پاکستان کا نظریہ اور ہم
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نمایاں اصولوں کو دیکھا جائے تو وہ پاکستانی نظریہ سے بھی ہم آہنگ ہے
ایک خبر کے مطابق افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے سو کے قریب افراد کو تربیت دے دی گئی ہے۔ یہ اطلاع یقیناً قابل تشویش ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملکوں سے تعلقات خراب کیوں ہیں؟ اور یہ کہ کیا ہماری ترجیحات اور خارجہ پالیسی ہمارے نظریے کے مطابق ہیں؟ اور اس سے بھی بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارا نظریہ کیا ہے؟
کیا ہمارا نظریہ وہی ہے جو قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنوں میں تھا کہ پاکستان مسلمانوں کی ایک مثالی ریاست ہوگا کہ جہاں اسلامی حکومت ہوگی، جہاںقوانین اور خارجہ پالیسی سمیت تمام معاملات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں گے؟ (کچھ تھوڑے سے لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں تاہم اکثریت کا تو نظریہ یہی ہے، اکثریت کا تو یہی خیال ہے کہ ستائیسویں رمضان کو یہ ملک اﷲ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر ملا ہے کہ جہاں ایک مثالی اسلامی مملکت کا وجود ہونا چاہیے اور اس کے لیے کو شش بھی کرنی چاہیے)۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نمایاں اصولوں کو دیکھا جائے تو وہ پاکستانی نظریہ سے بھی ہم آہنگ ہے اور لبرل قسم کے نظریات سے بھی ہم آہنگ ہے، یعنی سب ممالک کے ساتھ برابری اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ تعلقات رکھنا۔ لیکن عملاً بہت سے بڑے فیصلے پاکستان کی تاریخ میں اس کے برعکس ملتے ہیں، مثلاً افغان جہاد کی حمایت کے لیے ہم نے اسلامی اور اخلاقی جواز تو فراہم کردیا مگر افغان مہاجرین کے لیے جس کھلے اور افراتفری کے انداز میں اپنے دروازے مکمل طور پر کھول دیے۔
اس سے اس ملک خاص کر کراچی شہر کا حشر نشر ہوگیا۔ اسلامی بھائی چارہ یقیناً ہونا چاہیے اور یہ سنت بھی ہے مگر اس کو کسی قانون کے دائرے میں بھی تو کیا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد ہم نے پڑوسی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے اپنی سرزمین پیش کردی اور پڑوسی ملک کے سفیر کو پکڑ کر سپر پاور کو دے دیا۔ یہ عمل نہ صرف ہماری خارجہ پالیسی بلکہ عالمی اصولوں کے بھی قطعی خلاف تھا کہ جس کے تحت کسی بھی ملک کے سفیر کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
نظریہ پاکستان کے مطابق خارجہ پالیسی نہ اپنانے سے اس ملک کے داخلی اور خارجی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس ملک کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہوا اور پھر اس کے بعد کے ہونے والے فیصلوں سے اب تک ہورہا ہے۔ سب سے بڑا غلط فیصلہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا اور ان لوگوں پر پاکستان آنے پر پابندی لگانا تھا جن لوگوں نے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے آگے آکر جان و مال کی قربانیاں دیں۔ دنیا بھر کی قومیں اپنے ملک کی حفاظت کرنے والوں، جان و مال قربان کرنے والوں کو اپنا ہیرو قرار دیتی ہیں اور ان کے لیے بہت کچھ کرتی ہیں، خود امریکا کو دیکھ لیں کہ اس نے ریمنڈ ڈیوس کو کس طرح سے پاکستان کی عدالت اور قانون سے بچا کر نکال لیا اور اپنے لیے کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل کے لیے پاکستان پر کیا کچھ دباؤ نہیں ڈال رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر امریکا ایسا نہیں کرے گا تو پھر کل اس کے مقاصد کے لیے کون ساتھ دے گا؟ یہ سیدھا سا اصول تو ہر کوئی اپناتا ہے لیکن نہیں اپنایا تو ہم نے نہیں اپنایا۔ ہم افغانیوں کو پناہ دینے کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والے ملک بن گئے، انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کی مگر سوال یہ ہے کہ یہ انسانی ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں کہ جنھوں نے اس ملک کو بچانے کے لیے قربانی دی اور اب تک وہ بنگلہ دیش میں رہنا پسند نہیں کرتے، کیمپوں میں زندگی گزارتے ان کی ایک نسل کب کی جوان ہوگئی مگر اب بھی وہ پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں اور پاکستان آنے کی بات کرتے، انتظار کرتے ہیں، مگر ہماری خارجہ پالیسی میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
