سٹی کورٹ کے مرکزی اسٹامپ آفس میں بد عنوانی کا انکشاف

مصنوعی قلت پیدا کرکے اسٹامپ پیپرز،کورٹ فیس ٹکٹ اور اسٹامپ ٹکٹس زیادہ نرخوں میں فروخت کیے جارہے ہیں،ذرائع۔


Arshad Baig November 27, 2012
سٹی کورٹ کے اطراف اسٹامپ فروش مافیا کی صورت اختیار کر گئے، رجسٹرڈ اسٹامپ وینڈرپرانا کمیشن کمانے پر مجبور . فوٹو: ایکسپریس

سٹی کورٹ کے مرکزی اسٹامپ آفس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے۔

مصنوعی قلت پیدا کرکے اسٹامپ پیپرز، کورٹ فیس ٹکٹ و اسٹامپ ٹکٹس زیادہ نرخوں میں فروخت کرکے بھاری رقم بٹوررہے ہیں ، سٹی کورٹ کے اطراف اسٹامپ فروشوں کی مافیا نے پورے سینٹرل اسٹامپ آفس کو یرغمال بنایا ہوا ہے جو کہ ہفتہ وار بھتہ ادا کرتے ہیں اور من مانی قیمت وصول کررہے ہیں، رجسٹرڈ اسٹامپ وینڈر65برس پرانا مقرر کردہ کمیشن کمانے پر مجبور ہیں، اسٹامپ آفس کے ذرائع کے مطابق سٹی کورٹ میں قائم مرکزی اسٹامپ آفس میں30سے زائد افراد پر مشتمل عملہ کام میں مصروف ہے جو کہ روزانہ ہزاروں روپے کی بدعنوانی میں ملوث ہیں، رقم کا باقاعدہ حصہ بورڈ آف ریونیو کو بھی پہنچایا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق سٹی کورٹ کے اطراف درجنوں اسٹامپ فروش ایک مافیا کی شکل میں موجود ہیں،انھوں نے پولیس اسٹامپ آفس کو یرغمال بنایا ہوا ہے ہفتہ وار ہزاروں روپے بطور رشوت دیکر اسٹامپ پیپرز ، کورٹ فیس ٹکٹ ، اسٹامپ ٹکٹس کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے جس کے باعث سٹی کورٹ کے شیڈ میں واقع رجسٹرڈ اسٹامپ وینڈرزکو اسٹامپ آفس سے کئی کئی روز تک انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ سٹی کورٹ کے باہر بیٹھے افراد اپنی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔

سٹی کورٹ میں 300کے قریب اسٹامپ وینڈرز لائسنس یافتہ ہیں جو کہ جون میں اپنے لائسنس کی تجدید کراتے ہیں لیکن متعدد افراد کوئی تجدید کرائے بغیرمذکورہ دھندے میں مصروف ہیں، لائسنس کے تجدیدکی کوئی سرکاری فیس نہیں لیکن اسٹامپ آفس کا عملہ ہزاروں روپے رشوت وصول کرکے لائسنس کی تجدید کرتے ہیںسرکاری طور پرساڑھے تین سوکے قریب لائسنس جاری کیے گئے ہیں لیکن پونے تین سو کے قریب ورک میں ہیں جبکہ ہائیکورٹ، ملیر کورٹس کے علاوہ کراچی کے مختلف اداروں کے باہردو ہزار سے زائد افراد غیرقانونی اسٹامپ پیپرر سمیت دیگر کی خرووفروخت کے دھندے میں مصروف ہیں، اسٹامپ وینڈرز کو لائسنس کی تجدید کرانے کیلیے اسٹاک رجسٹرد اور سیل رجسٹرڈ کا ریکارڈ مزکورہ آفس میں جمع کرانا لازمی ہوتا ہے جس سے سرکاری خزانے کو ملنے والے ریونیو کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور تمام فروخت کیے گئے اسٹامپ پیپرز کا ریکارڈ محفوظ کیا جاتا ہے، ریکارڈ کے مطابق فروخت کیے گئے اسٹامپ پیپرز میں کسی بھی خریدار کا مکمل ایڈریس کوکوئی اندراج نہیں، زیادہ تر وکلا کے نام فروخت کیے گئے ہیں اور اس بات کا بھی اندراج نہیں ہے کہ کس مقصد کیلیے فروخت کیا گیا ہے، متعدد افراد جو کی اس کاروبار سے منسلک ہیں جو کہ دوسروں کے نام پر حاصل کیے گئے لائسنس پر کاروبار کررہے ہیں۔

سٹی کورٹ کے ایک اسٹامپ وینڈر کے مطابق کہ وہ 60برس پرانا مقرر کردہ کمیشن وصول کرتے ہیں وہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں انکا گزر بسر مشکل ہوگیا ہے، کورٹ فیس کی مد میں انھیں50پیسے فی سیکڑہ کمیشن ملتا ہے، اسٹامپ ٹکٹ پر 52پیسے فی سیکڑہ کمیشن ہے جبکہ اسٹامپ پیپرز 2روپے 20پیسے فی سیکڑہ کمیشن وصول کرتے ہیں،60برس سے زاید عرصہ گزجانے کے باوجود اس کمیشن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، اس کے برعکس مافیا لاکھوں روپے غیرقانونی طور پر کمارہے ہیں کیونکہ تمام عملہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے اور انکے ریکارڈ کا کوئی چیک انیڈ بیلنس نہیں، ایک اور اسٹامپ فروش نے بتایا کہ اس نے6ماہ میں 21ہزار روپے کے اسٹامپ پیپرز کی خروفروخت کیے جس کا سرکاری کمیشن 380روپے حاصل کیا تھا، لائسنس کی تجدید کیلیے اسے ایک ہزار روپے بطور رشوت دینا پڑی تھی اور اسٹاک و سیل رجسٹرد 180روپے میں حاصل کیے، ویسے عملہ لائسنس کی تجدید دو ہزارست تین ہزار روپے بھی وصول کرتا ہے، انھوں نے بتایا کہ اسٹامپ آفس عملے کی ملی بھگت سے متعدد افراد پرانی تاریخ کے اسٹامپ پیپرز بھاری رقم میں فروخت کرتے ہیں، ان تمام بدعنوانی کا حکومت کو علم ہے لیکن آج تک مافیا کے خلاف تاحال کوئی کانونی کارروائی نہیں کی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