اہلِ ایران کی اقبال ؒسے عقیدت اور پاکستان سے سردمہری گزشتہ سے پیوستہ
انھوں نے ملتے ہی مجھ سے فرمائش کردی کہ ’’اقبالؒ کے شعر سناؤ‘‘
PESHAWAR:
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راشد نقوی تہران یونیورسٹی میں اردو اور فارسی کے پروفیسر ہیں اور ہمارے دوست صفدرصاحب کی طرح اپنے ملک سے بے حد محبّت کرتے ہیں۔ صفدر نے ان سے ملاقات کرائی تو دل مسّرت سے لبریز ہوگیا۔ اقبالؒ سے ایرانیوں کی عقیدت پر بات چھڑی توکہنے لگے کہ ''پچھلے دنوں مجھے ایک مذہبی تقریب میں شریک ہونے کا موقع ملا جس میں ایران کی اہم ترین شخصیات شریک تھیں وہیں نماز کے بعد ایران کے آرمی چیف سے ملاقات ہوئی۔
انھوں نے ملتے ہی مجھ سے فرمائش کردی کہ ''اقبالؒ کے شعر سناؤ'' میں نے معذرت کی کہ میں اردو میں سنا سکتا ہوں ان کا فارسی کلام سنانا شائد میرے بس میں نہ ہو ، اس پر آرمی چیف نے بڑی عقیدت اور جذبے کے ساتھ اقبالؒ کی فارسی میں کہی گئی کئی نظمیں سنادیں''۔ امّیدہے کہ ہمارے آرمی چیف بھی مفّکرِ پاکستان کی فکر ، فلسفے اور پیغام سے روشناس ہوں گے۔ علامہ اقبال ؒ کا چونکہ ساٹھ فیصد کلام فارسی میں ہے اس لیے اہلِ فارس اقبالؒ کے لافانی کلام سے بہت متاثر ہیں اوراُن سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں۔ تہران میں آپ کسی دکاندار یا ٹیکسی ڈرائیور سے بھی کہہ دیں کہ ''میں شہرِ اقبالؒ سے آیا ہوں '' تووہ آپکے سامنے بِچھ جائیگا اور فوراً گھر آنے اور کھانے کی دعوت دیگا۔
نقوی صاحب نے تہران یونیورسٹی میں ہمارے Visitکا بندوبست کررکھا تھا ۔ ہم یونیورسٹی کے صدر دروازے پرپہنچے تو وہ ہمیں ریسیو کرکے سیدھااردو ڈیپارٹمنٹ میں لے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہورسے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹرعلی بیات آجکل اس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ بڑی روانی سے اردو بولتے ہیں اور پاکستان کے لیے محبّت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی میں درجن بھر غیر ملکی زبانوں کے شعبہ جات ہیں، اردو ڈیپارٹمنٹ کے کچھ طلباوطالبات سے ملاقات ہوئی جنہوں نے صحیح تلفّظ کے ساتھ علامہ اقبالؒکے اشعار سنائے اور ہم سب سے خوب داد وصول کی، نوجوانوں کی اردو سے محبتّ حیران کن تھی۔ ڈاکٹر فواد ایزدی سمیت یونیورسٹی کے کچھ اور پروفیسرزاورصاحبانِ علم ودانش سے ملاقات ہوئی۔
ڈاکٹر بیات کا کہنا تھا کہ مختلف زبانوں کے شعبہ جات ایران کی نئی نسل میں ان ممالک کا تعارف کرانے اور ان کی گُڈوِل بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں، پھردکھی لہجے میں کہنے لگے کہ'' مختلف ممالک کے سفیر اور وزیراپنی زبان کے ڈیپارٹمنٹس میں آتے رہتے ہیں اور طلبأ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں مگر ہماری آنکھیں ترس گئی ہیں کبھی پاکستان سے بھی کوئی وزیریاسفیر یہاں آئے، کبھی کسی نے زحمت نہیں کی''۔ انھوں نے یہ بتا کر ہمارے اضطراب اور تشویش میں مزید اضافہ کردیا کہ کچھ عرصہ پہلے تک ایران سے طلباء وطالبات پی ایچ ڈی کرنے پاکستان جاتے تھے مگر نہ جانے کیوں یہ مفید سلسلہ بندکردیا گیاہے جب کہ ہزاروں ایرانی طالبِ علم بھارت میں زیرِ تعلیم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایرانی طلباء و طالبات کا اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کا پروگرام نہ صرف بحال کرے بلکہ اس سے مستفید ہونے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ کرے۔ نیز ایرانی حکومت کی مشاورت سے تہران یونیورسٹی میں فوری طور پر اقبال چئیر(Iqbal Chair)بھی قائم کی جائے۔
جسطرح اردو زبان کی مزاحیہ شاعری میں پروفیسر انور مسعود بے مثل ہیںاسی طرح سنجیدہ شاعری میں اِسوقت جناب افتخار عارف کے پائے کا کوئی شاعر نہیں۔ ان کی نظم بارہواں کھلاڑی سمیت ان کے کئی شعر اور مصرعے بے حد مقبول ہیں۔ ؎مٹی کی محبّت میں ہم آشفتہ سروں نے ۔ وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔ ؎ رحمت سیّدِلولاکؐ پہ کامل ایمان۔ اُمّتِ سیّد لولاک ؐ سے خوف آتا ہے ۔ یا ۔ ؎ھوسِ لقمہء تر کھاگئی لہجے کا جلال ، ۔ او ر کب تماشا ختم ہوگا جیسی لازوال نظمیں زبان زدِ خاص وعام ہیں۔
افتخار عارف صاحب پچھلے تین سالوں سے تہران میں ایکوکلچرل انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین ہیں۔ راقم کے ان سے دیرینہ مراسم ہیں ، وہ ھماری درخواست پر کئی بار نیشنل پولیس اکیڈیمی اسلام آبادتشریف لائے اور زیرِ تربیّت افسروں کو اپنے کلام سے فیضیاب کیا۔ صفدر نے میری تہران آمد کا بتایا تو انھوں نے بڑی مسّرت کا اظہار کیا اور دوپہر کے کھانے کی دعوت دی، کھانے پرپہنچنا تو ممکن نہ تھا مگر سہ پہر کو ہم ان کے دفتر جاکر ملے تو بڑا جی خوش ہوا ، اِس عہدے کے لیے افتخار عارف سے بہتر انتخاب نہیں ہو سکتاتھا۔ وہ ایران جانے سے پہلے ہی وہاں کے حلقہ ہائے علم و دانش میں متعارف تھے، وہاں کے ادیبوں دانشوروں اور شاعروں میں انکو بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔
ایران کی سب سے مقتدرشخصیّت آیت اﷲ خامینائی صاحب سے پاکستان کے سفیر اپنے تین سالہ قیام میں نہیں مل سکے مگر افتخار صاحب کئی بارشرفِ باریابی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اس عمر میں بھی بہت متحّرک ہیں اور ہر ہفتے کسی نہ کسی تقریب کا انعقاد ضرور کرتے ہیں۔ شاعرِ مشرق حضرتِ اقبالؒ پر بھی کئی بڑی تقریبات منعقد کرچکے ہیں۔ انھی کی تحریک پر اقبالؒ کی اردو شاعری کی دوکتابیں بالِ جبریل اور ضربِ کلیم حال ہی میں فارسی میں ترجمہ کی گئی ہیں۔
ایران کے حکمران طبقے کی اہم شخصیات کی اقبالؒ سے کسقدر عقیدت ہے، اس بارے میں کئی نئی باتیں سننے کو ملیں۔ انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اﷲ علی خامینائی نے انیس سوچالیس کی دہائی میں اقبالؒ کے بارے میں "بلند ستارۂ مشرق" (مشرق کاروشن اور اونچا ستارہ )کے عنوان سے مضمون لکھّا تھا جسے بعد میں کتابی صورت میں شایع کیاگیا۔ حکمران طبقے کے نظریاتی قائد ڈاکٹر علی شریعتی ،ا قبالؒ کو اپنا روحانی اور نظریاتی مرشد کہتے تھے، ان کی "ما و اقبال" (میں اور اقبالؒ) کے عنوان سے لکھی گئی کتاب نے بڑی شہرت حاصل کی۔ شاہ کے خلاف تحریک کے دوران لاکھوں نوجوانوں کے اجتماعات میں اقبالؒ کی ''اے جوانانِ عجم۔'' اور ''انقلاب اے انقلاب'' جیسی نظمیں پڑھی جاتیں اور جلسوں اور جلوسوں کے شرکاء کا لہو گرمایا جاتا رہا ۔ یاد رہے کہ شہنشاہیت کے خلاف پوری تحریک میں صرف اسلام کا لفظ استعمال ہوا ، صرف اللہ اکبر کے نعرے گونجتے رہے اور کبھی مسلک یا فرقے کی بات نہیں ہوئی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکرحدّادعادل جو سپریم لیڈر کے سمدھی بھی ہیں، بہت بڑے اقبال شناس ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایک تقریر میں بڑی اہم بات کی کہ ''اپنی زندگی میں فارسی زبان کے بھی سب سے بڑے شاعر اقبالؒ ہی تھے اورجب تک فارسی زبان زندہ ہے اقبالؒ زندہ رہیں گے''۔ محترم افتخار عارف سے پاک ایران تعلقات، ایرانی انقلاب کا مسلکی رنگ، ایران میں بھارت کا اثر و رسوخ، ایرانی حکومت کی ثقافتی سمت اور ایران میں اقبالؒ کے مقام اور پیغام کے موضوعات پر طویل ،دلچسپ اورمعلومات افزا نشست رہی۔
ٍایران کی مقتدر ترین شخصیات کے دلوں میں مفکّر ِ پاکستان کے لیے اسقدر عقیدت اور احترام ہو اور ایران کے پاکستان سے تعلقات میں اسقدر سرد مہری ہو۔ یہ بات افسوسناک بھی ہے اور تشویشناک بھی مگر اس موضوع پربات کرنے کے لیے سب سے موزوں شخص وہی ہو سکتا ہے جسکی کار پر ریاستِ پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے اور جو پاکستان کی نمائیندگی کے لیے پچھلے تین سالوں سے تہران میں قیام پذیر ہے لہذاافتخار عارف صاحب سے ملکر ہم پاکستانی سفارتخانے پہنچے جہاں پاکستانی سفیر نور محمد جادمانی صاحب ہمارے منتظر تھے۔
اُن سے ملتے ہی ہم نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ ایران (جس روز ہم ایران پہنچے بھارتی وزیرِ اعظم نے بھی اسی شام تہران ائیرپورٹ پر قدم رکھا تھا) کے مضمرات پر سوال کردیا۔کہنے لگے کہ ''دورے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ایرانی نائب وزیرِ خارجہ نے مجھے بلایا تھا اور (اعتماد میں لینے کے لیے) بتایا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ اسطرح کے معاہدے کرنے جارہے ہیں۔ ملاقات میں انھوں نے چاہ بہار بندرگاہ کے سلسلے میں بھی ہمارے تخفّظات دور کرنے کی کوشش کی تھی''۔''تو کیا آپ کے تحفّظات دور ہوگئے ہیں؟'' ہمارے اس سوال پر وہ خاموش رہے۔
رات کے کھانے پر کھل کر باتیں ہونے لگیں تو جادمانی صاحب کہنے لگے کہ یہ درست ہے کہ شاہ ایران کی سیکولر حکومت میں ایران کے پاکستان کے ساتھ جسطرح کے برادرانہ تعلقات تھے۔ ایران کی اسلامی حکومت میں وہ تعلقات قائم نہیں رہے بلکہ سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں (تہران میںایک بھی پاکستانی کلچرل سینٹر قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی) اس کی کئی وجوہات ہیں، ہمارے سعودی عرب کے ساتھ گہرے مراسم ، پاکستان میں شیعہ مسلک کے افراد کا (دہشت گردوں کے ہاتھوں) قتل اور یہاں کے ملاّؤںکی تنگ دلی بڑے عوامل ہیں۔
پھر مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگے کہ'' پاکستان کے شہر کوئٹہ میں کسی کمیونٹی کا دھرنا ختم کرانے کے لیے پاکستان کے وزیرِ داخلہ کو یہاں آکر ایرانی حکومت کی منّت کرنی پڑے تو کیا یہ اچھی بات ہے؟'' انھوں نے تسلیم کیا کہ بھارت کے ساتھ ایران کے سیاسی اور تجارتی تعلقات مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ 2012میں پاکستان کی ایران کو برآمدات کا حجم 142ملین ڈالر تھا جو 2014 میں گھٹ کر صرف 43ملین ڈالر تک رہ گیاہے۔ جب کہ ایران کا بھارت کے ساتھ تجارتی حجم 15ارب ڈالر (ہم سے ساٹھ گنا زیادہ) تک پہنچ چکا ہے۔ بھارت ایران اور افغانستان کا گٹھ جوڑ بلاشبہ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
اگر بھارت افغانستان کو چاہ بہار بندرگاہ تک رسائی دلادیتا ہے تو پاکستان کی اس خطے میں اہمیّت کم ہوجائیگی۔ سفیرصاحب نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اگر وہ فارسی روانی سے بول سکتے تو ایران میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے تھے۔ سفارتخانے کے ہر اہلکار نے ذکر کیا کہ ان کے لیے جمعہ اور عید کی نماز پڑھنے کا کوئی بندوبست نہیں، شہر میں تو بالکل نہیں ،کئی مسلم ممالک نے اپنے سفارتخانوں کے احاطے میں مسجد تعمیر کرنا چاہی مگر حکومت نے اس کی بھی اجازت نہ دی ۔ حکومت کی پابندیوں کے باعث مسلم ممالک کے سفارتکار وں کو جمعہ اور عید کی نمازوں کی ادائیگی کے لیے بھی بڑی مشکلات درپیش ہیں، ایسی تنگ نظری ایک اسلامی حکومت کو ہر گززیب نہیں دیتی ۔ (جاری ہے)
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راشد نقوی تہران یونیورسٹی میں اردو اور فارسی کے پروفیسر ہیں اور ہمارے دوست صفدرصاحب کی طرح اپنے ملک سے بے حد محبّت کرتے ہیں۔ صفدر نے ان سے ملاقات کرائی تو دل مسّرت سے لبریز ہوگیا۔ اقبالؒ سے ایرانیوں کی عقیدت پر بات چھڑی توکہنے لگے کہ ''پچھلے دنوں مجھے ایک مذہبی تقریب میں شریک ہونے کا موقع ملا جس میں ایران کی اہم ترین شخصیات شریک تھیں وہیں نماز کے بعد ایران کے آرمی چیف سے ملاقات ہوئی۔
انھوں نے ملتے ہی مجھ سے فرمائش کردی کہ ''اقبالؒ کے شعر سناؤ'' میں نے معذرت کی کہ میں اردو میں سنا سکتا ہوں ان کا فارسی کلام سنانا شائد میرے بس میں نہ ہو ، اس پر آرمی چیف نے بڑی عقیدت اور جذبے کے ساتھ اقبالؒ کی فارسی میں کہی گئی کئی نظمیں سنادیں''۔ امّیدہے کہ ہمارے آرمی چیف بھی مفّکرِ پاکستان کی فکر ، فلسفے اور پیغام سے روشناس ہوں گے۔ علامہ اقبال ؒ کا چونکہ ساٹھ فیصد کلام فارسی میں ہے اس لیے اہلِ فارس اقبالؒ کے لافانی کلام سے بہت متاثر ہیں اوراُن سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں۔ تہران میں آپ کسی دکاندار یا ٹیکسی ڈرائیور سے بھی کہہ دیں کہ ''میں شہرِ اقبالؒ سے آیا ہوں '' تووہ آپکے سامنے بِچھ جائیگا اور فوراً گھر آنے اور کھانے کی دعوت دیگا۔
نقوی صاحب نے تہران یونیورسٹی میں ہمارے Visitکا بندوبست کررکھا تھا ۔ ہم یونیورسٹی کے صدر دروازے پرپہنچے تو وہ ہمیں ریسیو کرکے سیدھااردو ڈیپارٹمنٹ میں لے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہورسے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹرعلی بیات آجکل اس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ بڑی روانی سے اردو بولتے ہیں اور پاکستان کے لیے محبّت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی میں درجن بھر غیر ملکی زبانوں کے شعبہ جات ہیں، اردو ڈیپارٹمنٹ کے کچھ طلباوطالبات سے ملاقات ہوئی جنہوں نے صحیح تلفّظ کے ساتھ علامہ اقبالؒکے اشعار سنائے اور ہم سب سے خوب داد وصول کی، نوجوانوں کی اردو سے محبتّ حیران کن تھی۔ ڈاکٹر فواد ایزدی سمیت یونیورسٹی کے کچھ اور پروفیسرزاورصاحبانِ علم ودانش سے ملاقات ہوئی۔
ڈاکٹر بیات کا کہنا تھا کہ مختلف زبانوں کے شعبہ جات ایران کی نئی نسل میں ان ممالک کا تعارف کرانے اور ان کی گُڈوِل بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں، پھردکھی لہجے میں کہنے لگے کہ'' مختلف ممالک کے سفیر اور وزیراپنی زبان کے ڈیپارٹمنٹس میں آتے رہتے ہیں اور طلبأ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں مگر ہماری آنکھیں ترس گئی ہیں کبھی پاکستان سے بھی کوئی وزیریاسفیر یہاں آئے، کبھی کسی نے زحمت نہیں کی''۔ انھوں نے یہ بتا کر ہمارے اضطراب اور تشویش میں مزید اضافہ کردیا کہ کچھ عرصہ پہلے تک ایران سے طلباء وطالبات پی ایچ ڈی کرنے پاکستان جاتے تھے مگر نہ جانے کیوں یہ مفید سلسلہ بندکردیا گیاہے جب کہ ہزاروں ایرانی طالبِ علم بھارت میں زیرِ تعلیم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایرانی طلباء و طالبات کا اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کا پروگرام نہ صرف بحال کرے بلکہ اس سے مستفید ہونے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ کرے۔ نیز ایرانی حکومت کی مشاورت سے تہران یونیورسٹی میں فوری طور پر اقبال چئیر(Iqbal Chair)بھی قائم کی جائے۔
جسطرح اردو زبان کی مزاحیہ شاعری میں پروفیسر انور مسعود بے مثل ہیںاسی طرح سنجیدہ شاعری میں اِسوقت جناب افتخار عارف کے پائے کا کوئی شاعر نہیں۔ ان کی نظم بارہواں کھلاڑی سمیت ان کے کئی شعر اور مصرعے بے حد مقبول ہیں۔ ؎مٹی کی محبّت میں ہم آشفتہ سروں نے ۔ وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔ ؎ رحمت سیّدِلولاکؐ پہ کامل ایمان۔ اُمّتِ سیّد لولاک ؐ سے خوف آتا ہے ۔ یا ۔ ؎ھوسِ لقمہء تر کھاگئی لہجے کا جلال ، ۔ او ر کب تماشا ختم ہوگا جیسی لازوال نظمیں زبان زدِ خاص وعام ہیں۔
افتخار عارف صاحب پچھلے تین سالوں سے تہران میں ایکوکلچرل انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین ہیں۔ راقم کے ان سے دیرینہ مراسم ہیں ، وہ ھماری درخواست پر کئی بار نیشنل پولیس اکیڈیمی اسلام آبادتشریف لائے اور زیرِ تربیّت افسروں کو اپنے کلام سے فیضیاب کیا۔ صفدر نے میری تہران آمد کا بتایا تو انھوں نے بڑی مسّرت کا اظہار کیا اور دوپہر کے کھانے کی دعوت دی، کھانے پرپہنچنا تو ممکن نہ تھا مگر سہ پہر کو ہم ان کے دفتر جاکر ملے تو بڑا جی خوش ہوا ، اِس عہدے کے لیے افتخار عارف سے بہتر انتخاب نہیں ہو سکتاتھا۔ وہ ایران جانے سے پہلے ہی وہاں کے حلقہ ہائے علم و دانش میں متعارف تھے، وہاں کے ادیبوں دانشوروں اور شاعروں میں انکو بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔
ایران کی سب سے مقتدرشخصیّت آیت اﷲ خامینائی صاحب سے پاکستان کے سفیر اپنے تین سالہ قیام میں نہیں مل سکے مگر افتخار صاحب کئی بارشرفِ باریابی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اس عمر میں بھی بہت متحّرک ہیں اور ہر ہفتے کسی نہ کسی تقریب کا انعقاد ضرور کرتے ہیں۔ شاعرِ مشرق حضرتِ اقبالؒ پر بھی کئی بڑی تقریبات منعقد کرچکے ہیں۔ انھی کی تحریک پر اقبالؒ کی اردو شاعری کی دوکتابیں بالِ جبریل اور ضربِ کلیم حال ہی میں فارسی میں ترجمہ کی گئی ہیں۔
ایران کے حکمران طبقے کی اہم شخصیات کی اقبالؒ سے کسقدر عقیدت ہے، اس بارے میں کئی نئی باتیں سننے کو ملیں۔ انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اﷲ علی خامینائی نے انیس سوچالیس کی دہائی میں اقبالؒ کے بارے میں "بلند ستارۂ مشرق" (مشرق کاروشن اور اونچا ستارہ )کے عنوان سے مضمون لکھّا تھا جسے بعد میں کتابی صورت میں شایع کیاگیا۔ حکمران طبقے کے نظریاتی قائد ڈاکٹر علی شریعتی ،ا قبالؒ کو اپنا روحانی اور نظریاتی مرشد کہتے تھے، ان کی "ما و اقبال" (میں اور اقبالؒ) کے عنوان سے لکھی گئی کتاب نے بڑی شہرت حاصل کی۔ شاہ کے خلاف تحریک کے دوران لاکھوں نوجوانوں کے اجتماعات میں اقبالؒ کی ''اے جوانانِ عجم۔'' اور ''انقلاب اے انقلاب'' جیسی نظمیں پڑھی جاتیں اور جلسوں اور جلوسوں کے شرکاء کا لہو گرمایا جاتا رہا ۔ یاد رہے کہ شہنشاہیت کے خلاف پوری تحریک میں صرف اسلام کا لفظ استعمال ہوا ، صرف اللہ اکبر کے نعرے گونجتے رہے اور کبھی مسلک یا فرقے کی بات نہیں ہوئی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکرحدّادعادل جو سپریم لیڈر کے سمدھی بھی ہیں، بہت بڑے اقبال شناس ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایک تقریر میں بڑی اہم بات کی کہ ''اپنی زندگی میں فارسی زبان کے بھی سب سے بڑے شاعر اقبالؒ ہی تھے اورجب تک فارسی زبان زندہ ہے اقبالؒ زندہ رہیں گے''۔ محترم افتخار عارف سے پاک ایران تعلقات، ایرانی انقلاب کا مسلکی رنگ، ایران میں بھارت کا اثر و رسوخ، ایرانی حکومت کی ثقافتی سمت اور ایران میں اقبالؒ کے مقام اور پیغام کے موضوعات پر طویل ،دلچسپ اورمعلومات افزا نشست رہی۔
ٍایران کی مقتدر ترین شخصیات کے دلوں میں مفکّر ِ پاکستان کے لیے اسقدر عقیدت اور احترام ہو اور ایران کے پاکستان سے تعلقات میں اسقدر سرد مہری ہو۔ یہ بات افسوسناک بھی ہے اور تشویشناک بھی مگر اس موضوع پربات کرنے کے لیے سب سے موزوں شخص وہی ہو سکتا ہے جسکی کار پر ریاستِ پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے اور جو پاکستان کی نمائیندگی کے لیے پچھلے تین سالوں سے تہران میں قیام پذیر ہے لہذاافتخار عارف صاحب سے ملکر ہم پاکستانی سفارتخانے پہنچے جہاں پاکستانی سفیر نور محمد جادمانی صاحب ہمارے منتظر تھے۔
اُن سے ملتے ہی ہم نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ ایران (جس روز ہم ایران پہنچے بھارتی وزیرِ اعظم نے بھی اسی شام تہران ائیرپورٹ پر قدم رکھا تھا) کے مضمرات پر سوال کردیا۔کہنے لگے کہ ''دورے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ایرانی نائب وزیرِ خارجہ نے مجھے بلایا تھا اور (اعتماد میں لینے کے لیے) بتایا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ اسطرح کے معاہدے کرنے جارہے ہیں۔ ملاقات میں انھوں نے چاہ بہار بندرگاہ کے سلسلے میں بھی ہمارے تخفّظات دور کرنے کی کوشش کی تھی''۔''تو کیا آپ کے تحفّظات دور ہوگئے ہیں؟'' ہمارے اس سوال پر وہ خاموش رہے۔
رات کے کھانے پر کھل کر باتیں ہونے لگیں تو جادمانی صاحب کہنے لگے کہ یہ درست ہے کہ شاہ ایران کی سیکولر حکومت میں ایران کے پاکستان کے ساتھ جسطرح کے برادرانہ تعلقات تھے۔ ایران کی اسلامی حکومت میں وہ تعلقات قائم نہیں رہے بلکہ سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں (تہران میںایک بھی پاکستانی کلچرل سینٹر قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی) اس کی کئی وجوہات ہیں، ہمارے سعودی عرب کے ساتھ گہرے مراسم ، پاکستان میں شیعہ مسلک کے افراد کا (دہشت گردوں کے ہاتھوں) قتل اور یہاں کے ملاّؤںکی تنگ دلی بڑے عوامل ہیں۔
پھر مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگے کہ'' پاکستان کے شہر کوئٹہ میں کسی کمیونٹی کا دھرنا ختم کرانے کے لیے پاکستان کے وزیرِ داخلہ کو یہاں آکر ایرانی حکومت کی منّت کرنی پڑے تو کیا یہ اچھی بات ہے؟'' انھوں نے تسلیم کیا کہ بھارت کے ساتھ ایران کے سیاسی اور تجارتی تعلقات مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ 2012میں پاکستان کی ایران کو برآمدات کا حجم 142ملین ڈالر تھا جو 2014 میں گھٹ کر صرف 43ملین ڈالر تک رہ گیاہے۔ جب کہ ایران کا بھارت کے ساتھ تجارتی حجم 15ارب ڈالر (ہم سے ساٹھ گنا زیادہ) تک پہنچ چکا ہے۔ بھارت ایران اور افغانستان کا گٹھ جوڑ بلاشبہ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
اگر بھارت افغانستان کو چاہ بہار بندرگاہ تک رسائی دلادیتا ہے تو پاکستان کی اس خطے میں اہمیّت کم ہوجائیگی۔ سفیرصاحب نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اگر وہ فارسی روانی سے بول سکتے تو ایران میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے تھے۔ سفارتخانے کے ہر اہلکار نے ذکر کیا کہ ان کے لیے جمعہ اور عید کی نماز پڑھنے کا کوئی بندوبست نہیں، شہر میں تو بالکل نہیں ،کئی مسلم ممالک نے اپنے سفارتخانوں کے احاطے میں مسجد تعمیر کرنا چاہی مگر حکومت نے اس کی بھی اجازت نہ دی ۔ حکومت کی پابندیوں کے باعث مسلم ممالک کے سفارتکار وں کو جمعہ اور عید کی نمازوں کی ادائیگی کے لیے بھی بڑی مشکلات درپیش ہیں، ایسی تنگ نظری ایک اسلامی حکومت کو ہر گززیب نہیں دیتی ۔ (جاری ہے)