وزیراعظم کے لیے مخلصانہ مشورہ
یہ اضافی بوجھ انھوں نے اپنے اوپر لادا ہوا ہے۔ حالانکہ نہ یہ ان کے لیے مناسب ہے
ہارٹ سرجری کے مرحلے سے گزرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف امور ریاست اپنی لندن کے ہائیڈ پارک میں واقع رہائش گاہ سے چلارہے ہیں۔ وہ اپنی کابینہ کے وزرا اور بیوروکریٹس کو وہیں طلب فرماتے ہیں اور ان سے خیر خبر لینے کے بعد ضروری ہدایات جاری کردیتے ہیں۔ تاہم ان کی واپسی کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، سارا دار و مدار ان کے ڈاکٹر کی ہدایت پر ہے۔
وزیراعظم کو بیرون ملک گئے ہوئے کئی ہفتے ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ ان کی علالت فوری نوعیت کی تھی جس کی گمبھیرتا کا تقاضا یہی تھا کہ وہ بلاتاخیر دل کا آپریشن کرائیں کیوں کہ یہ تھا دل کا معاملہ، کوئی دل لگی نہیں تھی۔ آخر وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو جو ٹھہرے، اس کے علاوہ انھوں نے وزارت خارجہ کی سربراہی کا اضافی بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے، جوکہ کل وقتی توجہ کا متقاضی ہے۔
یہ اضافی بوجھ انھوں نے اپنے اوپر لادا ہوا ہے۔ حالانکہ نہ یہ ان کے لیے مناسب ہے اور نہ وہ اس کے لیے مناسب ہیں۔ شاید ضرورت اور ہمت سے زیادہ بوجھ اپنے اوپر لادنا بھی ان کی خرابی صحت کا ایک سبب بنا ہو، مگر میاں صاحب کو بھلا کون یہ بات سمجھا سکتا ہے کیوں کہ موصوف اپنی مرضی کے مالک ہیں، ان کے ارد گرد کے لوگوں میں شاید نہ اتنی ہمت ہے اور نہ جرأت۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی یس سر، یس سر کہہ کر اپنے نمبر بڑھوانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔
ملکی معاملات اور سیاسی امور کو ملک سے باہر بیٹھے ریموٹ کنٹرول سے چلانا ہمارے سیاسی قائدین کا پرانا وطیرہ بلکہ محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں۔ تختۂ مشق بے چارے بھولے بھالے عام کارکن بنتے ہیں اور موج اڑاتے ہیں لیڈران کرام، مگر وزارت عظمیٰ کی ذمے داری کوئی مذاق نہیں کہ اسے بیرون ملک بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ادا کیا جائے۔ حضور والا یہ پارٹ ٹائم جاب ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے وہ کچھ ہورہا ہے جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ وفاقی بجٹ اجلاس سے وزیراعظم نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرکے ایک نئی ریت ڈال دی۔
طرفہ تماشا یہ کہ وزیراعظم کی صحت کے بارے میں کوئی سرکاری طبی اعلامیہ جاری کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں قیاس آرائیوں اور افواہوں نے زور پکڑنا شروع کردیا۔
میاں صاحب کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات کسی اور کو سونپنے کے لیے شاید ہی آمادہ ہوں، کیوں کہ انھیں کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔ مثل مشہور ہے کہ دودھ کا جلا ہوا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ لہٰذا ان کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں کہ امور ریاست چلانے میں اپنے گھر والوں کو پس پردہ شریک کریں یا ان قریبی رشتے داروں کے ساتھ معاملات شیئر کریں جو صد فیصد قابل اعتماد ہیں لیکن آئینی اعتبار سے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے پارٹی کی ذمے داری اپنی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے کی ہوئی ہے جنھوں نے وزیراعظم ہاؤس سنبھالا ہوا ہے، شنید ہے کہ پارٹی سے متعلق نازک فیصلے بھی وہی کررہی ہیں اور پالیسی فیصلوں میں بھی ان ہی کی بالادستی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ کوئی جمہوری طرز حکمرانی نہیں بلکہ سلطنت والا نظام حکومت ہے، اس انداز حکمرانی نے ایک قسم کے خلفشار کی سی کیفیت پیدا کردی ہے، اجلاس میں بھی نظر آئی تھی، ایوان میں کورم پورا نہ ہونے کا مسئلہ اس کے علاوہ تھا۔
بے سمتی اور خلفشار کی عکاسی ملک کی خارجہ پالیسی میں ہورہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملٹری خلا کو پر کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس کا اشارہ جی ایچ کیو کے حالیہ اجلاس کی شکل میں بھی دکھائی دیتا ہے جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزارت خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز کے علاوہ وزارت خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز کے علاوہ وزارت خارجہ کے بعض سینئر اہلکاروں نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور پہلا اجلاس تھا جس کے بارے میں بہت سی چہ میگوئیاں بھی ہوئیں۔
