’’میرے اللہ… میں کفر نہ بولوں ‘‘
وہ سری لنکا کے ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اپنے والدین کے ساتھ کویت میں مقیم تھی
گجرات سے اپنے گاؤں بھدر کی طرف جاتے ہوئے، دولت نگر نام کے قصبے میں پہنچ کر میرے ذہن میں خیال آیا اور میں نے حامد سے گاڑی دائیں طرف موڑنے کو کہا، اس نے سعادت مندی سے ''جی پھوپھو!'' کہا اور گاڑی موڑ دی- رولیہ ... نام کے گاؤں کا بورڈ پڑھا، ''حامد بیٹا، یہیں کہیں ہے وہ تنگ سی گلی، جواد نے یہی بتایا تھا!!'' پہلی تنگ سی گلی دیکھ کر میں نے اسے گاڑی روکنے کو کہا، ہم دونوں اترے اور چار پانچ فٹ چوڑی اس گلی کے پہلے گھر کے سامنے جا کھڑے ہوئے، اندر سے ایک نوجوان باہر نکلا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہم غلط گھر میں آ گئے تھے-
''کہاں جانا ہے آپ کو؟ '' میں نے اسے نام بتایا،'' ولدیت کیا ہے اس کی؟ '' اس نوجوان کا اگلا سوال تھا جس کا جواب میرے پاس نہ تھا، تبھی ایک خاتون بھی آ گئیں، میں نے انھیں ذرا وضاحت سے بتایا تو ان کا بیٹا بھی سمجھ گیا... ''اوہ اچھا، آگے چلے جائیں، ایک جنرل اسٹور آئے گا، ا س کے ساتھ گلی جاتی ہے اس میں پہلا گھر ہے!! ''
منزل مقصود پر پہنچے تو حامد میرے ساتھ دروازے تک گیا، دروازہ کھولا گیا تو وہ واپس گاڑی میں لوٹ گیا، میں نے جانے کتنے برسوں کے بعد اس گھر میں قدم رکھا تھا، شاید آٹھ برسوں کے بعد... صحن میںچار پانچ لڑکیاں مختلف کاموں میں مصروف تھیں، کوئی تار پر کپڑے پھیلا رہی تھی، کوئی دھو رہی تھی، کوئی جھاڑو لگا رہی تھی- یہ گھر کم از کم اسی نوے برس پہلے تعمیر ہوا ہو گا، اس کے بعد شاید ہی کسی نے اس کی مرمت یا تزئین پر ایک پائی بھی خرچ کی ہو گی- آنٹی صحن میں ہی ایک چارپائی پر بیٹھی نماز پڑھ رہی تھیں، مجھے ان کاجسم بھاری لگ رہا تھا- نماز ختم کر کے انہو ں نے اٹھ کر تپاک سے میرا منہ سر چوما، ''میری بیٹی آئی ہے، میں آپ کو یاد ہی کر رہی تھی!!'' مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے کیوں یاد کر رہی ہوں گی- میں نے اسی معانقے میں اپنی مٹھی میں دبے ہوئے پندرہ ہزار روپے ان کے ہاتھ میں منتقل کیے، انھوں نے گنے بغیر مجھے جانے کتنے لاکھوں کی دعائیں دے ڈالیں-
''ادھر دیکھو بیٹا!! '' انھوں نے میری توجہ ان کمروں کی طرف کروائی جو ایک قطار میں گاؤں کے رواج کے مطابق تعداد میں چار تھے اور ان کے سامنے ایک طویل برآمدہ، ''برآمدے اور پہلے کمرے کی چھت گر گئی ہے بیٹا اور ان باقی کمروں کی چھتیں لٹک رہی ہیں، چل کر دیکھو!!'' مجھے اپنی جان پیاری تھی، جانے اسی وقت اس چھت نے گرنا ہو، میں نے کچھ سوچ کر اندر جانے کا رسک نہ لیا- ان کمروں سے ہٹ کر سلیٹی پلستر والا ایک نیا کمرہ جدا نظر آیا، نیا بنا ہوا یہ کمرہ؟ میری نظر کا ارتکاز انھیں محسوس ہو گیا تھا، ''وہ جو پچھلے سال آپ نے گھر کی مرمت کے لیے رقم دی تھی، مرمت تو ا س سے کیا کرواتی، یہ گزارا لائق نیا کمرہ بنوا لیا ہے... '' میں نے کام کرتی بچیوں پر نظر ڈالی، خستہ حال ترین اس گھر میں سب سے بہتر وہی لگ رہی تھیں، تیری میری اترن نے ان کی معصومیت کا رنگ نمایاں کر رکھا تھا -
''میرے گردے بھی ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ خراب ہو رہے ہیں، ان میں پانی پڑ گیا ہے اس لیے میرا جسم پھول گیا ہے!! '' اس سے قبل وہ انجائنا اور بلڈ پریشر کے عارضوںمیں بھی مبتلا ہیں - میرے ہاتھ میں اس وقت اس حقیر رقم کے سوا کچھ اور نہ تھا، دل میں پچھتائی بھی مگر انہیں اللہ حافظ کہہ کر نکل آئی، مگر میں دس دن سے سو نہیں سکی-
.........
