عید اور ہماری مصنوعی خوشیاں
دنیا میں تمام مذاہب کے لوگ اپنا تہوار ہمیشہ روایتی مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں
دنیا میں تمام مذاہب کے لوگ اپنا تہوار ہمیشہ روایتی مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں لیکن مسلمانوں کیلیے عیدالفطر جسے عرف عام میں میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے یہ روزہ داروں کیلیے انعام ہے کیونکہ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا، اس کیلیے یہ دن بخشش، خوشیوں، سچے جذبوں کے رنگوں، محبتوں اور اتحاد کی برکھا کی نوید ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے صبر آزما اور اجر آفرین مہینے کے بعد جب عید آتی ہے تو ہر گھر کے آنگن میں رنگ رنگ کے آنچل لہرانے لگتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے گویا قوس قزح کے ساتوں رنگ فضا کے بجائے سطح زمین کو مزین کر رہے ہیں۔ ہر گھر مسرت و شادمانی کا گہوارہ بن جاتا ہے، چوڑیوں کی جھنکار، خوشبو، نئے لباس کی دل فریبی اور امنگوں کا اضطراب، یوں نظر آتا ہے جیسے سوئی ہوئی کائنات ایک سحر آفریں انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ہو اور بہار آفریں زندگی مچل مچل کر حسین کائنات کی تکمیل کررہی ہو۔
زندگی کے سب لمحے یادگار ہوتے ہیں، لوٹ کر نہیں آتے، ایک بار ہوتے ہیں، بلاشبہ اگر سوچا سمجھا جائے تو حیات رواں کا ہر اک پل دوسرے سے مختلف، منفرد اور ممتاز ہوتا ہے، بیتا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اور نہ ہی مستقبل کی ساعتیں اس کا متبادل ثابت ہوسکتی ہیں۔ حیات انسانی کے مراحل میں سے غالباً بچپن ہی وہ مرحلہ ہے جس سے وابستہ یادیں دل و دماغ پر مرتے دم تک نقش رہتی ہیں۔ بے فکری کے یہ ایام بھلائے نہیں بھولتے، کھانا پینا، کھیلنا کودنا، پڑھائی اور پھر ماں کی آغوش میں سر رکھتے ہی نیند کی حسین وادیوں میں کھو جانا، نہ کوئی غم دوراں اور نہ کوئی فکر و اندیشہ۔ عہد طفلیت میں منائے گئے تہواروں بالخصوص عیدالفطر کی یادیں سدابہار رہتی ہیں۔ آج سے کئی دہائیاں قبل بچپن میں عید منانے والوں کو آج کی عید میں وہ والہانہ پن اور اپنائیت نظر نہیں آتی جو ان کے دور بچپن میں عید کا خاصا ہوا کرتی تھی، ان کے نزدیک نئی نسل عید کا انتظار اور خریداری تو اسی جوش و جذبے سے کرتی ہے مگر جدید سہولتوں نے ان سے عید کی اصل روح کو چھین لیا ہے اور اخلاص و سادگی کی جگہ ریا کاری نے لے لی ہے۔
گزرے وقتوں میں عید کا اعلان سنتے یا دیکھتے ہی لوگ اپنے پیاروں کی درازی عمر، صحت کاملہ، بخشش کی دعائیں مانگتے تھے، بچوں کے غول اعلان چاند ہوتے ہی گلیوں میں شور مچاتے نکل جاتے تھے، شہر میں گھر علاقے کی مسجد سے اونچے نہیں ہوتے تھے، ان میں رومان پرور ایسے بھی ہوتے جو چاند دیکھنے کے بہانے چھت پر چڑھتے تھے، شہر بڑا ہوا تو اونچی عمارتوں نے چاند دیکھنے اور وہ بھی پہلے دن کا ختم کردیا، اسی چاند کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ کسی اپنے کو قریب یا دور ہی سے مبارکباد دینا بھی موقوف ہوا، اب تو موبائل، ٹیلی فون کالز اور پیغامات کے ذریعے ہی کمروں میں بیٹھے عید کے چاند کا پتہ چل جاتا ہے۔ وہ بھی کیا سنہرے دن تھے کہ جب عید کے روز خواتین، بڑے اور بچے محلے میں ایک دوسرے کے گھر جاکر عید کی مبارکباد دیتے، نماز عید کا فریضہ ادا کرتے ہی لوگ آپس کی رنجشوں کو فراموش کرکے گلے ملنے میں پہل کرتے تھے، پہلے تین بار گلے ملتے تھے مگر اب یہ روایت صرف بزرگوں میں ملتی ہے جب کہ نوجوان آپس میں صرف ایک بار کاندھے سے کاندھا چھو کر نہ جانے کون سی روایات کو فروغ دیتے ہیں۔
اہل خانہ اپنے مہمانوں کو میٹھی چیز پیش کرتے اور لوگ ہر گھر سے کم سے کم ایک ایک چمچ کچھ نہ کچھ کھاکر آگے بڑھتے اور یہ سلسلہ شام تک چلتا رہتا تھا۔ اس روز مسلمان علی الصبح اٹھ کر غسل کرتے، چند کھجوریں یا کوئی میٹھی چیز کھاکر بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ یا مسجدوں کی جانب روانہ ہوتے، مسلمان صاف ستھرے اور پاکیزہ لباس زیب تن کیے آنکھیں بشاشت سے روشن اور پیشانیاں عید کی مسرت سے منور نظر آتیں، فضائیں تکبیر کی روح پرور صداؤں سے گونج اٹھتی تھیں، وقت نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ سفید پوش افراد کسی نہ کسی طرح اپنے اور بچوں کے لیے عید کے موقع پر مناسب خریداری کر لیا کرتے تھے لیکن فی زمانہ ہوش ربا گرانی کے دور میں اب عید کی خوشیاں منانا متوسط اور سفید پوش افراد کے لیے بھی مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف متمول گھرانوں کا اسراف بے جا اور دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سفید پوش اور غریب طبقہ اپنے معصوم بچوں کی معصوم خواہشوں کی تکمیل کی بھی سکت نہیں رکھتا، حالانکہ بچے تو بچے ہوتے ہیں، جنھیں مہنگائی اور ارزانی کا کچھ پتہ نہیں۔
ماضی کی اچھی قدریں اور وضع داریاں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا؟ کب اور کس نے حالات کی سنگینی کا بیج بویا؟ خواہشات اور دولت کیلیے ہونے والی میراتھن ریس نے سانسوں میں چنگاریاں بھردیں۔ اخلاقی قدریں ہلنی شروع ہوئیں تو زمین بوس ہوکر ہی رہیں جو باہمی محبتیں کچے گھروں کا خاصا تھیں وہ پختہ مکانوں میں آکر ناپید ہوگئیں، جن چہروں پر اطمینان اور قناعت پسندی کی چاندنی بکھری تھی، ان پر حرص و ہوس کی چمگادڑیں لٹکنے لگیں، نفس فربہ ہوئے تو دل سکڑنے لگے، ہم نے عارضی لمحاتی فوائد کی تاک میں اپنی بے مثال مروت اور رواداری کچل ڈالی۔ شرافت و وضع داری کی جگہ دھن، دولت اور فرقہ وارانہ جہالت ہماری پہچان ٹھہری۔ محبتوں کے نصابوں کی جگہ دشنہ و خنجر جیسی زبانوں نے لے لی۔ گھنے درختوں کی مہربان چھاؤں کیا روٹھی کہ چور قطب اور رہزن رہبر بن گئے۔ حرام و حلال کی تمیز یوں ختم ہوئی کہ اب جہالت میں عظمت اور حرام میں برکت ہے۔ کوے کی طرح ہنس کی چال چلتے ہوئے ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم ان وارثوں کے امین بن بیٹھے ہیں جو کبھی ہمارے تھے ہی نہیں۔ قناعت کی دولت سے خالی ہوئے نہ جانے کتنے ہی سال بیت چکے ہیں مگر دولت ہاتھ آئی ہے اور نہ ہی سکون نصیب ہوسکا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرہ حقیقی مسرتوں کے مفہوم سے بہت دور ہے، اگر ہم خوشی مناتے ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ معاشرے میں لاکھوں افراد خوشیوں اور مسرتوں سے محروم ہیں، اگر ہم ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوسکتے تو کم ازکم ان کی تکلیفوں اور مصائب کا احساس ضرور کرسکتے ہیں۔ عید کی خوشیوں کے موقع پر بھی اللہ اور اس کے پیارے حبیبﷺ نے امت کے مفلوک الحال لوگوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی ہے تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں اور معاشرے میں اعتدال قائم رہ سکے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک گھر میں خوشیوں کے موقع پر گھی کے چراغ جل رہے ہوں اور دوسرے کی کٹیا دیے کی لو سے بھی محروم ہو۔ عید کا تہوار، ہماری ذاتی اور انفرادی زندگی کا حصہ نہیں بلکہ یہ تہوار ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم ایک عالمگیر معاشرے کا حصہ ہیں اور ملت کے ہر فرد سے ہمارا رشتہ محبت استوار ہے جس طرح ہم اپنے رشتے داروں کے دکھ درد سے لاتعلق رہ کر خوشیوں اور مسرتوں کا محل تعمیر نہیں کرسکتے اور ہمیں لامحالہ ان کے غم اور ابتلا میں شریک ہونا پڑتا ہے اسی طرح ہمیں اپنی ملت کا دکھ درد بھی محسوس کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں اپنے ہم وطنوں کی تکالیف اور مصیبتوں کا احساس ہے تو اس کے ساتھ ہی ہمیں شام، مشرق وسطیٰ، برما، کشمیر، فلسطین و دیگر ممالک کے مصیبت زدہ مسلمان بھائیوں کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ اگر ہم عملی طور پر ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی مصیبتوں کے خاتمے کی دعا ہی کرتے رہنا چاہیے۔
عید کا تہوار ہمیں امن و محبت، اتحاد و یگانگت کا درس دیتا ہے، ہمیں دہشتگردی کے واقعات اور دہشتگردوں کے عزائم سے دور عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلیے آپس میں گروہی، لسانی اور فرقہ واریت کو بالائے طاق رکھنا ہوگا تاکہ خوشیوں کے گلہائے رنگ رنگ کی خوش بو سے معاشرے کا چہرہ دمک اٹھے۔ صاحب ثروت اور مال دار طبقے پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عید کی مسرتوں میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ غریب، سفید پوش طبقے کے احساسات و جذبات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے۔
زندگی کے سب لمحے یادگار ہوتے ہیں، لوٹ کر نہیں آتے، ایک بار ہوتے ہیں، بلاشبہ اگر سوچا سمجھا جائے تو حیات رواں کا ہر اک پل دوسرے سے مختلف، منفرد اور ممتاز ہوتا ہے، بیتا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اور نہ ہی مستقبل کی ساعتیں اس کا متبادل ثابت ہوسکتی ہیں۔ حیات انسانی کے مراحل میں سے غالباً بچپن ہی وہ مرحلہ ہے جس سے وابستہ یادیں دل و دماغ پر مرتے دم تک نقش رہتی ہیں۔ بے فکری کے یہ ایام بھلائے نہیں بھولتے، کھانا پینا، کھیلنا کودنا، پڑھائی اور پھر ماں کی آغوش میں سر رکھتے ہی نیند کی حسین وادیوں میں کھو جانا، نہ کوئی غم دوراں اور نہ کوئی فکر و اندیشہ۔ عہد طفلیت میں منائے گئے تہواروں بالخصوص عیدالفطر کی یادیں سدابہار رہتی ہیں۔ آج سے کئی دہائیاں قبل بچپن میں عید منانے والوں کو آج کی عید میں وہ والہانہ پن اور اپنائیت نظر نہیں آتی جو ان کے دور بچپن میں عید کا خاصا ہوا کرتی تھی، ان کے نزدیک نئی نسل عید کا انتظار اور خریداری تو اسی جوش و جذبے سے کرتی ہے مگر جدید سہولتوں نے ان سے عید کی اصل روح کو چھین لیا ہے اور اخلاص و سادگی کی جگہ ریا کاری نے لے لی ہے۔
گزرے وقتوں میں عید کا اعلان سنتے یا دیکھتے ہی لوگ اپنے پیاروں کی درازی عمر، صحت کاملہ، بخشش کی دعائیں مانگتے تھے، بچوں کے غول اعلان چاند ہوتے ہی گلیوں میں شور مچاتے نکل جاتے تھے، شہر میں گھر علاقے کی مسجد سے اونچے نہیں ہوتے تھے، ان میں رومان پرور ایسے بھی ہوتے جو چاند دیکھنے کے بہانے چھت پر چڑھتے تھے، شہر بڑا ہوا تو اونچی عمارتوں نے چاند دیکھنے اور وہ بھی پہلے دن کا ختم کردیا، اسی چاند کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ کسی اپنے کو قریب یا دور ہی سے مبارکباد دینا بھی موقوف ہوا، اب تو موبائل، ٹیلی فون کالز اور پیغامات کے ذریعے ہی کمروں میں بیٹھے عید کے چاند کا پتہ چل جاتا ہے۔ وہ بھی کیا سنہرے دن تھے کہ جب عید کے روز خواتین، بڑے اور بچے محلے میں ایک دوسرے کے گھر جاکر عید کی مبارکباد دیتے، نماز عید کا فریضہ ادا کرتے ہی لوگ آپس کی رنجشوں کو فراموش کرکے گلے ملنے میں پہل کرتے تھے، پہلے تین بار گلے ملتے تھے مگر اب یہ روایت صرف بزرگوں میں ملتی ہے جب کہ نوجوان آپس میں صرف ایک بار کاندھے سے کاندھا چھو کر نہ جانے کون سی روایات کو فروغ دیتے ہیں۔
اہل خانہ اپنے مہمانوں کو میٹھی چیز پیش کرتے اور لوگ ہر گھر سے کم سے کم ایک ایک چمچ کچھ نہ کچھ کھاکر آگے بڑھتے اور یہ سلسلہ شام تک چلتا رہتا تھا۔ اس روز مسلمان علی الصبح اٹھ کر غسل کرتے، چند کھجوریں یا کوئی میٹھی چیز کھاکر بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ یا مسجدوں کی جانب روانہ ہوتے، مسلمان صاف ستھرے اور پاکیزہ لباس زیب تن کیے آنکھیں بشاشت سے روشن اور پیشانیاں عید کی مسرت سے منور نظر آتیں، فضائیں تکبیر کی روح پرور صداؤں سے گونج اٹھتی تھیں، وقت نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ سفید پوش افراد کسی نہ کسی طرح اپنے اور بچوں کے لیے عید کے موقع پر مناسب خریداری کر لیا کرتے تھے لیکن فی زمانہ ہوش ربا گرانی کے دور میں اب عید کی خوشیاں منانا متوسط اور سفید پوش افراد کے لیے بھی مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف متمول گھرانوں کا اسراف بے جا اور دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سفید پوش اور غریب طبقہ اپنے معصوم بچوں کی معصوم خواہشوں کی تکمیل کی بھی سکت نہیں رکھتا، حالانکہ بچے تو بچے ہوتے ہیں، جنھیں مہنگائی اور ارزانی کا کچھ پتہ نہیں۔
ماضی کی اچھی قدریں اور وضع داریاں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا؟ کب اور کس نے حالات کی سنگینی کا بیج بویا؟ خواہشات اور دولت کیلیے ہونے والی میراتھن ریس نے سانسوں میں چنگاریاں بھردیں۔ اخلاقی قدریں ہلنی شروع ہوئیں تو زمین بوس ہوکر ہی رہیں جو باہمی محبتیں کچے گھروں کا خاصا تھیں وہ پختہ مکانوں میں آکر ناپید ہوگئیں، جن چہروں پر اطمینان اور قناعت پسندی کی چاندنی بکھری تھی، ان پر حرص و ہوس کی چمگادڑیں لٹکنے لگیں، نفس فربہ ہوئے تو دل سکڑنے لگے، ہم نے عارضی لمحاتی فوائد کی تاک میں اپنی بے مثال مروت اور رواداری کچل ڈالی۔ شرافت و وضع داری کی جگہ دھن، دولت اور فرقہ وارانہ جہالت ہماری پہچان ٹھہری۔ محبتوں کے نصابوں کی جگہ دشنہ و خنجر جیسی زبانوں نے لے لی۔ گھنے درختوں کی مہربان چھاؤں کیا روٹھی کہ چور قطب اور رہزن رہبر بن گئے۔ حرام و حلال کی تمیز یوں ختم ہوئی کہ اب جہالت میں عظمت اور حرام میں برکت ہے۔ کوے کی طرح ہنس کی چال چلتے ہوئے ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم ان وارثوں کے امین بن بیٹھے ہیں جو کبھی ہمارے تھے ہی نہیں۔ قناعت کی دولت سے خالی ہوئے نہ جانے کتنے ہی سال بیت چکے ہیں مگر دولت ہاتھ آئی ہے اور نہ ہی سکون نصیب ہوسکا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرہ حقیقی مسرتوں کے مفہوم سے بہت دور ہے، اگر ہم خوشی مناتے ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ معاشرے میں لاکھوں افراد خوشیوں اور مسرتوں سے محروم ہیں، اگر ہم ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوسکتے تو کم ازکم ان کی تکلیفوں اور مصائب کا احساس ضرور کرسکتے ہیں۔ عید کی خوشیوں کے موقع پر بھی اللہ اور اس کے پیارے حبیبﷺ نے امت کے مفلوک الحال لوگوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی ہے تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں اور معاشرے میں اعتدال قائم رہ سکے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک گھر میں خوشیوں کے موقع پر گھی کے چراغ جل رہے ہوں اور دوسرے کی کٹیا دیے کی لو سے بھی محروم ہو۔ عید کا تہوار، ہماری ذاتی اور انفرادی زندگی کا حصہ نہیں بلکہ یہ تہوار ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم ایک عالمگیر معاشرے کا حصہ ہیں اور ملت کے ہر فرد سے ہمارا رشتہ محبت استوار ہے جس طرح ہم اپنے رشتے داروں کے دکھ درد سے لاتعلق رہ کر خوشیوں اور مسرتوں کا محل تعمیر نہیں کرسکتے اور ہمیں لامحالہ ان کے غم اور ابتلا میں شریک ہونا پڑتا ہے اسی طرح ہمیں اپنی ملت کا دکھ درد بھی محسوس کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں اپنے ہم وطنوں کی تکالیف اور مصیبتوں کا احساس ہے تو اس کے ساتھ ہی ہمیں شام، مشرق وسطیٰ، برما، کشمیر، فلسطین و دیگر ممالک کے مصیبت زدہ مسلمان بھائیوں کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ اگر ہم عملی طور پر ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی مصیبتوں کے خاتمے کی دعا ہی کرتے رہنا چاہیے۔
عید کا تہوار ہمیں امن و محبت، اتحاد و یگانگت کا درس دیتا ہے، ہمیں دہشتگردی کے واقعات اور دہشتگردوں کے عزائم سے دور عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلیے آپس میں گروہی، لسانی اور فرقہ واریت کو بالائے طاق رکھنا ہوگا تاکہ خوشیوں کے گلہائے رنگ رنگ کی خوش بو سے معاشرے کا چہرہ دمک اٹھے۔ صاحب ثروت اور مال دار طبقے پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عید کی مسرتوں میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ غریب، سفید پوش طبقے کے احساسات و جذبات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے۔