’’ چوہے ٹڈے اور گھاس پُھوس کھاؤ ‘‘ ملاوی کے صدر بھی اسحاق ڈارکے نقش قدم پر
غذائی اشیاء کی گرانی اور عدم دستیابی پر عوام کو نادر مشورہ
حال ہی میں پاکستان کے وزیرخزانہ، عزت مآب جناب اسحاق ڈار نے عوام کو منہگائی سے نجات پانے کا نادر نسخہ بتایا کہ اگر ملک میں دال کے نرخ آسمان کو چُھونے لگے ہیں تو کیا ہوا۔۔۔۔۔عوام مرغی کا گوشت کھانا شروع کردیں۔
وزیرموصوف کو شائد علم نہیں ہے کہ جب سے ان کی جماعت اقتدار میں آئی ہے کوئی بھی شے سستی نہیں رہی۔ انھیں منہگائی کا اندازہ ہو بھی کیسے سکتا ہے، ان کا تعلق ملک کے اس طبقے سے ہے جو نہیں جانتا کہ گرانی کس چڑیا کا نام ہے۔ غالباً تمام پس ماندہ ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے حوالے سے صورت حال ایک ہی جیسی ہے۔ مفلوک الحال عوام کے کھرب پتی حکمران قصر اقتدار میں بیٹھ کر ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے کرتے ہیں اور اگر اتفاق سے ان کے کانوں تک کوئی ایسی بات پہنچ جائے کہ عوام منہگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں تو پھر اس قسم کے نادر مشورے دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار کی جانب سے پاکستانی عوام کو دیے جانے والے مشورے کی بھنک غالباً ملاوی کے صدر کے کانوں میں بھی پڑ گئی ہے۔ افریقی ملک میں منہگائی کی صورت حال پاکستان سے زیادہ سنگین ہے۔ وہاں خوراک کا بحران جنم لے چکا ہے۔ غذائی اشیاء کی قلت کے باعث نرخ آسمان کو چُھونے لگے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد دو وقت روٹی کھانے سے محروم ہے۔ بھوک کی وجہ سے اموات بھی ہونے لگی ہیں۔
غذائی اشیاء کی گرانی سے تنگ عوام کو ملک کے صدر پیٹر متھاریکا نے یہ نادر شاہی مشورہ دیا ہے کہ اگر اشیائے خوراک دستیاب نہیں ہیں تو پھر چوہے اور ٹڈے کھانا شروع کردیں! صدر مملکت نے یہ مشورہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ خطاب کے دوران صدر نے لوگوں سے کہا کہ حکومت غذائی قلت دور کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔ انھیں تسلی رکھنی چاہیے کہ جلد ہی خوراک کا بحران ختم ہوجائے گا۔ کسی نے بھوک کی وجہ سے لوگوں کی ہلاکت کی جانب توجہ دلائی تو صدر نے ارشاد فرمایا کہ جب دوسری چیزیں کھانے کے لیے دستیاب ہیں تو پھر لوگ بھوک سے کیوں مر رہے ہیں؟ وہ چوہے، ٹڈے اور گھاس پھوس کیوں نہیں کھاتے؟
صدرکے اس بیان پر حزب مخالف کی جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عوام کی جانب سے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن بلی مایایا نے صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ حکمران ہونے کے ناتے وہ اپنے کہے پر عمل کریں اور پہلے خود چوہے اور ٹڈے کھائیں! صدر کو ظالم اور بے حس قرار دیتے ہوئے کئی لوگوں نے ان سے اقتدار سے علیٰحدہ ہونے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملاوی کے عوام بھی پاکستانی عوام کی طرح سیدھے سادے ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ تیسری دنیا کے حکمرانوں میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکامی پر ازخود اقتدار سے علیٰحدہ ہوجائیں۔
وزیرموصوف کو شائد علم نہیں ہے کہ جب سے ان کی جماعت اقتدار میں آئی ہے کوئی بھی شے سستی نہیں رہی۔ انھیں منہگائی کا اندازہ ہو بھی کیسے سکتا ہے، ان کا تعلق ملک کے اس طبقے سے ہے جو نہیں جانتا کہ گرانی کس چڑیا کا نام ہے۔ غالباً تمام پس ماندہ ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے حوالے سے صورت حال ایک ہی جیسی ہے۔ مفلوک الحال عوام کے کھرب پتی حکمران قصر اقتدار میں بیٹھ کر ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے کرتے ہیں اور اگر اتفاق سے ان کے کانوں تک کوئی ایسی بات پہنچ جائے کہ عوام منہگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں تو پھر اس قسم کے نادر مشورے دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار کی جانب سے پاکستانی عوام کو دیے جانے والے مشورے کی بھنک غالباً ملاوی کے صدر کے کانوں میں بھی پڑ گئی ہے۔ افریقی ملک میں منہگائی کی صورت حال پاکستان سے زیادہ سنگین ہے۔ وہاں خوراک کا بحران جنم لے چکا ہے۔ غذائی اشیاء کی قلت کے باعث نرخ آسمان کو چُھونے لگے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد دو وقت روٹی کھانے سے محروم ہے۔ بھوک کی وجہ سے اموات بھی ہونے لگی ہیں۔
غذائی اشیاء کی گرانی سے تنگ عوام کو ملک کے صدر پیٹر متھاریکا نے یہ نادر شاہی مشورہ دیا ہے کہ اگر اشیائے خوراک دستیاب نہیں ہیں تو پھر چوہے اور ٹڈے کھانا شروع کردیں! صدر مملکت نے یہ مشورہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ خطاب کے دوران صدر نے لوگوں سے کہا کہ حکومت غذائی قلت دور کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔ انھیں تسلی رکھنی چاہیے کہ جلد ہی خوراک کا بحران ختم ہوجائے گا۔ کسی نے بھوک کی وجہ سے لوگوں کی ہلاکت کی جانب توجہ دلائی تو صدر نے ارشاد فرمایا کہ جب دوسری چیزیں کھانے کے لیے دستیاب ہیں تو پھر لوگ بھوک سے کیوں مر رہے ہیں؟ وہ چوہے، ٹڈے اور گھاس پھوس کیوں نہیں کھاتے؟
صدرکے اس بیان پر حزب مخالف کی جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عوام کی جانب سے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن بلی مایایا نے صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ حکمران ہونے کے ناتے وہ اپنے کہے پر عمل کریں اور پہلے خود چوہے اور ٹڈے کھائیں! صدر کو ظالم اور بے حس قرار دیتے ہوئے کئی لوگوں نے ان سے اقتدار سے علیٰحدہ ہونے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملاوی کے عوام بھی پاکستانی عوام کی طرح سیدھے سادے ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ تیسری دنیا کے حکمرانوں میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکامی پر ازخود اقتدار سے علیٰحدہ ہوجائیں۔