پہلے میں آپ کو ایک کہانی سناتی ہوں-
وہ سری لنکا کے ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اپنے والدین کے ساتھ کویت میں مقیم تھی- اس کے دل میں شمع ہدایت جاگی اور اس نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا، گھر سے دھتکاری گئی تو اپنے والد کے ایک کارکن سے شادی کر لی، مذہب چھوڑا، گھر چھوڑا، حالات خراب ہوئے تو کویت چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور اپنے شوہر کے ساتھ بیس بائیس برس قبل پاکستان آئی اور گجرات میں مقیم ہو گئے، اللہ تعالی نے اس کی گود میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ڈال دیا، وہ ہنسی خوشی ایک سفید پوشی کی زندگی گزار رہے تھے کہ بارہ سال قبل وہ اسے چھوڑ گیا جس کے ساتھ وہ سب کچھ چھوڑ کر آ گئی تھی، یوں نہیں بلکہ صرف پنتالیس برس کی جوان عمری میں موت سے ہمکنار ہو کر- اس کی بیوہ تو اپنے ماں باپ کے علاوہ اپنے شوہر کے خاندان سے بھی دھتکاری ہوئی ایک عورت تھی مگر اسے کسی اور چیز کی پروا نہ تھی کہ جس اللہ کے نام پر اس نے سب کچھ چھوڑا تھا اس نے اس کے دل میں قناعت اور صبر وافر دے دی تھی- پانچ معصوم بچوں کا ساتھ اور دیار غیر میں بیوگی، شہر میں رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، اس نے اپنے سسرال والوں سے منت سماجت کر کے موضع رولیہ میں لگ بھگ دس پندرہ مرلے کا ان کا وہ متروک سا آبائی مکان لے لیا اور اس کے بدلے میں اپنے شوہر کی ہر ملکیت سے دستبردار ہو گئی کیونکہ اس وقت چھت اس کی اہم ضرورت تھی-
زبان اس کے لیے اہم مسئلہ تھی جس کا سامنا صحیح معنوں میں اسے تب ہوا تھا، کم تعلیم دوسرا مسئلہ اور ہمارے خاندانوں کی سیاست سے نابلد ہونا تیسرا مسئلہ- قرابت داری کے باعث میرے بھائی نے اسے اپنے اسکول میں آیا کی ملازمت دے دی اور اس کی چاروں بیٹیاں وہا ں مفت تعلیم پانے لگیں، بیٹے کا رجحان پڑھائی کی طرف نہ دیکھ کر اس نے اسے مدرسے میں ڈال دیا کہ اسے حافظ قرآن بنانا اس کی خواہش تھی- بڑی بیٹی کی اس نے اٹھارہ سال کی عمر میں خاندان کی مالی امداد سے سادگی سے شادی کر دی، جس کا شوہر بیرون ملک تھا اور اسے اپنے باپ کے لیے پاکستان میں کوئی خدمت گار چاہیے تھی- باپ بد نیت نہ ہوتا تو وہ لوٹ کر میکے نہ آتی اور شوہر اس کی بات کا یقین کر لیتا یا سسر اس پر بد کرداری کے الزام نہ لگاتا تو وہ خلع نہ لیتی ، اس کے ہاں میکے میں ہی ایک بیٹی کی ولادت ہوئی اور یوں آ نٹی کی ذمے داریوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا-
دوسری بیٹی کا نکاح انھوں نے چند ماہ قبل کیا تھا مگر بتایا کہ وہ بھی ختم ہو گیا ہے، ظاہر ہے اس گھر میں کون ان کی بیٹی کو ایسے خستہ حال اور مفلسی بھرے گھر میں بیاہنے آئے گا؟؟
آٹھ بر س قبل میں اس صحن میں اس وقت کھڑی تھی جب اس کا اکلوتا بیٹا، جو کہ نصف قرآن حفظ کر چکا تھا، فقط اٹھارہ برس کی جوان عمر، وہ گاؤں کے چھپر میں دوستوں کے ساتھ نہاتے ہوئے ڈوب کر شہید ہو گیا تھا، اس آنگن میں وہ بین تھے کہ الاماں، بہنیں پچھاڑیں کھا رہی تھیں اور اس کی ماں... آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے کہتی، ''اللہ مجھے معاف فرما، میں کیسے جیوں گی، مجھے ہمت نہ دے، تو نے اپنی امانت لے لی، میں کفر نہ بولوں میرے اللہ، میں کفر نہ بولوں میرے اللہ!!'' وہ کئی بار پورے قد سے بے ہوش ہو کر گری تھی اور ہوش میں آتی تو پھر اپنے بیٹے کی نیلی اور پھولی ہوئی میت سے لپٹ جاتی جسے جانے کتنے ہی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد نکالا گیا تھا-
ہم جب کبھی اسے موضوع گفتگو بناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو چھوٹی چھوٹی تکلیف پر بلکنے لگتے ہیں اور ایک وہ کہ جس کی پوری زندگی کو اللہ نے ایک کڑا امتحان بنا دیا ہے اس میں اللہ تعالی کی کیا مصلحت ہے، مگر پھر توبہ کرتے کہ ہم کوئی غلط بات نہ کہہ دیں - آنٹی بات کرتے ہوئے ایک ایک فقرے میں دس دس بار اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں، انھیں معلوم ہے کہ ان کے لیے اللہ نے اس دنیا میں نہ سہی تو اگلی دنیامیں ضرور انعامات رکھے ہوں گے-
اپنے گھر میں رکھی چند دیسی مرغیوں کے انڈے بیچنے کے علاوہ آنٹی کی دوسرے نمبر کی بیٹی نے بی اے کر کے ایک مقامی اسکول میں ملازمت کر لی ہے، ا س کی تنخواہ پانچ چھ ہزار روپے ہے، بڑی بیٹی جو کہ مطلقہ ہے وہ پرائیویٹ طور پر انگریزی میں ایم اے کی تیاری کر رہی ہے تا کہ اسے پانچ ہزار سے بہتر کی ملازمت مل سکے، اس کے علاوہ ہمارے خاندان کے سب لوگ مل کر اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کرتے ہیں- ہم سب جانتے ہیں کہ صرف پیٹ بھرنے اور بچیوں کے تعلیم دلوانے اور اپنا علاج کروانے کے لیے بھی چھ لوگوں کے ایک خاندان کا ماہانہ خرچہ کیا ہوتا ہے- مگر میں سوچتی ہوں کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے اس دنیامیں بھی تو کچھ نہ کچھ انعام اور سکون رکھا ہو گا نا؟ کوئی نہ کوئی صاحب حیثیت ایسا ہو گا جو کہ اس کی اور اس کی بچیوں کی دامے، درمے، قدمے اور سخنے مدد کر سکتا ہو گا؟؟؟
کتنے ہی لوگ دیکھے ہیں جو تعمیراتی کاروبار میں ہیں اور گجرات شہر میں بھی ان کی طرف سے غریبوں کو کھانا کھلانے کے لیے مراکز بنے ہوئے ہیں، کیا ہمارے ہاں صرف بھوکے کوکھانا کھلانا نیکی سمجھی جاتی ہے؟ کیا ایسے لوگوں کو اس کو مستحق نہیں سمجھا جاتا کہ انھیں اس اللہ کے نام پر ایک مضبوط چھت مہیا کی جاسکے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھے اور رات کوسکون سے سو سکے کہ گاؤں کے آوارہ لڑکوں کے چھتوں سے پھلانگ کر آ جانے کے خوف سے وہ رات بھر جاگ کر بیٹھ کر گزارتی ہیں؟ کیا کسی کے پاس کوئی ایسا گھر ہے جو صرف اس لیے بند پڑا ہے کہ اس کے بنانے والے ملک میں نہیں بلکہ ملک سے باہر ہیںتو وہ اپنے گھر میں بغیر کرائے کے اس کا ٹھکانہ کر دیں؟ کیا کوئی ایسا غریب مگر صاحب دل ہے جو اس کی مطلقہ اور من بیاہی بیٹیوں سے شادی کر کے انھیں عزت اور سکون دے سکے؟ کیا کوئی ایسا ڈاکٹر ہے جو آنٹی کے علاج کے لیے اپنا وقت اور وسائل دے سکے کہ ان کے لیے اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں پانچ بچیوں کو تنہا چھوڑ کر بار بار اسپتال جانا بھی ممکن نہیں؟
کوئی ہے؟؟ مجھے معلو م ہے کہ ہمارے لوگوں میں بہت جذبہ ہے اور میں نے ماضی میں بھی اپنے کئی کالموں پر بہت مثبت رسپانس دیکھا ہے، لوگ اب مجھ سے کوئی اکاؤنٹ نمبر مانگیں گے مگر ایسے مفلسوں کا کوئی اکاؤنٹ بھی نہیں ہوتا کہ جن کے پاس کوئی گارنٹی ہو نہ کوئی دستاویز اور نہ ہی ذرائع آمدنی کا کوئی ثبوت- سنجیدہ حضرات اگر مجھ سے بذریعہ ای میل رابطہ کریں تو میں انھیں ان کا مکمل پتا دے دوں گی، تا کہ جو کوئی ان کی مدد کرنا چاہے وہ براہ راست ان سے رابطہ کر سکے اور جو لوگ اس کالم کو صرف ایک کالم سمجھ کر پڑھیں گے ان سے درخواست ہے کہ ان کے حق میں دعا ضرور کر دیں کہ اس پر کوئی لاگت نہیں آتی- اور تین دن کے بعد ہنسی خوشی عید منائیں، اللہ تعالی آپ سب لوگوں کو ان گنت خوشیاں دے اور توفیق دے کہ آپ اللہ کے ایسے صابر اور شاکر بندوں کے چہروں پر بھی خوشیوں کے رنگ بکھیر سکیں!! آمین...