عیدالفطر پر عیدی کا تصور

عیدی کو عیدی رہنے دیں کیونکہ اسکا حسن عیدی رہنے میں ہی ہے، اسے بوجھ نہ بنائیں، اسے ہتهیار نہ بنائیں۔


نعمان الحق July 07, 2016
جتنی عیدی ملے اس پر معترض ہونے کے بجائے قناعت کریں اور خوشی کا اظہار کریں یوں عیدی دینے والوں پر معاشرتی دباؤ ختم ہوگا۔

معاشرہ ایک سے زائد افراد کے باہم مربوط گروه کا نام ہے جو ایک مخصوص خطہ ارض پر طے شدہ معیارات کے تحت آپس میں میل جول رکهتے ہیں اور معاملات کرتے ہیں۔ یہ معیارات صدیوں کے ارتقاء اور نسل در نسل اپنے آباؤ اجداد کے اتباع کی بدولت وجود میں آتے ہیں اور نہایت آہستگی کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ان معیارات کا جدید نام ''رسوم و رواج یا روایات'' ہے جسے انگریزی زبان میں Traditions کہتے ہیں۔ ہر خطہ ارض اپنی ایک منفرد تہذیب رکهتا ہے جس سے یہ روایات کشید کی جاتی ہیں اور زندگی کے تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں۔ شادی بیاه ہو، غمی خوشی ہو یا آپس کا لین دین۔ ہر موقع کیلئے روایات متعین ہوتی ہیں۔

رسومات انسانی زندگی پر کئی طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ بعض رسومات افراد اور معاشرے کیلئے بہت مفید ہوتی ہیں جیسے مدینہ منورہ میں مہمانوں کا بهرپور اکرام کرنے کی روایت جبکہ بعض روایات معاشرے پر بوجھ بن جاتی ہیں اور ایک لعنت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جیسے پاکستان اور ہندوستان میں جہیز جیسی مکروه رسم۔

رسوم و رواج کے درج بالا پس منظر میں آئیے اب عیدالفطر کے موقع پر ''عیدی'' دینے کی رسم کا جائزہ لیتے ہیں۔ عیدی کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف نام استعمال کئے جاتے ہیں اور اسے رقم یا تحائف کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ اپنے اور متعلقین کے بچے، گهریلو و نچلے درجے کے کاروباری ملازمین، رشتہ دار اور شادی شدہ بہنیں و بیٹیاں عیدی کی حقدار سمجهی جاتی ہیں اور انہیں عیدی دیے بغیر عید کی خوشیاں نامکمل رہتی ہیں۔ عیدی دینے کی اس رسم کے تین پہلو ہیں۔

  • عیدی بطور بدعت

  • متعلقین کی ناراضگی کا خوف

  • غیر مسلموں سے مشابہت


عیدی بطور بدعت:

ویسے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے تحفہ دینے کو باہمی محبت میں اضافے کا ذریعہ قرار دیا ہے، بشرطیکہ کسی دنیاوی مفاد کے پیش نظر نہ دیا جائے مگر علماء حق اس بات پر متفق ہیں کہ عیدالفطر کے موقع پر خصوصی تحائف عید کی مناسبت سے دینا (جیسا کہ عیدی دینا ہے) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ شریعت کا کوئی حکم ہے، نہ ہی اسکا کوئی خصوصی ثواب ہے اور نہ ہی عیدی دینے سے انکار پر کوئی گناه ہے۔ اس لئے کوئی شخص عام دنوں میں تحفہ دے یا عید کے موقع پر دے، دونوں کا ثواب ایک جیسا ہوگا۔

اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ''عیدی دینا'' محض ایک رسم ہے اور اس کا شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص، عیدی دینے کو شریعت کا حصہ سمجهے اور یہ عقیدہ رکهے کہ عیدی دینا فرض یا سنت ہے جس کی وجہ سے عید پر دئیے گئے تحائف کا خصوصی ثواب ہوتا ہے اور عیدی نہ دینے کو گناه سمجهے، تو وہ بدعت کا مرتکب ہوگا جو کہ سراسر گمراہی ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے نظریات سے احتراز کرنا چاہیئے۔

