کہیں کوئی جان تونہیں دینے والا

سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو خودکشی سے روکا جاسکے گا

یوزرز کی سرگرمیوں سے رجحان کا پتا چلانے کے لیے محققین مصروف کار۔ فوٹو: فائل

سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہماری تمام سرگرمیاں ہماری شخصیت، رجحانات اور ہماری شخصیت میں آنے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

آپ emoji یا ان اشکال پر غور کیجیے جو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر جذبات اور رائے کے مختلف انداز میں اظہار کے لیے دی جاتی ہیں۔ محبت، مزاح، خوشی اور دیگر کیفیات ظاہر کرتی یہ اشکال آپ کے دوستوں اور عزیزواقارب کے رویے، رجحان اور میلان کو آپ کے سامنے لاتی ہیں۔ اسی طرح رنگارنگ اور مختلف انداز کی شکلیں لوگوں کے احساسِ تنہائی، شکستہ دلی، غم اور دیگر منفی جذبات بھی ظاہر کرتی ہیں۔

یوں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے امیج اس سے کہیں زیادہ اہم ہیں جتنا ہم انھیں اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ماہرین لسانیات، ماہرین نفسیات اور کمپیوٹر سائنٹسٹس یہ حقیقت سامنے لارہے ہیں کہ ہم سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر مجموعی طور پر یا الگ الگ جو کچھ بھی شیئر کرتے ہیں وہ ہماری ذہنی صحت کے بارے میں اطلاعات کا سگنل ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے تحقیق میں مصروف محققین میں سے کچھ کا ماننا ہے کہ مشین لرننگ، algorithms اور ریاضیاتی تجزیہ ہمیں ایسے ٹولز فراہم کرتے ہیں، جن کی مدد سے ہمیں لوگوں کی ذہنی صحت خاص طور پر ان میں خودکشی کے رجحان کا پتا چل سکتا ہے۔

اس طرح ایک نئے ٹول اور طریقے کے ذریعے ماہرین لوگوں میں خودکشی کے رجحان کی پیش گوئی کرنے اور ایسے شخص کو خودکشی کرنے سے روکنے کے قابل ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ مختلف عوامل کی بنا پر لوگوں میں خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکا کے مختلف طبی مراکز سے حاصل کیے جانے والے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں 1999سے 2014 کے دوران مردوعورت دونوں اصناف کے 10 برس سے لے کر 74 سال تک کے ہر ایج گروپ کے افراد نے خودکشی کی۔ اس عرصے کے دوران امریکا میں خودکشی کی شرح میں 24 فی صد اضافہ ہوا اور ہر ایک لاکھ امریکی شہریوں میں سے 13نے اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگایا۔


یہ اعدادوشمار یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ خودکشی کے رجحان میں کس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، اور یہ صرف امریکا کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کا المیہ ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے تجزیہ کرنے کے لیے سامنے آنے والی ٹیکنالوجی سوشل میڈیا پر لوگوں کے باہمی رابطے کا مطالعہ کرتی ہے۔ اس سلسلے میں محققین کے ایک چھوٹے سے گروپ سے وابستہ محقق Glen Coppersmith اور ان کے ساتھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کسی شخص میں کسی ذہنی عارضے یا خودکشی کے رجحان یا میلان کی کھوج لگانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے ڈیٹا سائنٹسٹ اور ماہرنفسیاتGlen Coppersmith کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ کچھ دنوں قبل شایع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں Glen Coppersmith اور ان کے ساتھی مصنفین نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹوئٹر کے سیکڑوں یوزرز کے ٹوئٹس کے ذریعے سامنے آنے والے جذباتی کونٹینٹ کا تخمینہ لگایا ہے۔ یہ وہ یوزر ہیں جنہوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کے حوالے سے کھل کر بات کی تھی۔ اسی طرح دوسرے گروپ کے ٹوئٹس کا بھی تجزیہ کیا گیا، جس کے ارکان نے خودکشی کے حوالے سے احساسات ظاہر نہیں کیے تھے۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ آپ جو بھی لفظ استعمال کرتے ہیں وہ یہ حقیقت آشکار کردیتا ہے کہ دراصل آپ کیا ہیں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کسی شخص میں خودکشی کے خطر کی پیش گوئی کرنے والے گروپ میں شامل محققین اپنی کھوج کے لیے حیرت انگیز طریقے اپنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا سب سے اہم طریقہ سوشل ویب سائٹ پر یوزر کی جانب سے کلک کیے جانے والے یا دیے والے والے emoji hearts کے ذریعے خودکشی کی خواہش یا رجحان کا اندازہ لگانا ہے۔

یوں یہ اور ان جیسے محققین سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم پر مختلف جذبات اظہار کے لیے دی جانے والی اشکالات، ٹوئٹس وغیرہ کی مدد سے یوزرز میں خودکشی کا رجحان دیکھنے اور انھیں خودکشی سے بچانے کے لیے مصروف کار ہیں۔

دوسری طرف محققین نے سوشل میڈیا پر دیے جانے والے میسیجز کے ذریعے بھی خودکشی کا رجحان یا میلان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ ان کے مطابق غم ناک اور برہمی سے بھرے ہوئے ٹوئٹس یوزر میں خودکشی کی خواہش یا میلان کا پتا دیتے ہیں۔ اس حوالے سے کیے جانے والے تحقیقی مطالعے میں بہ طور مثال ایسے بہت سے ٹوئٹس شامل کیے گئے ہیں۔

سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کے مختلف حوالے سے مثبت استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر لوگوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے سماجی میڈیا کا استعمال قابل داد اور خوش آئند ہے۔ سوشل ویب سائٹس کے یوزرز میں کسی ذہنی عارضے اور خاص طور پر خود کرنے کے رجحان اور خواہش کا اندازہ لگا کر ایسے شخص کو امید اور خوشی کی طرف لایا جاسکتا ہے اور اسے خودکشی سے بچایا جاسکتا ہے۔ یقیناً اس سلسلے میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیاں سوشل میڈیا کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔
Load Next Story