جنگل کا سا انصاف
کیا خوب کہ جانوروں پر استغاثہ دائر ہوا اور سترہ میں سے تین کو قید کی سزا دے کر باقی کو رہا کردیا گیا
شیروں پر الزام تھا کہ انھوں نے انسانوں کو چیر پھاڑا ہے، بھارت کے محکمہ جنگلات نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ سترہ شیر ہیں، ان کی گرفتاری کوئی آسان کام نہ تھا۔ جوناگڑھ کے ایک گاؤں کے لوگ سوئے ہوئے تھے کہ شیروں نے ان کو زخمی کیا اور پھر ہڑپ کرگئے۔
سترہ شیروں کو گرفتار کرکے پنجروں میں قید کردیا گیا، ان سب کو الگ الگ رکھا گیا۔ ہاضمے کے بعد کے مواد کو تحقیقات کے لیے لیبارٹری میں بھیجا گیا، یہ جانچنا تھا کہ کن شیروں نے انسانوں کو اپنا تر نوالہ بنایا ہے۔ تین شیروں پر الزام ثابت ہوا اور چودہ کو رہا کرکے جنگل میں بھیج دیا گیا، دو مادہ تھیں اور ایک نر۔ دیہاتیوں پر حملہ کرکے زخمی کرنے والا شیر تھا اور انھیں خوراک بنانے والی دو شیرنیاں بھی تھیں۔ کیا میل اور کیا فی میل، دونوں ہی شانہ بشانہ، تینوں کو جام نگر کے چڑیا گھر میں قید کردیا گیا۔
کیا خوب کہ جانوروں پر استغاثہ دائر ہوا اور سترہ میں سے تین کو قید کی سزا دے کر باقی کو رہا کردیا گیا۔ کاش! انسانوں کے لیے بھی کوئی ایسا عدالتی نظام ہو کہ فوری گرفتاری اور فوراً سزا مل جائے ان انسان نما درندوں کو جو مظلوموں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ امجد صابری کے قاتل اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے فرزند اویس شاہ کے اغوا کنندگان کو کب پکڑ کر سزا دی جائے گی؟ قتل اور اغوا کے پیچھے کیا محرک ہوگا؟ صرف اور صرف دولت۔
دولت کو کامیابی کا پیمانہ سمجھنے والے معاشرے کے کچھ لوگ اسے ''بائی ہک اور بائی کروک'' حاصل کرنا چاہتے ہیں، حلال حرام اور قتل و اغوا اور جائز و ناجائز کی تمیز مٹ چکی ہے، نصف صدی قبل بھی دولت کی اہمیت کم نہ تھی لیکن ہر صورت میں حاصل کرنے کی وہ شدت نہ تھی جو آج کل ہے۔ اگر کوئی اسمگلر یا رشوت خور کسی کی دکان، گھر یا دفتر چلا جاتا تو لوگ چاہتے کہ یہ جلد از جلد یہاں سے رخصت ہوجائے، اسے چائے کا بھی نہ پوچھا جاتا کہ دس پندرہ منٹ مزید رک جائے تو لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہم بھی ان کے ساتھی ہیں۔
''چور کا بھائی گرہ کٹ'' والا محاورہ چسپاں ہونے کے ڈر سے دو نمبری کام کرنے والوں کو پسند نہ کیا جاتا، پھر زمانہ بدلا۔ کچھ انداز نو دولتیوں نے اختیار کیے تو کچھ مرعوبیت کا شکار معاشرہ بھی ہوگیا۔ دولت کا استعمال اپنی شخصیت پر ناجائز کاموں کے سیاہ دھبے کو دور کرنے کے لیے کیا گیا، غریب کی مدد کرنے، بچیوں کی شادیاں کروانے، کسی کو گھر خریدنے میں مدد دینے یا کسی کے علاج کے لیے رقم فراہم کرنے جیسے سماجی کاموں سے ابتدا کی گئی، معاشرے میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کیا گیا۔ کوشش کی گئی کہ لوگ ہمارے کام دھندے کے جائز یا ناجائز ہونے کے بجائے اس موضوع پر گفتگو کریں کہ ہم نے فلاں شخص کی کس طرح مددکی ہے۔ یہ پہلا مرحلہ تھا۔
دوسرا مرحلہ اپنے سماجی کاموں کی تشہیر تھا، اس کا گندا ترین مظاہرہ غریب خاتون کو آٹے کا دس کلو کا تھیلا پکڑانے والے نصف درجن لوگ مدد کرتے ہوئے تصویر میں نظر آتے ہیں۔ لباس اور حلیہ ایسا رکھا گیا کہ لوگ انھیں شریف اور عزت دار سمجھیں، تیسرے مرحلے پر برادری یا سماجی سطح یا کاروباری انجمن کے عہدوں پر قبضہ کی صورت میں اپنی شخصیت کو عوامی بنانے پر توجہ دی گئی۔ چوتھے مرحلہ پر مقامی، صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لے کر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی، اب دو نمبری کام کرنے والوں کو محسوس ہوا کہ یہ سیاست تو ایسا شعبہ ہے کہ اس سے دولت کو استعمال کرکے مزید کمائی کی جاسکتی ہے، عوامی حمایت اور اس کے بعد منتخب حیثیت انھیں پولیس اور سرکاری افسران سے قریب رکھتی ہے۔ یوں ان کی نمایندہ شہرت کی بدولت ان کے غلط کاموں پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں رہا۔ اتنی چالاکی، کیا اس میں تعلیم کا کوئی دخل ہے؟ قاتل، اغوا کنندہ اور بھتہ خور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں؟
