جب ضیا آمریت مسلط ہوئی

قبل اس کے کہ 5 جولائی 1977 کو نافذ ہونے والے مارشل لا کا تذکرہ کیا جائے



قبل اس کے کہ 5 جولائی 1977 کو نافذ ہونے والے مارشل لا کا تذکرہ کیا جائے، مناسب ہوگا 5 جولائی 1977 سے قبل کے حالات و واقعات پر ایک نظر ڈالی جائے کہ وہ حالات و واقعات کیا تھے جوکہ ملک میں مارشل لا کا باعث بنے۔ گوکہ 16 دسمبر 1971 کا سقوط ڈھاکہ کا سانحہ برپا ہوچکا تھا مگر اس کے باوجود 1971 کے بعد پاکستانی قوم کو ایک اطمینان ضرور ہوچکا تھا کہ اب ملک کم سے کم جمہوریت کی راہ پر چل پڑا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جن کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو 20 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار سونپا گیا تھا، ان کا طرز حکومت ایسا نہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف نہ کیا جاسکے، البتہ جن حالات میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا تھا وہ حالات کوئی مثالی حالات نہ تھے، کیونکہ اس وقت پاکستان نہ صرف 1971 کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں ایک شکست خوردہ ملک تھا، بلکہ ملک کے نصف حصے مشرقی پاکستان سے بھی محروم ہوچکا تھا۔ پاکستان کے 90 ہزار فوجی و عام شہری بھارت کی قید میں تھے۔

موجودہ پاکستان کا وسیع رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے اپنی مرضی کے مطابق معاہدہ شملہ پر دستخط کروائے، 90 ہزار پاکستانی فوجی و عام شہری بھارت کی قید سے آزاد کروائے، لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا، 1973 کا متفقہ آئین قوم کو دیا، ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول، پاکستانی تاریخ کی کامیاب ترین خارجہ پالیسی، یہ تھے بھٹو حکومت کے چند اہم ترین اقدامات، چنانچہ اپنے انھی اقدامات کے باعث ذوالفقار علی بھٹو پرامید تھے کہ وہ آنے والے عام انتخابات میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔

اسی باعث ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت عام انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا اور 19 ماہ قبل ہی یعنی جنوری 1977 میں قومی و چاروں صوبائی اسمبلیاں ختم کردی گئیں اور 7 مارچ 1977 کو قومی و اس کے 3 یوم بعد 10 مارچ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اب کیفیت یہ تھی ایک جانب واحد پاکستان پیپلز پارٹی تھی جب کہ اس کے مدمقابل 9 جماعتی حزب اختلاف کا اتحاد تھا، یعنی پاکستان نیشنل الائنس PNA، بھٹو مخالف سیاسی اتحاد میں ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان، میاں طفیل محمد، مولانا شاہ احمد نورانی، بیگم نسیم ولی خان و مولانا مفتی محمود وغیرہ قابل ذکر ہیں، جوکہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔

مارچ 1977 کے عام انتخابات میں بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ دیا یعنی روٹی، کپڑا اور مکان۔ جب کہ PNA کا نعرہ ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ تھا۔ انتخابات میں بدترین شکست کے بعد PNA کے رہنماؤں نے ان انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا، ملک میں تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور اس تحریک کو نظام مصطفیٰ تحریک کا نام دیا گیا۔ PNA والوں نے اس تحریک کو گویا اسلام و کفر کی جنگ بنادیا۔ اس نظام مصطفیٰ تحریک میں دینی مدارس کے طالب علموں کو خوب استعمال کیا۔

سیاسی مخالفین کی املاک و عوامی ٹرانسپورٹ کو خوب نذر آتش کیا گیا۔ مگر اس کے باوجود ممکن تھا کہ یہ تحریک ناکام ہوجاتی کہ اس موقع پر سقوط ڈھاکا کے وقت بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو اپنے جلسوں میں لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ صاحب اپنی ہر تقریر میں خود کو سقوط ڈھاکا سے بری الذمہ قرار دیتے اور بنگلہ دیش کے قیام کا ذوالفقار علی بھٹو کو ذمے دار ٹھہراتے، جب کہ سامراجی قوتیں بھی اس بھٹو مخالف تحریک کا حصہ بن چکی تھیں۔ پاکستان میں ہر چھوٹے بڑے احتجاج کی رپورٹنگ ہر شام برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (BBC) سے ان کے نمائندے مارک ٹیلی کی زبانی پیش کی جاتی۔ چرب زبان مارک ٹیلی اس احتجاجی تحریک کے دوران چھوٹے چھوٹے واقعات بھی خوب نمک مرچ لگا کر پیش کرتا۔

الغرض یہ احتجاجی تحریک کوئی چار ماہ تک چلی۔ پاکستان میں سیاسی حالات غیر یقینی کا شکار ہوچکے تھے کہ 4 اور 5 جولائی 1977 کی درمیانی شب PNA اور ذوالفقار علی بھٹو والوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جوکہ نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ ان مذاکرات میں یہ طے ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوجائیں گے، اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی، نگران سیٹ اپ لایا جائے گا اور ملک بھر میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ عین اسی موقع پر فوج کا ایک سپاہی ذوالفقار علی بھٹو کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ سر! آپ کی حکومت ختم کردی گئی ہے، اقتدار فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیا الحق پر اندھا اعتماد کرتے تھے، یہ اعتماد بے وجہ نہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سات سینئر ترین جنرلز کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لا کی خبر دینے والے فوجی سے کہا کہ ضیا الحق کو گولی کس نے ماری ہے؟ سر! انھوں نے ہی تو مارشل لا نافذ کیا ہے، اس فوجی جوان کا جواب تھا اور یہ جواب ذوالفقار علی بھٹو پر سکتہ طاری کرنے کے لیے کافی تھا۔

5 جولائی 1977 کی صبح ریڈیو پاکستان سے آمر ضیا الحق کی میرے ہم وطنو! کی صدا گونج رہی تھی اور 90 روز میں عام انتخابات کروانے کا وعدہ کیا جارہا تھا، جب کہ 1973 کا متفقہ آئین معطل کردیا گیا، یہ کہہ کر کہ یہ آئین کوئی مقدس صحیفہ نہیں ہے، ایک چند صفحات کی کتاب ہی تو ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر 1974 میں قتل ہونے والے نواب محمد رضا قصوری کا مقدمہ قائم کردیا گیا۔ اسی مقدمے کے دوران ضیا الحق کی یہ گفتگو بھی سامنے آئی کہ قبر ایک ہے بندے دو ہیں چنانچہ ایک کو تو قبر میں جانا ہے۔ یہ الفاظ اعتراف تھا کہ ضیا الحق خود بھی آئین شکن ہیں اور آئین شکنی کی سزا موت ہے۔ چنانچہ 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو قبر میں اتار دیا گیا۔

1979 کے بالکل اختتام پر افغانستان میں انقلاب برپا ہوگیا، اس موقع پر افغانستان انقلاب مخالفین کے لیے پاک افغان سرحد کھول دی گئی، افغانیوں کی آمد سے پاکستانی قوم نشہ آور اشیا و کلاشنکوف سے متعارف ہوئی۔ 1983 میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد تحریک بحالی جمہوریت MRD نے حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو آمر ضیا الحق نے غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کردیا، گویا 18 ماہ بعد عام انتخابات ہونا قرار پائے۔ فروری 1985 میں یہ انتخابات ہوئے اور محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ البتہ ان غیر جماعتی انتخابات کا نقصان یہ ہوا کہ قوم قبیلوں، برادریوں، لسانی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوگئی اور یہ تقسیم آج تک قائم ہے۔ دوم یہ عام انتخابات نہ صرف غیر جماعتی تھے بلکہ غیر نظریاتی بھی تھے۔

سوم محمد خان جونیجو بے اختیار وزیراعظم تھے ۔ البتہ جونیجو دور حکومت نے ایک نئی چیز متعارف کرائی جس کا نام ہے کرپشن۔ ثبوت کے لیے ضیا الحق کی 30 اپریل 1988 کی وہ تقریر موجود ہے جو انھوں نے جونیجو حکومت کو برطرف کرنے کے اگلے روز کی اور جونیجو حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے، جب کہ اپنے 11 سالہ دور حکومت میں وہ بھٹو حکومت پر اس قسم کے الزامات نہ لگا سکے۔ جب کہ آج کے دہشت گرد ضیا الحق کے دور میں مجاہدین تھے جن کی تمام قسم کی مالی معاونت و عسکری تربیت کی گئی، وہ مجاہدین آج ہماری ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں، جب کہ ضیا الحق کے بلائے گئے افغانی مہمان ہمارے لیے بلائے جان بنے ہوئے ہیں۔

یہ افغانی مہمان جب آئے تھے تو 30 لاکھ ضرور تھے، آج یہ ایک کروڑ ہیں اور ستم بالائے ستم یہ افغانی مہمان اپنے وطن افغانستان جانے کو تیار نہیں ہیں۔ بلاشبہ فوجی آمریت بدترین ہے مگر فوجی آمریت کے بدلے سرمایہ داری آمریت کیوں قبول کریں؟ جیسے کہ اس وقت ملک میں جمہوریت کے نام پر سرمایہ داری آمریت قائم ہے۔ چنانچہ ہمیں حقیقی عوامی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، بھرپور قوت کے ساتھ کامیابی کے یقین کے ساتھ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں