، اس کتاب نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا' میں سوچنے لگا آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری قوم میں صرف ''بڑے آدمی'' پائے جاتے ہیں اس میں ''عظیم'' آدمیوں کا فقدان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