پانامہ اسکینڈل کے دوران ہی وزیراعظم کی سرجری کا مرحلہ بھی پیش آیا اور جتنے منہ اتنی ہی باتیں کے مصداق بہت کچھ سننے میں آیا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کے منہ کو تالے تو لگائے نہیں جاسکتے اور پھر جمہوریت کا تو حسن بھی یہی ہے کہ کوئی بھی تنقید سے بالاتر نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ انھیں اپنی حکمرانی کی مدت چین سے پورا کرنا نصیب نہیں ہوتی، کوئی نہ کوئی رخنہ بیچ میں ضرور پڑجاتا ہے، ان کی موجودہ تیسری مدت حکمرانی میں پانامہ لیکس نے سارا مزہ کرکرا کردیا ہے۔
احتجاج کے طریقہ کار پر اختلافات کے باوجود اپوزیشن نے ٹھان رکھی ہے کہ وہ پانامہ اسکینڈل کی تحقیقات اور چھان بین کی شروعات وزیراعظم اور ان کے فیملی ممبران سے ہی کرے گی۔ وزیراعظم اس کے لیے تیار نہیں۔ اس دوران وزیراعظم علیل ہوگئے اور انھیں کچھ سہولت میسر آگئی، مگر یہ معاملہ ختم ہونے والا نہیں لگتا۔ اب حکومت ٹرن آف ریفرنس کی آڑ لے کر اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کررہی ہے، مگر شاید جان چھوٹے گی نہیں۔ میاں صاحب اور ان کے ساتھی اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ حزب اختلاف کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے یہ ایشو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹائیں ٹائیں فش ہوکر رہ جائے گا۔
یہ سچ ہے کہ اپوزیشن پانامہ اسکینڈل کے خلاف عوامی احتجاج کو ابھارنے میں اب تک ناکام رہی ہے مگر مہنگائی اور بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی لا قانونیت کے ستائے ہوئے عوام کو سڑکوں پر لانا ناممکن بھی نہیں ہے، خصوصاً کراچی شہر میں جہاں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کو دہشت گردوں نے دن دہاڑے ایک بھری ہوئی مارکیٹ سے اسلحے کے زور پر اغوا کرلیا اور امجد صابری قوال کو نہایت سفاکی سے قتل کردیا۔
جہاں تک پی پی پی اور بعض دیگر اپوزیشن پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ نہیں چاہتی کہ سیاسی نظام پٹڑی سے اتر جائے، اسی لیے وہ حکومت کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک چلانے سے گریز کررہی ہیں اور محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، لیکن پی ٹی آئی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ اسے شریف حکومت کو گرانے اور ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کا ایک اچھا موقع تصور کررہے ہیں، گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ حکومت کو بھی اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہے، اور اسے 2014 کا دھرنا یاد ہے۔ اس Conspiracy Theory میں کتنی جان ہے یا نہیں ہے، اس بارے میں لب کشائی کرنا قبل از وقت ہوگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر حکومت اطمینان سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہی اور اس نے نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکار کردیا تو یہ اس کی محض حماقت ہوگی کیوں کہ ابلتا ہوا لاوا کسی بھی وقت پھٹ بھی سکتا ہے۔ حکومت یہ نہ بھولے کہ اس کے خلاف سیاسی محاذ آرائی بھی برپا کی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات کا معاملہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، ملک کی سیکیورٹی اور سلامتی فوج کو سب سے زیادہ عزیز اور مقدم ہے اور ہونی بھی چاہیے، اس پر ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ حکومت پر یہ حقیقت بالکل واضح ہونی چاہیے اور اس لیے اسے اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے۔ یوں بھی گرد و پیش کے حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر کڑی نظر رکھے اور اقتدار کی ہوس میں اندھی ہونے سے گریز کرے۔
بھاری عوامی مینڈیٹ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ حکومت کھلی من مانی کرنے پر اتر آئے، لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت پانامہ اسکینڈل کو پس پشت ڈالنے کے بجائے ایسی روش اختیار کرے جس سے اس کا دامن عوام کے سامنے صاف ہو اور وہ قوم کے سامنے بالکل سرخ رو ہوکر نکلے۔ یاد رہے کہ ٹال مٹول کی پالیسی Backfire کرسکتی ہے۔ وزیراعظم کے لیے مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد کو اولیت دیں اور اچھی حکمرانی کا عملی ثبوت پیش کریں اور اختیارات کے ارتکاز سے گریز کریں، ویسے بھی اب ان کی صحت زیادہ بوجھ اٹھانے کی مزید متحمل نہیں ہوسکتی۔