نواز شریف نے اپنی پہلی حکومت میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پنجاب میں مکانات تعمیر کراکے انھیں بسانے کی بات کی تھی اور عمل بھی شروع کیا تھا مگر پھر وہ بھی بھول گئے، شاید اس لیے بھول گئے ہوں کہ ان لوگوں جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے، ان کے لیے آواز اٹھانے والی جماعت ایم کیو ایم بھی بھول گئی کہ کبھی ان کی واپسی کے نعرے پر ایم کیو ایم کی بنیاد کھڑی تھی۔ یوں ان کی واپسی آج کسی جماعت کا ایجنڈا نہیں۔ یہ حقیقت میں اتنا بڑا المیہ ہے کہ اس میں ہمارا نظریہ پاکستان بھی دفن ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے بھی کھل کر ان لوگوں کو غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے پھانسیاں دینا شروع کردیں کہ جنھوں نے نظریہ پاکستان پر اپنی جانیں قربان کردی تھی۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان پھانسیوں پر پاکستان میں کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا، نہ ہی سیاسی جماعتوں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے۔ ایسا ہی معاملہ کچھ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر سامنے آیا، باوجود عوامی خواہشات اور احتجاج کے ہماری خارجہ پالیسی ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلانے میں ناکام رہی حالانکہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہ تھے، ریمنڈ ڈیوس کے گرفتار ہونے پر یہ تاثر ابھرا تھا کہ بارگیننگ کرکے حکومت وقت ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلوالے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ واقعہ بھی ہماری خاجہ پالیسی اور نظریہ پاکستان کے قطعی برخلاف ہے۔
حکومتی سطح سے ہٹ کر عوامی سطح پر دیکھیں تو بھی نظریہ پاکستان اب دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ اس سال بھی عوام کی اکثریت نے ستائیسویں شب کو مساجد میں یہ سنا کہ یہ پاکستان اللہ تعالیٰ نے ستائیس رمضان کو تحفے میں اس لیے دیا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور نظام کو اسلام سے ہم آہنگ کریں، ہمیں چاہیے کہ رمضان کی ان اہم راتوں کو عبادت میں گزاریں اور اپنی معاملات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنائیں۔ یقیناً یہ نصیحت اور وعظ تو اسلام اور نظریہ پاکستان کے مطابق ہے مگر اب عوام کی اکثریت میں بھی اسلامی نظریہ پاکستان کنارے لگادیا گیا ہے۔
اب ستائیسویں شب میں بھی شاپنگ سینٹر پوری رات لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں اور اس کے بعد تو مساجد کی رونقیں بھی ماند پڑجاتی ہیں۔ اب پڑوسیوں کے، رشتے داروں کے اور دیگر لوگوں کے حقوق اور سادگی کی اسلامی تعلیمات بھی عملاً نظر نہیں آتیں۔ رمضان میں مقابلہ ہوتا ہے اور باتیں ہوتی ہیں تو یہ کہ تم نے کتنے جوڑے کپڑے اور جوتے کے خریدے، شاپنگ کہاں سے کی؟ اس بات پر بھی دھیان نہیں ہوتا کہ کوئی پڑوس میں بھوکا تو نہیں؟ کسی کو اس ماہ تنخواہ ملی یا نہیں؟
کسی کے بچوں کے پاس عید کے لیے صرف ایک جوڑا بھی ہے یا نہیں؟ جس کے پاس پیسہ ہے جائز یا ناجائز وہ اپنی شاپنگ و دنیا میں مگن ہے، بازار جانے والی سڑکیں دور تک ٹریفک جام کے باعث بند، ہر دوسرے شخص نے غلط پارکنگ کرکے راستہ بند کردیا، سرکاری کارندوں نے تو راستے بند کرکے پارکنگ بنا ڈالی اور رقم بھی وصول کرنا شروع کردی۔ بے صبری کے باعث گلی محلوں کے راستے بھی ٹریفک جام کا منظر پیش کر رہے ہیں، کہیں پیدل نکلنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ سنا ہے رمضان رحمت و برکتوں کا مہینہ ہے، کوئی عشرہ مغفرت کا تو کوئی جہنم سے نجات کا ہے کہ اس کی راتیں اس کے لیے حاضر ہیں، مگر یہ چاروں طرف دھکم پیل، بازاروں میں پوری رات نہ ختم ہونے والے ہجوم، سڑکوں پر ٹریفک جام، ہر طرف سکون غارت؟ یہ کیسا نظریہ پاکستان ہے؟ یہ کیسی اسلامی تعلیمات ہیں؟ ہم کس طرف جا رہے ہیں، آیئے غور کریں۔
کیا ہمارا نظریہ وہی ہے جو قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنوں میں تھا کہ پاکستان مسلمانوں کی ایک مثالی ریاست ہوگا کہ جہاں اسلامی حکومت ہوگی، جہاںقوانین اور خارجہ پالیسی سمیت تمام معاملات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں گے؟ (کچھ تھوڑے سے لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں تاہم اکثریت کا تو نظریہ یہی ہے، اکثریت کا تو یہی خیال ہے کہ ستائیسویں رمضان کو یہ ملک اﷲ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر ملا ہے کہ جہاں ایک مثالی اسلامی مملکت کا وجود ہونا چاہیے اور اس کے لیے کو شش بھی کرنی چاہیے)۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نمایاں اصولوں کو دیکھا جائے تو وہ پاکستانی نظریہ سے بھی ہم آہنگ ہے اور لبرل قسم کے نظریات سے بھی ہم آہنگ ہے، یعنی سب ممالک کے ساتھ برابری اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ تعلقات رکھنا۔ لیکن عملاً بہت سے بڑے فیصلے پاکستان کی تاریخ میں اس کے برعکس ملتے ہیں، مثلاً افغان جہاد کی حمایت کے لیے ہم نے اسلامی اور اخلاقی جواز تو فراہم کردیا مگر افغان مہاجرین کے لیے جس کھلے اور افراتفری کے انداز میں اپنے دروازے مکمل طور پر کھول دیے۔
اس سے اس ملک خاص کر کراچی شہر کا حشر نشر ہوگیا۔ اسلامی بھائی چارہ یقیناً ہونا چاہیے اور یہ سنت بھی ہے مگر اس کو کسی قانون کے دائرے میں بھی تو کیا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد ہم نے پڑوسی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے اپنی سرزمین پیش کردی اور پڑوسی ملک کے سفیر کو پکڑ کر سپر پاور کو دے دیا۔ یہ عمل نہ صرف ہماری خارجہ پالیسی بلکہ عالمی اصولوں کے بھی قطعی خلاف تھا کہ جس کے تحت کسی بھی ملک کے سفیر کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
نظریہ پاکستان کے مطابق خارجہ پالیسی نہ اپنانے سے اس ملک کے داخلی اور خارجی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس ملک کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہوا اور پھر اس کے بعد کے ہونے والے فیصلوں سے اب تک ہورہا ہے۔ سب سے بڑا غلط فیصلہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا اور ان لوگوں پر پاکستان آنے پر پابندی لگانا تھا جن لوگوں نے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے آگے آکر جان و مال کی قربانیاں دیں۔ دنیا بھر کی قومیں اپنے ملک کی حفاظت کرنے والوں، جان و مال قربان کرنے والوں کو اپنا ہیرو قرار دیتی ہیں اور ان کے لیے بہت کچھ کرتی ہیں، خود امریکا کو دیکھ لیں کہ اس نے ریمنڈ ڈیوس کو کس طرح سے پاکستان کی عدالت اور قانون سے بچا کر نکال لیا اور اپنے لیے کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل کے لیے پاکستان پر کیا کچھ دباؤ نہیں ڈال رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر امریکا ایسا نہیں کرے گا تو پھر کل اس کے مقاصد کے لیے کون ساتھ دے گا؟ یہ سیدھا سا اصول تو ہر کوئی اپناتا ہے لیکن نہیں اپنایا تو ہم نے نہیں اپنایا۔ ہم افغانیوں کو پناہ دینے کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والے ملک بن گئے، انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کی مگر سوال یہ ہے کہ یہ انسانی ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں کہ جنھوں نے اس ملک کو بچانے کے لیے قربانی دی اور اب تک وہ بنگلہ دیش میں رہنا پسند نہیں کرتے، کیمپوں میں زندگی گزارتے ان کی ایک نسل کب کی جوان ہوگئی مگر اب بھی وہ پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں اور پاکستان آنے کی بات کرتے، انتظار کرتے ہیں، مگر ہماری خارجہ پالیسی میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