رشتہ داروں اور بچوں کو عیدی دیتے وقت ہدیہ یا تحفہ دینے کی نیت رکهیں تاکہ تحفہ دینے کا ثواب حاصل ہو۔ غربا و مساکین کو عیدی دیتے وقت نفلی صدقہ کی نیت کریں تا کہ صدقہ کا ثواب ہو۔



متعلقین کی ناراضگی کا خوف

اب ہم اس رسم کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں جس میں عیدی ناراضگی کی ڈر سے دی جاتی ہے۔ اس کی بدترین مثال یہ ہے کہ غریب اور متوسط گهرانوں میں وسائل محدود ہوتے ہیں جن سے گهر کے افراد ہی بمشکل عید کی تیاری کر پاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ گهر کی بیاہی ہوئی بہنوں اور بیٹیوں کو انکے سسرال میں عیدی بهیجنی پڑتی ہے۔ یہ ایسا ہی مشکل ہوتا ہے جیسے تاوان یا بهتے کی ادائیگی کرنا کیونکہ عیدی نہ بهیجی جائے تو سسرال والے طعنے اور کوسنے دے دے کر اسکا جینا حرام کردیں گے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آ کر روایات بوجھ بن جاتی ہیں اور اس بے جا بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ قرض لے کر بہنوں بیٹیوں کے سسرال میں عیدی بهجواتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص تحفہ دینا نہ چاہتا ہو مگر اس پر تحفہ دینے کیلئے معاشرتی دباؤ ہو یا وہ کم قیمت تحفہ دینا چاہتا ہو اور اس پر بیش قیمت تحفہ دینے کیلئے دباؤ ہو تو تحفہ لینے والے کیلئے ایسا تحفہ لینا شرعاً جائز نہیں۔
غیر مسلموں سے مشابہت

عیدی کا ایک پہلو یہ بهی ہے کہ غیر محسوس طریقے سے غیر مسلموں کے تہواروں کی مشابہت ہوجاتی ہے جو خلاف تقویٰ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکهنے کا ظلم عام ہے۔ اس کیلئے عموماً یہ جواز گهڑا جاتا ہے کہ،
''بچی کو شادی پر اتنا جہیز دے دیا، عیدوں شب براتوں پر اسکا گهر بهرتے رہے ہیں۔ ویسے بهی موقع بے موقع دیتے رہتے ہیں، اِس کے باوجود بھی کیا بھلا جائیداد میں اسکا حصہ ہے؟ ''

یہ تصور مسلمانوں نے ہندوؤں سے مستعار لیا ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جہیز کی ریت بهی مسلمانوں نے ہندوؤں سے ہی سیکهی ہے۔ یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ ایسی سوچ رکهنے اور غیر مسلموں کے تہواروں سے مشابہت اختیار کرنے کی اسلام میں ممانعت ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ عیدی دینا ایک خوبصورت اور محبت بڑهانے والی روایت ہے، جو دنیا بهر کے مسلمانوں میں مشترک ہے۔ اس رسم کے فوائد و ثمرات سے بهرپور استفادہ کرنے کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ،

  • ہم لاعلمی کی بنیاد پر عقائد کی گڑبڑ سے عیدی کو بدعت نہ بنا لیں۔

  • جتنی عیدی ملے اس پر معترض ہونے کے بجائے قناعت کریں اور خوشی کا اظہار کریں۔ اس سے عیدی دینے والوں پر معاشرتی دباؤ ختم ہوگا اور آپکی وصول کردہ عیدی آپ کیلئے جائز ٹهہرے گی۔

  • عیدی دیتے وقت بد نیتی کو قریب بھی نہ پهٹکنے دیں تاکہ غیر مسلموں کی مشابہت سے بچا جاسکے۔


عیدی کو عیدی رہنے دیں کیونکہ اسکا حسن عیدی رہنے میں ہی ہے، اسے بوجھ نہ بنائیں، اسے ہتهیار نہ بنائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |