آؤ جی بھر کر منافقت کرتے ہیں
روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ ’’کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا
KARACHI:
روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ ''کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا''۔ گاندھی کے الفاظ ہیں ''وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے، تاوقتیکہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کرئدیں''۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہماری اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہمیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے، نسبتاً اصل تکلیف کے۔ اب آپ ایسا کریں کہ پانچ منٹ کے لیے اپنی آنکھیں بند کر کے ان الفاظ پر اپنی زندگی کے تجربے کے مطابق غور کر کے بتائیں کہ آپ ان الفاظ کی سچائی پر اتفاق کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔
اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے ذرا اس واقعے پر بھی نظر ڈال لیں۔ ایک دفعہ عظیم ادیب و نفسیات دان اسٹیفن آر کو وے سیکرامنٹو میں Proactivity کے موضوع پر لیکچر دے رہے تھے، ان کی تقریر کے عین درمیان ایک خاتون سامعین میں سے اٹھی اور اس نے پرجوش طریقے سے گفتگو شروع کر دی۔ یہ سامعین کی ایک بڑی تقریب تھی، بہت سے لوگ مڑ کر خاتون کو دیکھنے لگے، اچانک اسے اپنی حرکت کا احساس ہو گیا اور وہ شرمندہ ہوکر بیٹھ گئی، لیکن اسے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا اور وہ اپنے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کرنے لگی، وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ اسٹیفن کے لیے وقفے کا انتظار کرنا مشکل ہوگیا، وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اسے ہوا کیا ہے۔ آخرکار جب وقفہ ہوا تو وہ خود اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ اسے اپنے تجربے میں شریک کرنا چاہے گی۔
''آپ سوچ نہیں سکتے کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے'' وہ پرجوش طریقے سے بولی ''میں ایک انتہائی آشفتہ حال اور ناشکر گزار شخص کی فل ٹائم نرس ہوں، آپ تصور نہیں کرسکتے کہ وہ کس قدر برا انسان ہے، میں جو کچھ بھی کرلوں اسے مطمئن نہیں کرسکتی، اس کے منہ سے کبھی شکر گزاری یا تعریف کا ایک لفظ نہیں نکلتا، وہ مسلسل مجھ پر چیختا چلاتا ہے اور میرے ہر کام میں کیڑے نکال لیتا ہے، اس شخص نے میری زندگی اجیرن کردی ہے اور میں اس کا سارا غصہ اپنے خاندان کے لوگوں پر نکالتی ہوں، دوسری نرسیں بھی اسی طرح محسوس کرتی ہیں، ہم ایک طرح سے اس کے مرنے کی دعائیں کرتی ہیں اور تمہاری یہ جرأت کہ وہاں کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے ہوکہ مجھے کوئی چیز تکلیف نہیں پہنچا سکتی، جب تک کہ میں خود کسی کو اپنی رضامندی نہ دوں کہ وہ مجھے تکلیف پہنچائے اور یہ کہ میں نے خود اپنی مرضی سے اپنی آشفتہ حال جذباتی زندگی چنی ہے۔
بہرحال میرے لیے کسی بھی صورت تمہاری اس دلیل کو ماننا ممکن نہیں تھا لیکن میں اس کے بارے میں مستقل سوچتی رہی، میں حقیقتاً اپنے اندر گھس گئی اور میں نے خود سے کہا کیا میرے اندر یہ طاقت ہے کہ میں اپنا ردعمل خود طے کرسکوں، جب مجھے یہ احساس ہوگیا کہ ہاں میرے اندر یہ طاقت ہے، جب میں نے یہ کڑوی گولی نگل لی اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ واقعی میں نے خود اپنے لیے اس آشفتہ حالی میں رہنا چنا ہے تو پھر مجھ پر یہ بھی کھلنے لگا کہ میں اس حال میں نہ رہنا بھی چن سکتی ہوں۔ اسی لمحے میں اٹھ کھڑی ہوئی، مجھے یوں لگا جیسے میں موت کی ایک لمبی قید سے باہر آگئی ہوں، میں چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ میں آزاد ہوں، مجھے قید سے رہائی مل گئی ہے، اب کوئی شخص میرے ساتھ برا سلوک نہیں کرسکے گا''۔
ہم سب بھی اپنے قیدی آپ بنے ہوئے ہیں، ہم سب نے اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے اور اپنے آپ کو ہر وہ سزا جو دی جاسکتی ہے، دیے جارہے ہیں۔ ہم وہ معصوم اور بے گناہ، گناہگار اور مجرم ہیں، جو دوسروں کے گناہوں اور جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر گزرنے والے کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ آؤ ہم پر لعنت ملامت کرو، ہمیں برا بھلا کہو اور اسی پر بس نہیں کررہے ہیں، جب گناہگاروں اور مجرموں کو سزا کے طور پر جیلوں میں ڈالا جارہا ہوتا ہے تو اسی لمحے وہاں پر آ دھمکتے ہیں اور مچلنا شروع کر دیتے ہیں کہ سزائیں یہ نہیں، بلکہ ہم کاٹیں گے، اس لیے انھیں نہیں ہمیں جیل میں ڈالا جائے۔
ہم دنیا کی سب سے تیز رفتار رنگ بدلنے والی مخلوق ثابت ہوئے ہیں۔ ظلم، ناانصافی کے خلاف شور مچاتے رہیں گے، واویلا کرکے آسمان سر پر اٹھا لیں گے اور جب انھیں ختم کرنے کا موقع آجاتا ہے تو موقع سے فرار ہونے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں کرتے ہیں۔ ساری ساری رات گالیاں اور برا بھلا کہہ کہہ کر کاٹتے ہیں اور جیسے ہی گھنٹوں بعد بجلی آتی ہے تو سب کچھ بھول بھال کر خدا کا شکر ادا کرکے بستر کی راہ لے لیتے ہیں۔ سارا وقت جہیز لعنت ہے، جہیز لعنت ہے، کا پرچار کرتے پھرتے ہیں اور اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے موقع پر لڑکے والوں کے گھر خود جہیز لے کر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ لٹ گئے برباد ہوگئے کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں اور جب لٹیرے سامنے آجاتے ہیں تو ان کے سامنے جھک جھک کر اپنی کمروں میں درد کر لیتے ہیں۔
رشوت دینا اور لینا حرام ہے کے اسٹیکر گھروں اور دکانوں میں لگاتے پھرتے ہیں، لیکن رشوت دینے اور لینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، دوسرے لوگوں کو اخلاقی اور سماجی برائیوں پر بڑے بڑے بھاشن دیتے پھرتے ہیں اور جہاں خوبصورت لڑکی نظر آجائے تو اسے ترچھی نظروں سے اس کے گھر پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں اور اگر نظروں سے کچھ ہوسکتا ہوتا تو نجانے کب کے کیا کچھ کر چکے ہوتے۔ اپنی خواتین کو خلائی مخلوق بنائے پھرتے ہیں اور دوسروں کی تانکا جھانکی کا شوق دل میں بسائے بسائے گھومتے رہتے ہیں۔
ملاوٹ پر بڑی بڑی حدیثیں سناتے پھرتے ہیں اور جیسے ہی خود کو موقع ملتا ہے ملاوٹ کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگاتے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو جی بھر کر برا بھلا کہتے پھرتے ہیں، لیکن اکیلے میں اپنی ہر دعا میں ان کے ملکوں میں بمعہ اہل خانہ جاکر بسنے کی دعائیں مانگتے پھرتے ہیں۔ منافقت، حسد اور رواداری پر گھنٹوں بولتے رہتے ہیں، لیکن اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ لالچ کے ازلی دشمن بنے پھرتے ہیں لیکن جہاں کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں تو رال بہنا شروع ہوجاتی ہے۔
اس زندگی کا انتخاب ہم نے خود کیا ہے، اس لیے اگر کوئی خود تکلیف کے عذاب میں مبتلا رہنا چاہے تو پھر کوئی اور اس کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے، ماسوائے یہ کہنے کہ لگے رہو۔ اب آپ روز ویلٹ اور گاندھی کے الفاظ کی سچائی پر اتفاق کریں یا انکار کریں، دونوں صورتوں میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ اس لیے چھوڑیے بیکار کی باتیں، آؤ جی بھر کر منافقت کرتے ہیں۔
روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ ''کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا''۔ گاندھی کے الفاظ ہیں ''وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے، تاوقتیکہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کرئدیں''۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہماری اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہمیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے، نسبتاً اصل تکلیف کے۔ اب آپ ایسا کریں کہ پانچ منٹ کے لیے اپنی آنکھیں بند کر کے ان الفاظ پر اپنی زندگی کے تجربے کے مطابق غور کر کے بتائیں کہ آپ ان الفاظ کی سچائی پر اتفاق کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔
اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے ذرا اس واقعے پر بھی نظر ڈال لیں۔ ایک دفعہ عظیم ادیب و نفسیات دان اسٹیفن آر کو وے سیکرامنٹو میں Proactivity کے موضوع پر لیکچر دے رہے تھے، ان کی تقریر کے عین درمیان ایک خاتون سامعین میں سے اٹھی اور اس نے پرجوش طریقے سے گفتگو شروع کر دی۔ یہ سامعین کی ایک بڑی تقریب تھی، بہت سے لوگ مڑ کر خاتون کو دیکھنے لگے، اچانک اسے اپنی حرکت کا احساس ہو گیا اور وہ شرمندہ ہوکر بیٹھ گئی، لیکن اسے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا اور وہ اپنے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کرنے لگی، وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ اسٹیفن کے لیے وقفے کا انتظار کرنا مشکل ہوگیا، وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اسے ہوا کیا ہے۔ آخرکار جب وقفہ ہوا تو وہ خود اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ اسے اپنے تجربے میں شریک کرنا چاہے گی۔
''آپ سوچ نہیں سکتے کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے'' وہ پرجوش طریقے سے بولی ''میں ایک انتہائی آشفتہ حال اور ناشکر گزار شخص کی فل ٹائم نرس ہوں، آپ تصور نہیں کرسکتے کہ وہ کس قدر برا انسان ہے، میں جو کچھ بھی کرلوں اسے مطمئن نہیں کرسکتی، اس کے منہ سے کبھی شکر گزاری یا تعریف کا ایک لفظ نہیں نکلتا، وہ مسلسل مجھ پر چیختا چلاتا ہے اور میرے ہر کام میں کیڑے نکال لیتا ہے، اس شخص نے میری زندگی اجیرن کردی ہے اور میں اس کا سارا غصہ اپنے خاندان کے لوگوں پر نکالتی ہوں، دوسری نرسیں بھی اسی طرح محسوس کرتی ہیں، ہم ایک طرح سے اس کے مرنے کی دعائیں کرتی ہیں اور تمہاری یہ جرأت کہ وہاں کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے ہوکہ مجھے کوئی چیز تکلیف نہیں پہنچا سکتی، جب تک کہ میں خود کسی کو اپنی رضامندی نہ دوں کہ وہ مجھے تکلیف پہنچائے اور یہ کہ میں نے خود اپنی مرضی سے اپنی آشفتہ حال جذباتی زندگی چنی ہے۔
بہرحال میرے لیے کسی بھی صورت تمہاری اس دلیل کو ماننا ممکن نہیں تھا لیکن میں اس کے بارے میں مستقل سوچتی رہی، میں حقیقتاً اپنے اندر گھس گئی اور میں نے خود سے کہا کیا میرے اندر یہ طاقت ہے کہ میں اپنا ردعمل خود طے کرسکوں، جب مجھے یہ احساس ہوگیا کہ ہاں میرے اندر یہ طاقت ہے، جب میں نے یہ کڑوی گولی نگل لی اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ واقعی میں نے خود اپنے لیے اس آشفتہ حالی میں رہنا چنا ہے تو پھر مجھ پر یہ بھی کھلنے لگا کہ میں اس حال میں نہ رہنا بھی چن سکتی ہوں۔ اسی لمحے میں اٹھ کھڑی ہوئی، مجھے یوں لگا جیسے میں موت کی ایک لمبی قید سے باہر آگئی ہوں، میں چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ میں آزاد ہوں، مجھے قید سے رہائی مل گئی ہے، اب کوئی شخص میرے ساتھ برا سلوک نہیں کرسکے گا''۔
ہم سب بھی اپنے قیدی آپ بنے ہوئے ہیں، ہم سب نے اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے اور اپنے آپ کو ہر وہ سزا جو دی جاسکتی ہے، دیے جارہے ہیں۔ ہم وہ معصوم اور بے گناہ، گناہگار اور مجرم ہیں، جو دوسروں کے گناہوں اور جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر گزرنے والے کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ آؤ ہم پر لعنت ملامت کرو، ہمیں برا بھلا کہو اور اسی پر بس نہیں کررہے ہیں، جب گناہگاروں اور مجرموں کو سزا کے طور پر جیلوں میں ڈالا جارہا ہوتا ہے تو اسی لمحے وہاں پر آ دھمکتے ہیں اور مچلنا شروع کر دیتے ہیں کہ سزائیں یہ نہیں، بلکہ ہم کاٹیں گے، اس لیے انھیں نہیں ہمیں جیل میں ڈالا جائے۔
ہم دنیا کی سب سے تیز رفتار رنگ بدلنے والی مخلوق ثابت ہوئے ہیں۔ ظلم، ناانصافی کے خلاف شور مچاتے رہیں گے، واویلا کرکے آسمان سر پر اٹھا لیں گے اور جب انھیں ختم کرنے کا موقع آجاتا ہے تو موقع سے فرار ہونے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں کرتے ہیں۔ ساری ساری رات گالیاں اور برا بھلا کہہ کہہ کر کاٹتے ہیں اور جیسے ہی گھنٹوں بعد بجلی آتی ہے تو سب کچھ بھول بھال کر خدا کا شکر ادا کرکے بستر کی راہ لے لیتے ہیں۔ سارا وقت جہیز لعنت ہے، جہیز لعنت ہے، کا پرچار کرتے پھرتے ہیں اور اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے موقع پر لڑکے والوں کے گھر خود جہیز لے کر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ لٹ گئے برباد ہوگئے کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں اور جب لٹیرے سامنے آجاتے ہیں تو ان کے سامنے جھک جھک کر اپنی کمروں میں درد کر لیتے ہیں۔
رشوت دینا اور لینا حرام ہے کے اسٹیکر گھروں اور دکانوں میں لگاتے پھرتے ہیں، لیکن رشوت دینے اور لینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، دوسرے لوگوں کو اخلاقی اور سماجی برائیوں پر بڑے بڑے بھاشن دیتے پھرتے ہیں اور جہاں خوبصورت لڑکی نظر آجائے تو اسے ترچھی نظروں سے اس کے گھر پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں اور اگر نظروں سے کچھ ہوسکتا ہوتا تو نجانے کب کے کیا کچھ کر چکے ہوتے۔ اپنی خواتین کو خلائی مخلوق بنائے پھرتے ہیں اور دوسروں کی تانکا جھانکی کا شوق دل میں بسائے بسائے گھومتے رہتے ہیں۔
ملاوٹ پر بڑی بڑی حدیثیں سناتے پھرتے ہیں اور جیسے ہی خود کو موقع ملتا ہے ملاوٹ کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگاتے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو جی بھر کر برا بھلا کہتے پھرتے ہیں، لیکن اکیلے میں اپنی ہر دعا میں ان کے ملکوں میں بمعہ اہل خانہ جاکر بسنے کی دعائیں مانگتے پھرتے ہیں۔ منافقت، حسد اور رواداری پر گھنٹوں بولتے رہتے ہیں، لیکن اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ لالچ کے ازلی دشمن بنے پھرتے ہیں لیکن جہاں کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں تو رال بہنا شروع ہوجاتی ہے۔
اس زندگی کا انتخاب ہم نے خود کیا ہے، اس لیے اگر کوئی خود تکلیف کے عذاب میں مبتلا رہنا چاہے تو پھر کوئی اور اس کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے، ماسوائے یہ کہنے کہ لگے رہو۔ اب آپ روز ویلٹ اور گاندھی کے الفاظ کی سچائی پر اتفاق کریں یا انکار کریں، دونوں صورتوں میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ اس لیے چھوڑیے بیکار کی باتیں، آؤ جی بھر کر منافقت کرتے ہیں۔