ایلون ٹوفلر دنیا یکسر بدلنے والی ہے پہلا حصہ

وہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پیدا ہوا اور چند دنوں پہلے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اس جہان سے گزر گیا


Zahida Hina July 05, 2016
[email protected]

KARACHI: وہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پیدا ہوا اور چند دنوں پہلے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اس جہان سے گزر گیا۔ دنیا میں ستارہ شناسوں کی کبھی کمی نہیں رہی، انسانی تاریخ میں جادو ٹونے، بارشوں کے برسنے اور چاند یا سورج گرہن کی پیش گوئی کرنے والے شمنوں کو نیم دیوتاؤں کی حیثیت حاصل تھی۔ سماج ارتقائی مراحل سے گزرا تو ستارہ شناس ملکوں، قوموں اور انسانوں کے مستقبل کا احوال بیان کرنے لگے۔

ناسٹرا ڈیمس سے کیرو اور جین ڈکسن تک سب ہی کی پیش گوئیاں لوگ شوق سے پڑھتے تھے اور آج بھی دنیا کے ہر اخبار میں ''یہ دن کیسا رہے گا'' اور ''یہ ہفتہ کیسا گزرے گا'' جیسے کالم چھپتے ہیں اور سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ مستقبل میں جھانک کر دیکھنے اور پیش گوئیاں کرنے والے ہر عہد میں مقبول رہے لیکن ایلون ٹوفلر بیسویں صدی کا شاید سب سے بڑا مستقبل شناس تھا۔

اس نے ستاروں کی چال دیکھ کر کبھی پیش گوئی نہ کی، یہ اس کا شعبہ ہی نہیں تھا۔ اس نے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی۔ وہ دیوانوں کی طرح عالمی ادب اور شاعری پڑھتا۔ ریاضی اور سائنس سے اسے قطعاً دلچسپی نہ تھی۔ وہ ادیب یا صحافی بننا چاہتا تھا لیکن تقدیر شاید اسی کو کہتے ہیں کہ ایلون اور ہیڈی جو کالج کے ابتدائی دنوں سے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے اور مستقبل میں شاعری کرنا اور نظمیں لکھنا چاہتے تھے، وہ مستقبل شناسی کی راہ پر چل نکلے۔ ابتدا میں ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ خواہ ٹیکنالوجی اور سائنس میں اس کا دل نہ لگتا ہو لیکن ان دونوں سے نجات نہیں، اسی لیے اس نے ٹیکنالوجی کی تاریخ میں ایک خصوصی کورس کیا اور بقول اس کے '' پھر میں پڑھتا چلا گیا، پڑھتا چلا گیا... پڑھتا چلا گیا۔''

اس کا شمار بیسویں صدی کے بڑے دانشوروں اور ماہرین سماجیات میں ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں اس کی پہلی کتاب 'فیوچر شاک' منظر عام پر آئی تو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ 'فیوچر شاک' کا قصہ 1965 میں شروع ہوا، جب آئی بی ایم کمپنی نے اسے کمپیوٹر کے سماج پر اثرات کے بارے میں لکھنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد اس نے ایک مشہور امریکی جریدے میں اس موضوع پر لکھا کہ ہم انسانوں کو بہت کم وقت میں بہت زیادہ تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ معلومات کا سیلاب ہے جو انھیں بہائے لیے جارہا ہے اور انھیں سانس لینے کی مہلت نہیں دیتا۔ یہ وہ بنیادی بات تھی جس پر ٹوفلر اور اس کی بیوی ہیڈی نے 1970ء میں اپنی پہلی کتاب 'فیوچر شاک' لکھی۔ یہ کتاب اب 45 برس پرانی ہوچکی ہے لیکن آج بھی اس کی مانگ میں کمی نہیں آئی۔

ہم ایک ایسے زمانے میں زندہ ہیں جب کہ دہشت گرد بے بس یرغمالیوں کے ساتھ موت کا کھیل کھیلتے ہیں۔ تیسری جنگ عظیم کے آغاز کی افواہوں کے سبب زر مبادلہ کی منڈیاں ڈانواں ڈول ہوتی ہیں۔ سفارتخانے جلائے جاتے ہیں اور چھاپہ مار فوجی کسی بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہم سب ہر صبح اخبار کھول کر ان شہ سرخیوں کو دہشت سے دیکھتے ہیں۔ اس صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے ہر طرف سے یہ آواز آرہی ہے کہ دنیا کا خاتمہ قریب آپہنچا ہے۔ سڑک پر چلنے والے کسی بھی آدمی سے بات کیجیے وہ یہی کہے گا کہ ساری دنیا پاگل ہوچکی ہے، جب کہ ماہرین کی رائے میں بھی تمام رجحانات اس کی نشاندہی کررہے ہیں کہ دنیا تباہی کی طرف بڑھ ہی ہے۔ لیکن یہ کتاب ان تمام باتوں سے قطعی مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔

ایلون ٹوفلر نے عام افراد کی روزمرہ زندگی کی تیز رفتاری کی پیش گوئی کی تھی اور اس نے اب سے 45 برس پہلے یہ کہا تھا کہ اطلاعات کی فراوانی انسان کو شدید دباؤ کا شکار کردے گی۔ اس نے ماں باپ اور بچوں پر مشتمل خاندان کی شکست و ریخت کے بارے میں بھی کہا تھا۔ ہم ابھی تک ایک پھیلے ہوئے کنبے کے تصور سے باہر نہیں نکلے ہیں لیکن اس نے کہا کہ وہ وقت جلد آرہا ہے جب گھریلو زندگی اور دوستی کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ انسانوں کی زندگی میں کمپیوٹر خاندان کے ایک فرد کی طرح شامل ہوجائے گا، اسی طرح اس نے انٹرنیٹ، کیبل ٹیلی وژن اور ٹیلی کمیونیکیشن کے نئے ذرایع کے سامنے آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کا اور ہیڈی کا کہنا تھا کہ آنے والا وقت ہم جنس پرستی کے ابھار کا زمانہ ہوگا، ہم جنس پرستوں کے درمیان شادیاں ہوں گی۔ اسی طرح اس نے دہشت گردی کے عروج کے معاملات بھی بیان کیے تھے ۔

ہم اس کی تحریروں کی روشنی میں آج اگر اپنے سماج کو دیکھتے ہیں تو وہ اتنا بدلا ہوا نظر آتا ہے کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ ہمارے بزرگوں کو نوجوانوں سے بطور خاص یہ شکایت ہے کہ جب سے موبائل آیا ہے، اس نے لوگوں کو بظاہر ایک دوسرے سے قریب کیا ہے، لیکن درحقیقت وہ ایک دوسرے سے دور ہوچکے ہیں۔ کسی گھر یلو دعوت یا شادی کی محفل کو دیکھیے تو وہاں موجود بیشتر افراد ایک دوسرے سے محو گفتگو ہونے کے بجائے موبائل اسکرین پر نگاہیں جمائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی انگلیاں کی پیڈ پر تھرک رہی ہوتی ہیں، بعض حالات میں تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی کمرے میں موجود دوست ایک دوسرے سے روبرو ہونے کے باوجود 'چیٹنگ' کے ذریعے بات کررہے ہوتے ہیں۔

'فیوچر شاک' کے بعد اس کی دوسری کتاب 'تیسری لہر' شایع ہوئی۔ 80 کی دہائی میں شایع ہونے والی اس کتاب میں اس نے لکھا کہ تبدیلی کی یہ لہر ناقابل یقین حد تک تیز خوفناک طوفان کی طرح کان پھاڑ دینے والی ہے۔ یہ اتنی طاقتور ہے کہ صدیوں اور بعض حالات میں ہزاروں برس پرانے جمے جمائے اداروں کو تہس نہس کررہی ہے اور ہماری اقدار کو جڑوں سے ہلا رہی ہے۔