چلتے پرزے، تیز طرار لوگ، سیاسی پارٹیاں بدلنے والے، مفادات کے لیے لوٹا بننے والے، وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانے والے لوگ جاہل بھی ہوتے ہیں، عام تعلیم یافتہ اور خاصے پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں۔ اس چالاکی میں تعلیم سے زیادہ شخصیت کا دخل ہوتا ہے۔ جیسے حالات ہوں ویسے حالات میں آسانی سے ڈھلنے والا بے پیندے کا لوٹا یا وہ بے اصول، جنھیں تھالی کا بینگن کہا جاسکتا ہے۔
کیا بظاہر کامیاب ہوکر دولت پانے والے ذہین ہوتے ہیں یا کامیابی انھیں با اعتماد بنادیتی ہے؟ کالم کے اس مرحلے پر ہمارے قارئین دو حصوں میں بٹ جائیں گے، کچھ کہیں گے کہ چالاکی اور کامیابی کی بدولت یہ ذہین دکھائی دیتے ہیں، چند لوگوں کی رائے ہوگی کہ ذہانت کی بدولت انھوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سوال پر اختلاف ہے، جب کہ کامیابی نے تعلیم کے عمل دخل نہ ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ یہاں کامیابی سے مراد مال و دولت ہے۔ افسوس کے ساتھ ہم علامہ اقبال، حنیف محمد اور حبیب جالب جیسے شاندار انسانوں کو کامیاب لوگوں کی فہرست سے خارج کررہے ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ کی ایک تحریر فیس بک سے ملی ہے، لکھتے ہیں کہ ''خالی ڈگری تو ایک بے مراد سا کاغذ ہے جو ہلدی اور مرچ باندھنے کے کام ہی آسکتا ہے جب تک اسے مکر، فریب، سفارش، رشوت، خوشامد کے پر لگاکر بے ضمیری کی پھونک نہ ماری جائے یہ کاغذ نہیں اڑتا!'' ایک دانشور نے پہلے پانچ خوبیاں بیان کیں اور پھر پھونک مارنے کے لیے چھٹی خوبی، اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو پھر تعلیم اور ڈگری کی کیا حاجت، ہم اسی بات پر اتفاق کرچکے ہیں کہ دولت کے حصول کے لیے تعلیم ضروری نہیں، بے شمار ان پڑھ بھی ارب پتی ہیں۔ اور پھر اتراتے بھی ہیں کہ دیکھیں کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑی بڑی ڈگری رکھنے والے ان کے ملازم ہیں۔
ایک چھوٹا سا مسئلہ رہ گیا ہے، جسے حل کرنے کی کوشش کے بعد ہم اختتامی لمحے کی جانب بڑھیں گے۔ مکر، فریب، سفارش، رشوت اور خوشامد میں صرف ایک جرم ایسا ہے جو قابل دست اندازی پولیس ہے، باقی جرائم پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہوتا ہے، صرف رشوت لینے پر ہی گرفتاری ہوسکتی ہے تو اس کا حل بھی ضمیر جعفری بتاچکے ہیں، ''رشوت لے کے پکڑا گیا تو رشوت دے کر چھوٹ جا'' یوں ایک بار پھر ہم امجد صابری کے قاتل اور اویس شاہ کے اغوا کی جانب آتے ہیں، یہ طے ہے کہ پہلے جرم کا مقصد دولت کے حصول سے محرومی پر بدلہ ہوگا اور اویس شاہ کو ا غوا کرکے تاوان سمیٹنا ہوگا۔ اب تک نہ یہ طے ہوا ہے کہ قتل کس نے کیا اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اغوا کار کون ہیں:
''نہ خنجر پہ کوئی داغ اور نہ دامن پہ کوئی چھینٹ'' پڑنے دینے والے واقعی کرامات ہی کرتے ہیں پھر گرفتاری کے بعد سزا دینے کا طویل مرحلہ کب تکمیل کو پہنچے گا۔
جنگل میں ایک شیر اور دو شیرنیوں کو انسانی قتل کے الزامات میں قید کرلیا گیا، ان کے چودہ ساتھیوں کو باعزت بری کردیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے شہروں میں قتل کرنے والے آسانی سے نہیں پکڑے جاتے، زہرہ نگاہ نے اپنی شاعری میں جنگل میں برے وقت میں ایک دوسرے سے ہمدردی کے جذبے کو شاندار انداز میں بیان میں کیا ہے، شہروں میں نہ ہمدردی ہے اور نہ انصاف، اس طرح تو ہم بہت جلد چاہیں گے کہ ہمارے شہری معاشروں میں ہوجائے جنگل کا سا درد اور جنگل کا سا انصاف۔