توکل اور ترقی
ہوائی جہاز پرچارسو سے زائد مسافر سوارتھے۔ جہاز رن وے پر بہت تیزی سے دوڑ رہا تھا۔
ہوائی جہاز پرچارسو سے زائد مسافر سوارتھے۔ جہاز رن وے پر بہت تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ سب مسافر اور عملے کے ارکان اپنی اپنی نشستوں پر سیٹ بیلٹ باندھے بیٹھے ہوئے تھے۔ چند سیکنڈ بعد جہاز کے پہیے زمین سے اٹھ گئے اور جہاز ڈگری کا زاویہ بناتا ہوا فضا میں بلند ہوتا چلا گیا۔ جب ہوائی جہاز ٹیک آف یا لینڈنگ کرتا ہے تو زیادہ ترمسافر عموماً خاموش ہوجاتے ہیں۔ جہازفضا میں بلند ہوجانے کے بعد کئی مسافر دوبارہ باتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
اس روز جب جہازٹیک آف کرکے فضا میں بلند ہو چکا تو میں نے اپنی خاموشی یہ کہہ کر توڑی کہ لوہے اور دیگر اجزاء سے بنے ہوئے ٹنوں وزنی جہازوں کی زمین سے فضا میں پرواز اور پھر واپس زمین پر باحفاظت لینڈنگ دراصل قدرت پر توکل کی وجہ سے ہے۔ میری یہ بات سن کر میرے ساتھیوں نے بے ساختہ ایک زودار قہقہہ لگایا اور کہا جناب!.... یہ سائنس کے کمالات ہیں اور سائنسدان حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں۔
اگر سائنسدان بھی ہماری طرح توکل پر ہی بیٹھے رہتے تو یورپ آج بھی تیرہویں صدی والی حالت پر ہی ہوتا۔ یہ بات سن کر میں نے پھر کہا اس زمین پر سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ، زمین اور خلاء میں انسان کا تصرف دراصل قدرت پر توکل کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ اس بات پر میرے دائیں بائیں بیٹھے حضرات نے قہقہہ نہیں لگایا لیکن ان کے چہروں کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ انھیں میری بات سے اتفاق نہیں۔ شاید میری بات کو وہ عقیدت اور اندھی تقلید کے تانے بانے سے تیارکردہ کوئی دیپاچہ سمجھ رہے ہوں۔
قارئین کرام....! اپنے معاشرے میں اکثر لوگوں کی سوچ کا جائزہ لیجیے۔ کیا یہ بات سامنے نہیں آتی کہ ہم کئی مواقع پر حقیقت کو سراب اور سراب کو حقیقت سمجھ کر حال کے لیے لائحہ عمل اور مستقبل کے لیے منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ اس نکتہ پر مزید گہرائی میں جائیں تو واضح ہوگا کہ یہ انداز فکر معاشرے کے صرف ناخواندہ ، نیم خواندہ طبقات میں نہیں بلکہ ملک کی پالیسی بنانے والوں کی سطح تک پایا جاتا ہے۔
سرکاری اور نجی اداروں میں بد انتظامی ، بجلی پانی کے بحران، رشوت ، اقربا پروری وغیرہ پر کئی بار لوگ طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام تو بس اﷲ توکل چل رہا ہے۔ یہ سن کر میں کہتاہوں اگر پاکستان کا نظام صحیح معنوں میں اﷲ پر توکل کرکے چلایا جاتا تو اس زمین سے سونا نکلتا ، تیل، گیس اور بجلی کی فراوانی ہوتی۔ زرخیز زمینوں سے حاصل ہونے والی پیداوار نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرتی بلکہ ہم کئی اجناس، ڈیری پراڈکٹس، ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے بڑے ایکسپورٹر ہوتے۔ اگر ہم اﷲ پر توکل کے تقاضوں کو سمجھتے اور ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے شب و روز محنت اور دیانتداری سے گزارتے تو پاکستان کا شماردنیا کے دس بڑے ترقی یافتہ اور خوش حال ترین ممالک میں ہوتا۔
پاکستان میرا وطن ہے، میرا ماضی میر ا حال ، میرا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔ قارئین کرام آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنے مستقبل کو محفو ظ و مامون بنانے کی خواہش رکھتا ہے اور اکثر لوگ اس کے لیے کم یا زیادہ کوششیں بھی کرتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم پاکستان کو مضبوط ، محفوظ ، ترقی کرتا ہوا اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہم سب کو قدرت پر توکل کرتے ہوئے صحیح سمت میں ، سچائی اور دیانت داری کے ساتھ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ابھی تو حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کم ہورہی ہے ، غربت، بے روزگاری اور جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ، بیماریاں پھیل رہی ہیں، معاشرے میں تنظیم نظر نہیں آتی۔
ہمارے معاشرے میں کچھ الفاظ یا چند اصطلاحات کے نامکمل یا غیر حقیقی معانی وضع کرلیے گئے ہیں۔ ا ن خود اخذکردہ معانی نے ہمارے سوچنے سمجھنے کے انداز کو اور ہماری شخصیت کو اکثر منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ ان میں لفظ توکل بھی شامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر توکل کے جو معنی سمجھے جاتے ہیں ان سے تو بے عملی، بے چارگی اور بے بسی جیسے تاثرات سامنے آتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے اپنے آپ کو کمزور یا کم علم سمجھتے ہوئے اپنے معاملات کسی طاقتور کو یا زیادہ علم رکھنے والوں کو سونپ دیے جائیں۔
قدرت پر توکل کا مطلب کیا ہے؟ توکل کا مطلب ہے بھروسہ کرنا ۔ اس وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ قدرت کے قوانین اٹل ہیں۔ انسان اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے قوانین قدرت سے آگہی پائے اور ان کے قوانین کے مطابق عمل کرے تو اسے کامیابی لازماً ملے گی ۔
اﷲ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کے احکامات اور اس کائنات کے لیے اﷲ کے بنائے ہوئے قوانین کو سمجھا جائے اور ان قوانین پر عمل کیا جائے۔
سائنس دانوں کی سب دریافتیں قوانین قدرت سے آگہی کی وجہ سے تو ممکن ہو پائیں ہیں۔ سائنس کے سب حاصلات قوانین قدرت پر عمل کا نتیجہ ہیں۔
انسان نے فضاء میں پرواز کرنا چاہا تو اس حوالے سے پہلے قوانین قدرت سے واقفیت حاصل کی۔ یہ سیکھا کہ ان قوانین پر کیسے عمل کیا جائے ، ریسرچ کی اور آخرکار ایک مشین بنا ڈالی، اس مشین کو ہم ہوائی جہاز کہتے ہیں۔ سائنس کی تمام دریافتیں، ٹیکنالوجی کی جدتیں، سادہ مشین سے لے کر بڑی بڑی پیچیدہ مشینوں کی تیاری انسان کی اس ریسرچ کا نتیجہ ہے جو اس نے قوانین قدرت کو سمجھنے اور ان کے مطابق عمل کرنا سیکھنے کے لیے کی۔ قوانین قدرت کو سمجھنا، ان پر عمل کرنا، ان قوانین پر بھروسہ کرنا دراصل قدرت پر توکل ہے۔ جن لوگوں نے ، جن گروہوں نے اس انداز میں توکل اختیار کیا انھیں کامیابی ضرور ملی۔
انسان کی کوشش کا نتیجہ خیر پر مبنی ہو، اس کے لیے سچائی اور امانت داری لازمی ہے۔ کامیابیوں پر انسان کا ردعمل شکر گزاری والا ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں سیاستدانوں افسروں ، زمینداروں وڈیروں ، صنعتکاروں ، تاجروں اور دیگر طبقات کے طرزعمل کا مشاہدہ کیجیے اور اس کے نتیجہ میں ملک کے سیاسی، معاشی، معاشرتی حالات کو دیکھئے۔ عوامی نمائدوں کے ایوان ہوں، نفاذ قانون کے ادارے ہوں ، فراہمی انصاف کے ذمے دار ہوں غرض معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ہو وہاں سچائی اور امانت داری کس قدر ہے....؟
اپنے ملک کے حالات بہتر کرنے ہیں ۔ عوام کی جان مال و آبرو کو تحفظ دینا ہے ۔ قوموں کی برادری میں معزز مقام بنانا ہے تو ہمیں توکل اختیار کرتے ہوئے سچ اور دیانت داری کو اپنانا ہوگا ۔کامیابیوں پر غرور نہیں شکر گزار ی اور عاجزی سیکھنا ہوگی۔
موسم کی خرابی کی وجہ سے دوران سفر کئی بار پرواز ناہموار ہوئی۔ ایک جگہ تو جہازہوا کے تھپیڑوں کا سامنا کرتے ہوئے ڈولنے لگا ، دہشت اور خوف سے کئی مسافروں کی چیخیں نکل گئیں لیکن پھر پرواز ہموار ہوگئی ۔ باقی سفر آرام سے گزرا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز میں اعلان ہوا کہ اب ہم اترنے والے ہیں اپنی سیٹ بلیٹ باندھ لیں۔ ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت اور دورانِ سفر سیٹ بیلٹ باندھنا انسان نے قوانین قدرت کی پیروی سے سیکھا ہے۔