یورپ کے تیسرے بڑے ہوائی اڈے پرموت کارقص

استنبول ائیرپورٹ پرخودکش حملے کے بعد ترکی کی سیاحت ختم ہو سکتی ہے

استنبول ائیرپورٹ پرخودکش حملے کے بعد ترکی کی سیاحت ختم ہو سکتی ہے ۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
ترکی کے اتا ترک ہوائی اڈے کو یورپ کا تیسرا مصروف ترین ایئر پورٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اس ائیرپورٹ پر دہشت گردی کے تازہ حملے کے بعد ترکی میں تین دن تک سرکاری سطح پر سوگ منایا گیا جب کہ سوگ کی یہ کیفیت اب تک محسوس کی جارہی ہے۔اتاترک ایئر پورٹ 29 جون بدھ کی صبح پروازوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا تووہاں ہر طرف ویرانی کا راج تھا۔

زمینی عملے نے بدھ تک دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں بکھرنے والے ملبے اور تاروں کو صاف کرنے کے لیے دن رات کام کیا اور اس دوران سکیورٹی اہل کاروں کی ایک بڑی تعداد ہوائی اڈے پر گشت کرتی رہی۔ دہشت گردوں کاہدف ٹرمینل کا داخلی راستہ تھا لیکن ناکامی کے بعد ایک دہشت گرد نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی اور پھر مایوسی کے عالم میں تینوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔استنبول میں ہونے والا دھماکوں میں خودکش حملہ آور خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے عموماً دولت اسلامیہ اس طرح سے حملہ کرتی ہے۔

روئٹرز کے مطابق سکیورٹی اہل کاروں نے مشتبہ حملہ آوروں کو ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر روکنے کے لیے فائرنگ کی ۔ جب کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس افسر ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہونے والے ایک حملہ آور پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کرتا ہے اور فرش پر پڑا زخمی حملہ آور اسی دوران خود کو دھماکے سے اُڑا لیتا ہے۔

تادم تحریرکسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملوں میں خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم ملوث ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ استنبول ایئر پورٹ پر حملوں کا مقصد معصوم لوگوں کے خون اور تکلیف کے ذریعے ان کے ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن موقف اپنائے۔

دھماکوں کے وقت ایئر پورٹ پر موجود جنوبی افریقہ کے دو سیاحوں پال اور سوزی رؤس کے مطابق وہ واپس اپنے ملک جانے کے لیے ایئر پورٹ پر پہنچے تھے۔ انہوں نے امریکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا 'ہم پروازوں کی آمد کے ٹرمینل سے سڑھیوں کے ذریعے اوپری منزل پر روانگی کے ٹرمینل پر پہنچے کہ اس دوران فائرنگ شروع ہو گئی، وہاں ایک شخص فائرنگ کر رہا تھا اور اس نے کالے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں دستی بم بھی تھا۔حملے میں بچ جانے والے عثمان اکثر کا کہنا ہے 'میں ایئر پورٹ پر اپنے تین سوٹ کیسوں کو ریپ کروا رہا تھا کہ اچانک میں نے دھماکے کی آواز سنی۔ پولیس نے ہمیں نیچے لیٹ جانے کو کہا۔ سوٹ کیسوں پر کور چڑھانے والی مشین کی وجہ سے ہم فائرنگ کے تبادے سے محفوظ رہے۔ا

نہوں نے بتایا کہ 'پولیس جب کہ پولیس حملہ آوروں پر فائرنگ کر رہی تھی کہ اْس کے بعد ایک اور دھماکا ہوا اور ہمارے ارد گرد تمام افراد اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ اس دوران ہجوم جمع ہو گیا اور لوگوں نے الٹ سمت میں بھاگنا شروع کر دیا۔ سب لوگ دھماکوں اور فائرنگ کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن تمام کے تمام پھنسے ہوئے تھے اور کوئی بھی واضح طور پر نہیں جانتا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ تقریباً تین گھنٹے بعد ایئرپورٹ اہلکاروں نے کہا کہ ہم ائیر پورٹ سے جا سکتے ہیں۔

ایک اور عینی شاہد 29 سالہ ول کارٹر کے مطابق پہلے دھماکے کے بعد میں چوکنا ہو گیا لیکن کیونکہ میں جنگ زدہ علاقوں میں اس سے پہلے بطور امدادی کارکن کام کر چکا ہوں اسی لیے میرے لیے یہ نئی بات نہیں تھی۔ گوکہ میں پریشان تھا کہ اچانک دوسرا دھماکہ ہوا، جس کے بعد میں نے چیخ کر کہا کہ سب ایمرجنسی دروازے کی جانب چلو اور پھر کچھ ہی سکینڈوں کے بعد تیسرا دھماکہ ہوگیا۔ ہم نے دوسری سمت میں بھاگنا شروع کیا اور ایک مقام پر پناہ لی۔ استنبول میں ایک فری لانس صحافی کا کہنا ہے کہ ترک عوام میں تازہ حملوں کے بعد سکیورٹی پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ ترکی میں سکیورٹی کی صورت حال پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔

ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، لیکن شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہے جو ان کے بقول ترکی کے روس اور اسرائیل کے ساتھ سرد مہری کے شکار تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششوں کا ردعمل ہو سکتا ہے۔مختلف عالمی رہنما ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو فون کر کے ان سے اس واقعے پر تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔ترک صدر کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی مذہب اور روایات کا احترام نہیں کرتی۔ لیکن ان کے بقول ترکی دہشت گردی کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑائی کا عزم اور صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کی ذمہ داری تو تاحال کسی نے قبول نہیں کی لیکن ترکی اس کا الزام عسکریت پسند گروپ پر عائد کر چکا ہے۔اس واقعے پر ترکی میں سوگ کی فضا برقرار ہے اور بدھ کو قومی پرچم سرنگوں رہا۔استنبول کے گورنر کے دفتر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں کی اس تعداد میں خود کش حملہ آوروں کو شمار نہیں کیا گیا۔ ''اگر انہیں بھی شمار کیا جائے تو ہلاک شدگان کی تعداد 44 بنتی ہے۔نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس حملے کا مقصد بظاہر ترکی میں سیاحت کی اس صنعت کو نشانہ بنانا تھا، جو انقرہ حکومت کے لیے سالانہ بنیادوں پر غیر ملکی زر مبادلہ کی کمائی کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔


ترکی میں گذشتہ ایک برس کے دوران دہشت گردی کے جنتے واقعات ہوئے؟
ترکی ستمبر 2014 میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف قائم کیے جانے والے بین الاقوامی اتحاد میں شامل ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ترکی میں شدت پسندانہ حملوں میں تیزی آئی ہے۔ترکی کو صرف اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی کا ہی سامنا نہیں ہے بل کہ کرد شدت پسند بھی انقرہ حکومت اور ترک عوام کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ترکی میں جولائی 2015 کے بعد سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تفصیل یہ ہے۔

28 جون 2016 :استنبول کے اتا ترک ہوائی اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران 36 افراد ہلاک اور تقریباً 150 زخمی ہو گئے اوردو دن بعد مرنے والوں کی تعداد بڑھ کے50 کے قریب ہوگی جب مزید زخمیوں کے اسپتال پہچنے پر یہ تعداد بڑھ کے300 تک چلی گئی ۔ ترک حکام نے اس کارروائی کا ذمہ دار دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کو قرار دیا ہے۔

19 مارچ 2016 :اس روز بھی دہشت گردوں کا نشانہ استنبول ہی تھا۔ اس مرتبہ شہر کے گنجان آباد علاقے میں ہونے والے خود کش حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے بعد میں زخمی ہونے والوں کی ہلاکت سے یہ تعداد 12 ہوگئی تھی۔ حکام کے مطابق خود کش بمبار اسلامک اسٹیٹ سے ہمدردی رکھنے والا ایک ترک شہری تھا۔ اسی وجہ سے اس حملے کی ذمہ داری بھی آئی ایس پر ڈالی گئی حالاںکہ اس گروپ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

13 مارچ 2016:ایک کرد خاتون نے دارالحکومت انقرہ کے ایک مصروف علاقے میں اپنی کار کو دھماکے سے اڑا لیا۔اس دھماکے میں37 افراد ہلاک ہوئے۔اس واقعے کی ذمہ داری کردستان فریڈم فیلکن ' ٹی اے کے' نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔

17 فروری 2016:اس مرتبہ دہشت گردوں کا نشانہ ترک فوج تھی۔ اس خود کش کار بم حملے میں29 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ کردستان فریڈم فیلکن کے بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے ترک فوج کی جانب سے کرد علاقوں میں فوجی آپریشن کے رد عمل میں یہ حملہ کیا تھا۔

12 جنوری 2016:استنبول کے تاریخی علاقے میں ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔اس واقعے میں بارہ جرمن سیاح ہلاک ہوئے تھے۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ حملہ کرنے والا ایک شامی باشندہ تھا، جو ایک پناہ گزین کے طور پر ترکی میں داخل ہوا تھا۔

10 اکتوبر 2015 :یہ ترکی کی تاریخ کا ایک خونریز ترین دن تھا۔ اس روز دہشت گردوں نے انقرہ میں ایک عوامی جلوس کو نشانہ بنایا۔ شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے باہر ہونے والے دوہرے خود کش حملوں میں 102 شہری لقمہ اجل بنے۔ کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں ہے تاہم ترک حکام کے مطابق یہ اسلامک اسٹیٹ کی ایک مقامی شاخ کی کارستانی تھی۔

20 جولائی 2015 :ایک کرد نڑاد ترک باشندے نے ملک کے جنوبی حصے سوروچ میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس واقعے میں 33 افراد ہلاک اور تقریباً 100 زخمی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر کرد ہی تھے۔ حکام نے اس واقعے کی ذمہ داری بھی اسلامک اسٹیٹ پر عائد کی تھی۔

یاد رہے گذشتہ ایک سال سے ترکی میں کردش ملیشیا اور دولتِ اسلامیہ کے حملوں سے سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ استنبول پر حملے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عوامی اور سیاحتی مقامات پر جاتے وقت ہوشیار رہیں۔ استنبول کا کمال اتاترک ایئر پورٹ یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ تھا اورگذشتہ برس چھ کروڑ دس لاکھ مسافروں نے اسے استعمال کیا۔ ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں اور حکومت کے درمیان کشیدگی اور ہمسایہ ملک شام میں جاری تنازع کی وجہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
Load Next Story