قومی ٹیم ساکھ بچاپائے گی

غیر ایشیائی کنڈیشنز میں 3سال بعد پہلی ٹیسٹ سیریز

غیر ایشیائی کنڈیشنز میں 3سال بعد پہلی ٹیسٹ سیریز۔ فوٹو: فائل

گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان کرکٹ مسلسل زوال پذیر ہے، محدود اوورز میں کارکردگی شرمندگی کی حدوں کو چھورہی ہے، تازہ ہوا کے چند جھونکے ٹیسٹ ٹیم کی طرف سے ہی آئے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گرین کیپس نے بہتری کے اس سفر کے دوران تمام سیریز سازگار ایشیائی کنڈیشنز میں کھیلی ہیں، سلوپچز پر پیسرز کا کردار عام طور پر اننگز کے پہلے 20 اوورز میں ختم ہوجاتا ہے، گیند کی چمک غائب ہوتے ہی سپنرز کو راج کا موقع مل جاتا ہے، یو اے ای، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بیٹسمینوں کی چند ذمہ دارانہ اننگز کے ساتھ سپنرز فتوحات کا راستہ بناتے رہے۔

پاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ سعید اجمل اور عبدالرحمان کی جوڑی سے محرومی کے بعد یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر نے توقعات کا بوجھ اٹھالیا، لیگ سپنر نے تو جب اور جہاں موقع ملا وکٹوں کی جھڑی لگادی، ممنوعہ ادویات کے استعمال کا الزام ثابت ہونے پر عائد کی جانے والی پابندی ختم ہونے کے بعد اب ان کی خدمات تو قومی ٹیم کو میسر ہیں لیکن انگلینڈ میں کنڈیشنز مختلف اور یاسر شاہ کی فٹنس پر سوالیہ نشان موجود ہے، ہیڈکوچ مکی آرتھر کے معاون مشتاق احمد خود کہہ چکے ہیں کہ گیند پر گرپ اور پچز سے ملنے والے باؤنس کی بدولت لیگ سپنر انگلینڈ میں بھی ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتے ہیں لیکن طویل ٹور کے دوران انہیں احتیاط سے استعمال کرنا ہوگا، ذوالفقار بابر کی فٹنس بھی شکوک کی زد میں ہے، آف سپنر مسائل کی وجہ سے کاکول اکیڈمی بوٹ کیمپ میں بھی شریک نہیں ہوسکے تھے۔

گزشتہ دورہ انگلینڈ میں محمد عامر کی کارکردگی تہلکہ خیز رہی تھی لیکن سپاٹ فکسنگ سیکنڈل نے دنیا کرکٹ کے اس ابھرتے ہوئے ستارے کو 5 سال کیلیے کھیل سے افق سے دور کردیا، پیسر کیلیے میدان کے اندر اور باہر ساکھ کی بحالی کا بہترین موقع ہوگا،ان کے پاس مضبوط ذہن اور مہارت دونوں موجود ہیں۔ ان کی کارکردگی پاکستان کو فتوحات کی امید دلاسکتی ہے۔

دیگر پیسرز میں راحت علی اور عمران خان مردہ وکٹوں پر بھی وقفے وقفے سے عمدہ پرفارمنس کی جھلک دکھاتے رہے ہیں، غیر مستقل مزاج وہاب ریاض اپنے اچھے دن پر ہی بہتر بولنگ کرتے ہیں، ان کو آزمانا جوئے کے متراف ہوگا، مضبوط انگلش بیٹنگ لائن کو کھل کر رنز بنانے کا موقع مل سکتا ہے،سہیل خان ورلڈ کپ 2015ء کے بعد فٹنس کی بحالی کا طویل سفرکرکے قومی ٹیم میں واپس آئے ہیں،طویل فارمیٹ میں آزمائے جانے کی صورت میں کسی حد تک دباؤ برداشت کرپاتے ہیں، اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

فٹنس کے حوالے سے خدشات کے علاوہ پاکستان کی سب سے بڑی سردرد اوپننگ جوڑی کا انتخاب ہے، محمد حفیظ ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں انجری کا شکار ہونے کے بعدصرف بحالی کیلیے فکرمند ہیں، اس دوران انہوں نے کلب سطح کے کسی میچ میں بھی شرکت نہیںکی، کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ نہ کرنے کے بعد سکلز کیمپ میں تھوڑی بہت پریکٹس کی، انہیں مکمل فٹنس بحال ہونے کی امید پر ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا اگر دستیاب ہوئے بھی تو سوئنگ بولنگ پر ان کی کمزوریاں ایک بار پھر عیاں ہونے کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا، ان کی ڈیل سٹین کے سامنے بے بسی سے کرکٹ کا ہر شائق واقف ہے، سلیکٹرز کی طرح ان کے پرستار بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مکمل فٹ اور تجربے کی بنیاد پر بہتر کارکردگی بھی دکھانے میں کامیاب ہوں گے۔

دوسرے اوپنر کا فیصلہ بھی آسان نہیں، شان مسعود کے کریڈٹ پر چند اچھی اننگز ضرور ہیں لیکن انگلش کنڈیشنز میں اپنی افادیت ثابت کرنا ان کیلیے بہت بڑا چیلنج ہوگا، انہوں نے انگلینڈ میں دوران تعلیم خاصا وقت گزارا، یونیورسٹی کرکٹ بھی کھیلی تاہم انٹرنیشنل کرکٹ میچز کے دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے ٹیم کو عمدہ آغاز فراہم کرنے کیلیے انہیں غیر معمولی کارکردگی پیش کرنا ہوگی۔ تیسرے اوپنر سمیع اسلم کو بنگلہ دیش کیخلاف سیریز میں ڈیبیو کا موقع ملا تھا لیکن ناکام رہے، طویل وقفے کے دوران نہ جانے کس چیز نے سلیکٹرز کو متاثر کیا کہ ناتجربہ کاری کے باوجود مشکل ٹور میں ان کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا، تین اوپنرز کی موجودگی میں بھی اظہر علی سے اننگز کا آغاز کروانے کی تجویز زیر غور ہے۔


ون ڈے کرکٹ میں وہ بطور اوپنر ہی کھیلتے ہیں، یہ فیصلہ کئے جانے پر مڈل آرڈر میں نمبر تبدیل ہوسکتے ہیں، ہمیشہ کی طرح یونس خان اور مصباح الحق کی ذمہ دارانہ کارکردگی اننگز کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن یہاں کپتان کو یواے ای کی طرح تیز ترین ٹیسٹ سنچری سکور کرنے کا موقع ملنے کا امکان کم ہی ہوگا،یونس خان بھی اپنے ڈھلتے کیریئر کو ایک اور کامیابی سے مزیئن کرنے کی کوشش ضرور کرینگے، ان میں سے ایک کی کریز پر موجودگی اسد شفیق، سرفراز احمد کیلئے بھی تقویت اور رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے، وکٹ کیپر بیٹسمین کا کردار خاص طور پر اہم ہوگا، ان کی ثابت قدمی اچھے رن ریٹ کے ساتھ حریف کو دباؤ میں لانے موقع فراہم کرسکتی ہے۔

پاکستان نے ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ذوالفقار بابر کو ڈراپ کرکے افتخار احمد کو آزمایا جاسکتا ہے، وہ تکینیکی طور پر بہتر بیٹسمین لیکن انگلینڈ کی کنڈیشنز کے کتنی جلد عادی ہوتے ہیں فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا، سپین بولنگ افتخار احمد کی اضافی خوبی ہے جس کی وجہ مصباح الحق نے ان کو موقع دینے کی حمایت کی تھی، اسی نوعیت کے مفید کھلاڑی فواد عالم بھی تھے لیکن انہیں باصلاحیت قرار دے کر کسی اور وقت کیلیے سنبھال رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انگلش کنڈیشنز میں اکثر ٹیل انڈرز کا کردار اہم ہوجاتا ہے، اننگز کے آخر میں 60 یا 70 اضافی رنز حریف ٹیم پر دباؤ بڑھاتے ہیں، بولرز کو بھی کھل کر گیندیں کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، الیسٹرکک کو مستحکم ٹاپ آرڈر کے بعد جوئے روٹ سمیت باصلاحیت بیٹسمینوں کی خدمات میسر ہیں، ٹیل انڈرز بھی خاصی مزاحمت کرتے ہیں، پاکستان کیخلاف تو کئی میچز میں اننگز کے آخر میں نقشہ بدل دینے کی مثالیں موجود ہیں۔

کسی بھی بیٹنگ لائن کو دباؤ میں لانے کیلیے فیلڈنگ اہم کردار ادا کرتی ہے، بدقسمتی سے پاکستان کی اس شعبے میں کارکردگی کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی، سلپ میں کھڑے فیلڈرز بڑے میچز میں بڑی غلطیاں کرتے رہے ہیں، انگلینڈ میں ڈیوک بال سیم اور سوئنگ ہوگی تو بیٹ کو چھو کر آنے والی ہر گیند پر قابو پانے کے لیے انتہائی مستعد رہنا ہوگا، اظہر علی اچھے کلوز فیلڈر ہیں تاہم دیگر کو بھی مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، فیلڈنگ کوچ سٹیو رکسن نے حال ہی میں سکواڈ کو جوائن کیا ہے، انگلش کنڈیشنز میں بہتر کارکردگی کے لیے مفیدمشورے بھی دیں گے لیکن اس کے لیے خود کھلاڑیوں کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے، انگلینڈ کے میدانوں کی گھاس بھی ایشیائی ملکوں سے مختلف ہے،سردی زیادہ ہونے سے بھی فیلڈنگ میں مشکل ہوسکتی ہے، سپرفٹ پلیئرز ہی سپر کارکردگی دکھاسکیں گے۔

یو اے ای کی سازگار کنڈیشنز میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی اس قدر بہتر رہی کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں یکسر ناکام کوچز ڈیوڈ واٹمور اور وقار یونس کو بھی اپنے زخموں پر مرحم رکھنے کا موقع ملتا رہا، نئے ہیڈکوچ مکی آرتھر کا مسئلہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کے ساتھ معاہدہ ناخوشگوار انداز میں ختم ہونے کے بعد انہیں خود اپنی ساکھ بحالی کرنے کا چیلنج درپیش ہے،دوسرے ان کو ذمہ داریاں ایک ایسی ٹیم کی ملی ہیں جو اپنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہے، ان مسائل سے زیادہ بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایشیا میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے گرین کیپس 3سال بعد قطعی مختلف کنڈیشنز میں کٹھن امتحان سے گزرنے والے ہیں، ویسٹ انڈیز کی یو اے ای میں میزبانی کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیمیں ہوم گراؤنڈ پر استقبال کے لیے تیار ہوں گی۔

2013ء میں ایشیا کے باہر پاکستان نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور 3-0 سے کلین سویپ کی خفت اٹھائی تھی، بعدازاں زمبابوے جیسی کمزور سائیڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز بھی 1-1 سے برابر ہوگئی تھی، مکی آرتھر دورہ انگلینڈ کی تیاری کے لیے کاکول اکیڈمی میں سکواڈ کو جوائن کرنے کی بجائے آسٹریلوی شہریت ملنے کا انتظار کرتے رہے، لاہور میں سکلز کیمپ کا بھی حصہ نہ بن پائے، ہمپشائر میں 10روز کے دوران ان کی خدمات حاصل رہیں، اب پریکٹس میچز میں بھی معاملات درست کرنے کی کوشش ضرور کرینگے، کرکٹ کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے سابق پروٹیز کرکٹر اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں لیکن پلیئرز میں ان سے فائدہ اٹھانے کی کتنی صلاحیت ہے، سب جانتے ہیں۔

یہ تجربہ کھلاڑیوں تک منتقل کرنے کے لیے بھی ان کو وقت درکار ہوگا، پرانی عادتیں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑاکرتیں لیکن پاکستانی شائقین جذباتی اور فوری نتائج چاہتے ہیں،انگلینڈ میں بھی ٹیم نے غلطیاں تسلسل کیساتھ دہرائیں تو سخت تنقید سے مکی آرتھر کی مسکراہٹ بھی غائب ہوجائے گی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ قذافی سٹیڈیم میں پی سی بی کے ہال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈیوڈ واٹمور اور وقار یونس بھی جو امید افزا باتیں کہیں، مکی آرتھر سے مختلف نہیں تھیں لیکن قومی ''ہیروز'' کی ناقص کارکردگی کا بوجھ ان کی کمر ٹیڑھی کرگیا، لہجے میں لرزش اور نظروں میں بے اعتمادی کی جھلک بھی نظر آئی،انجام بھی خوشگوار نہیں تھے، اللہ کرے کہ مکی آرتھر کے ساتھ ایسا نہ ہو اور وہ پاکستان کرکٹ کو عروج کی جانب گامزن کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

 
Load Next Story