نواز شریف نے اپنی پہلی حکومت میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پنجاب میں مکانات تعمیر کراکے انھیں بسانے کی بات کی تھی اور عمل بھی شروع کیا تھا مگر پھر وہ بھی بھول گئے، شاید اس لیے بھول گئے ہوں کہ ان لوگوں جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے، ان کے لیے آواز اٹھانے والی جماعت ایم کیو ایم بھی بھول گئی کہ کبھی ان کی واپسی کے نعرے پر ایم کیو ایم کی بنیاد کھڑی تھی۔ یوں ان کی واپسی آج کسی جماعت کا ایجنڈا نہیں۔ یہ حقیقت میں اتنا بڑا المیہ ہے کہ اس میں ہمارا نظریہ پاکستان بھی دفن ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے بھی کھل کر ان لوگوں کو غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے پھانسیاں دینا شروع کردیں کہ جنھوں نے نظریہ پاکستان پر اپنی جانیں قربان کردی تھی۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان پھانسیوں پر پاکستان میں کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا، نہ ہی سیاسی جماعتوں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے۔ ایسا ہی معاملہ کچھ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر سامنے آیا، باوجود عوامی خواہشات اور احتجاج کے ہماری خارجہ پالیسی ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلانے میں ناکام رہی حالانکہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہ تھے، ریمنڈ ڈیوس کے گرفتار ہونے پر یہ تاثر ابھرا تھا کہ بارگیننگ کرکے حکومت وقت ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلوالے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ واقعہ بھی ہماری خاجہ پالیسی اور نظریہ پاکستان کے قطعی برخلاف ہے۔
حکومتی سطح سے ہٹ کر عوامی سطح پر دیکھیں تو بھی نظریہ پاکستان اب دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ اس سال بھی عوام کی اکثریت نے ستائیسویں شب کو مساجد میں یہ سنا کہ یہ پاکستان اللہ تعالیٰ نے ستائیس رمضان کو تحفے میں اس لیے دیا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور نظام کو اسلام سے ہم آہنگ کریں، ہمیں چاہیے کہ رمضان کی ان اہم راتوں کو عبادت میں گزاریں اور اپنی معاملات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنائیں۔ یقیناً یہ نصیحت اور وعظ تو اسلام اور نظریہ پاکستان کے مطابق ہے مگر اب عوام کی اکثریت میں بھی اسلامی نظریہ پاکستان کنارے لگادیا گیا ہے۔
اب ستائیسویں شب میں بھی شاپنگ سینٹر پوری رات لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں اور اس کے بعد تو مساجد کی رونقیں بھی ماند پڑجاتی ہیں۔ اب پڑوسیوں کے، رشتے داروں کے اور دیگر لوگوں کے حقوق اور سادگی کی اسلامی تعلیمات بھی عملاً نظر نہیں آتیں۔ رمضان میں مقابلہ ہوتا ہے اور باتیں ہوتی ہیں تو یہ کہ تم نے کتنے جوڑے کپڑے اور جوتے کے خریدے، شاپنگ کہاں سے کی؟ اس بات پر بھی دھیان نہیں ہوتا کہ کوئی پڑوس میں بھوکا تو نہیں؟ کسی کو اس ماہ تنخواہ ملی یا نہیں؟
کسی کے بچوں کے پاس عید کے لیے صرف ایک جوڑا بھی ہے یا نہیں؟ جس کے پاس پیسہ ہے جائز یا ناجائز وہ اپنی شاپنگ و دنیا میں مگن ہے، بازار جانے والی سڑکیں دور تک ٹریفک جام کے باعث بند، ہر دوسرے شخص نے غلط پارکنگ کرکے راستہ بند کردیا، سرکاری کارندوں نے تو راستے بند کرکے پارکنگ بنا ڈالی اور رقم بھی وصول کرنا شروع کردی۔ بے صبری کے باعث گلی محلوں کے راستے بھی ٹریفک جام کا منظر پیش کر رہے ہیں، کہیں پیدل نکلنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ سنا ہے رمضان رحمت و برکتوں کا مہینہ ہے، کوئی عشرہ مغفرت کا تو کوئی جہنم سے نجات کا ہے کہ اس کی راتیں اس کے لیے حاضر ہیں، مگر یہ چاروں طرف دھکم پیل، بازاروں میں پوری رات نہ ختم ہونے والے ہجوم، سڑکوں پر ٹریفک جام، ہر طرف سکون غارت؟ یہ کیسا نظریہ پاکستان ہے؟ یہ کیسی اسلامی تعلیمات ہیں؟ ہم کس طرف جا رہے ہیں، آیئے غور کریں۔