تبدیلی کا یہ عمل ہمارے مستقبل پر اثر انداز ہورہا ہے اور ہماری زندگیوں کو فتح کررہا ہے۔ اس کی دوسری کتاب 'تیسری لہر' 'فیوچر شاک' سے کہیں تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ جولائی 1999ء کے 'روشن خیال' میں ٹوفلر کی اس کتاب کا میں نے ترجمہ شروع کیا جو قسط وار شایع ہوا۔ وہ انسانی تہذیب کی تاریخ کو تین لہروں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ: تین سو سال یا اس سے پچاس برس پہلے یا بعد، ایک ایسا دھماکا ہوا جس کا جھنجوڑ کر رکھ دینے والا ارتعاش ساری دنیا میں محسوس کیا گیا۔ اس دھماکے نے قدیم معاشروں کو زمیں بوس کردیا اور ایک بالکل نیا تمدن وجود میں آنے لگا۔ یہ صنعتی انقلاب کا دھماکا تھا۔ ایک دیوپیکر قوت، دوسری لہر کی صورت میں اٹھی اور اس نے ساری دنیا کو تہہ و بالا کردیا۔

ہزاروں برسوں پر پھیلے ہوئے اس طویل دور میں جب پہلی لہر کا تمدن بلا شرکت غیرے ساری دنیا پر حکومت کررہا تھا، اس وقت اس کرۂ ارض کی آبادی دو حصوں یا درجوں میں تقسیم کی جاسکتی تھی، پہلا حصہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو 'وحشی' تھے اور دوسرا حصہ 'مہذب' افراد پر مشتمل تھا۔ یہ نام نہاد وحشی افراد چھوٹے چھوٹے گروہوں اور قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے۔ ان لوگوں کی گزران پھل جمع کرنے، چوپایوں اور مچھلی کے شکار پر منحصر تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن پر زرعی انقلاب اثر انداز نہیں ہوا تھا۔ اس کے برعکس مہذب دنیا وہ تھی جس کے بیشتر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ جہاں جہاں زراعت نے فروغ پایا، تمدن نے اپنی جڑیں وہیں پھیلانا شروع کیں، چین سے ہندوستان، میکسیکو، یونان اور روم تک مختلف تمدنوں کو عروج و زوال ہوا۔ یہ تمدن آپس میں دست و گریباں رہے اور ان کی رنگا رنگ آویزش و آمیزش جاری رہی۔

یہی وہ دنیا تھی جس میں صنعتی انقلاب کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا جس کے نتیجے میں دوسری لہر کا عہد شروع ہوا اور ایک طاقتور، اجنبی، توانائی سے چھلکتا ہوا مختلف تمدن وجود میں آیا۔ صنعتی نظام محض جہاز کے دودبانوں سے اٹھتے ہوئے دھویں اور کارخانوں میں بننے والی اشیاء کے ذخائر کا نام نہیں تھا، یہ اس سے کہیں زیادہ معنویت کا حامل تھا۔ یہ ایک ایسا پُرمایہ اور متعدد جہتیں رکھنے والا سماجی نظام تھا جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوا اور جس نے پہلی لہر کے عہد کے خدوخال بدل کر رکھ دیے۔

اگر اس نے ایک طرف امریکا میں عظیم الشان فیکٹریوں کی تعمیر کی تو دوسری طرف کھیتوں میں ٹریکٹر چلوا دیے، دفتروں میں ٹائپ رائٹر آگئے اور گھروں کے باورچی خانوں میں ریفریجریٹوں نے اپنی جگہ بنالی، اس تمدن نے اخبارات اور فلمی صنعت کو جنم دیا، سینما گھروں کو آباد کیا، زیر زمین ٹرینیں چلیں، دیو پیکر مسافر طیارے فضا میں بلند ہوئے۔ دھرنا مار ہڑتالیں، وٹامن پلز اور اوسط عمر میں اضافہ اسی تمدن کا تحفہ ہیں۔ اس نے ساری دنیا میں دستی گھڑیوں اور ووٹ کے صندوق کو عام کردیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے ان تمام چیزوں کو کسی مشین کے پرزوں کی طرح یکجا کر کے اب تک کا سب سے طاقتور، باہم پیوستہ اور نہایت وسیع اور پھیلا ہوا سماجی نظام بنادیا اور ٹوفلر ان معاملات کو دوسری لہر کا تمدن قرار دیتا ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں