عید بارش اور پانی
کراچی میں صفائی کی صورتحال ہمیشہ سے خراب ہے، نالے بند ہوچکے ہیں
کراچی میں دو دن میں چند ملی میٹر بارش ہوئی، چھ افراد ہلاک ہوئے، پورا شہر چھوٹے تالابوں اور جھیلوں میں تبدیل ہوگیا۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اگلے چند دنوں میں مون سون کھل کر برسے گا۔ نامزد میئر کو خدشہ ہے کہ کراچی پھر ڈوب جائے گا۔ عید کے دن کیسے گزریں گے؟ وزیراعلیٰ کے پاس اس صورتحال کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔
منگل کی رات ایک گھنٹے کے قریب ہونے والی بارش اور بدھ کو اتنی ہی دورانیے کی بارش نے کراچی کو ایک نئے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں پر پانی جمع ہوگیا، بجلی بند ہوگئی۔ منگل کو افطاری کے بعد شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، گلشن اقبال، لیاری ایکسپریس وے اور دوسری سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیاں رک گئیں۔ ایک طرف ٹریفک جام ہوا، دوسری طرف کاروں کے انجن ناکارہ ہوگئے۔ عید کی شاپنگ کے لیے کھلنے والے بازار ویران ہوئے اور بہت سے بازار تو دو دن تک کھل ہی نہ پائے۔ سڑکوں پر بجلی کے تار گرنے سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ اندھیرا بھی پھیل گیا۔
کراچی میں صفائی کی صورتحال ہمیشہ سے خراب ہے، نالے بند ہوچکے ہیں۔ بارش نے صورتحال کو خراب کردیا۔ گلستان جوہر اور سپر ہائی وے سے متصل سعدی ٹاؤن سپر ہائی وے کے اطراف سے آنے والے پانی سے خطرناک صورتحال سے دوچار ہوا اور اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ 2013 کی طرح سعدی ٹاؤن اور سادات امروہہ پھر پانی میں ڈوب جائیں گے۔ بلدیہ کراچی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نچلے متوسط طبقے کی آبادی سعدی ٹاؤن کی ایک بڑے نالے پر تعمیر ہوئی ہے، اس نالے کی صفائی نہ ہونے سے پانی کا قدرتی راستہ بند ہوگیا ہے۔
سپر ہائی وے، گڈاپ اور اطراف کے علاقوں میں ہونے والی بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم اربن ریسورس سینٹر، ممتاز آرکیٹیکٹ عارف حسن کی قیادت میں شہری مسائل پر تحقیق اور ان کے حل کی کوششوں میں مصروف ہے، کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی شہر میں پانی کی نکاسی کا ایک قدرتی نظام موجود تھا جو اب ناکارہ ہوچکا ہے اور اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ کے ماہر سلیم علیم الدین جو شہر کے ذیلی سسٹم پر 1980 سے کام کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ شہر میں پانی کی نکاسی کے چالیس نالے ہیں، ان نالوں پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں۔
ان نالوں کی بحالی اور سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے کے لیے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے۔ سلیم کی تجویز ہے کہ ان تجاوزات کے خاتمے کا معاملہ سیاسی ہے، اس لیے حکومت کو نالے کی بچی ہوئی جگہوں کو محفوظ کرنا چاہیے اور تقریباً دس فٹ تک پانی کی نکاسی کے لیے راستہ بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کی بیشتر سیوریج لائنیں ان نالوں سے منسلک ہیں۔ شدید بارش سے سارا نظام معطل ہوجاتا ہے۔ اربن ریسورس سینٹر کے ایک اور ماہر زاہد فاروق کہتے ہیں کہ پورا بلدیاتی نظام معطل ہے، دو کروڑ آبادی والے شہر کا شمار دنیا کے پانچ میگا شہروں میں ہوتا ہے، مگر اس شہر کی وراثت کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بلدیہ کراچی کے ایک اعلیٰ افسر کہتے ہیں معاملہ فنڈ کی کمی کا ہے۔
اس افسر کا کہنا ہے کہ شہر میں چھوٹے 559 نالے ہیں، جو پانی لیاری اور ملیر ندی میں پھینکتے ہیں، 12 نالے سمندر میں براہ راست گندا اور بارش کا پانی منتقل کرتے ہیں۔ ایک ماہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے نالوں میں بارش کا پانی بہت کم سمندر میں منتقل ہوتا ہے، بیشتر پانی شہر میں ہی پھیل جاتا ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ وزیر بلدیات جام خان شورو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کراچی کے بیشتر نالوں پر تجاوزات اور کچی آبادیاں قائم کردی گئی ہیں، جس کی بنا پر نالوں کی چوڑائی کم ہوگئی ہے اور اکثر مقامات پر نالے بند ہورہے ہیں۔ وزیر موصوف یکم جولائی کو نالوں کے معائنے پر نکلے اور یہ خوشخبری سنائی کہ پانچ بڑے نالوں کی صفائی کا کام آؤٹ سورس کردیا گیا ہے اور ان کے کنٹریکٹ دیے جاچکے ہیں۔
سابق ناظم مصطفیٰ کمال اپنے تجربے کی بنیاد پر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر سال نالوں کی صفائی کے لیے رقم بجٹ میں مختص کی جاتی ہے، یہ رقم کہاں خرچ ہوئی، کوئی نہیں جانتا ۔ بارش شروع ہونے کے دوسرے دن وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے 47 ملین روپے نالوں کی صفائی کے لیے جاری کیے۔ بلدیاتی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ چھ ماہ قبل یہ رقم کیوں نہ جاری کی اور اب یہ رقم کس طرح خرچ ہوگی۔ مصطفیٰ کمال نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس وقت اتنی بڑی رقم جاری کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔
کراچی میں بارش سے بجلی کا بھی شدید بحران پیدا ہوا۔ بارش شروع ہوتے ہی شہر کے بیشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، کچھ علاقوں میں چار گھنٹے، بعض علاقوں میں بارہ گھنٹے اور غریبوں کی آبادیوں میں 48 سے 72 گھنٹوں بعد بجلی بحال ہوئی۔ کے الیکٹرک نے صورتحال پر معذرت تو کی، پہلے کہا کہ فیڈر ٹرپ ہوئے، پھر کہا کہ تار جل گئے اور کئی کھمبے گرگئے، مگر بجلی والوں نے بجلی کی بحالی کے لیے طبقاتی پالیسی اختیار کی۔ امرا کے علاقوں ڈیفنس، کلفٹن، باتھ آئی لینڈ، متوسط طبقے کے علاقوں پی ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ میں چند گھنٹوں بعد بجلی بحال ہوگئی۔
غریبوں کے علاقوں لیاقت آباد، سلطان آباد، اورنگی، لیاری ، ملیر اور دوسرے علاقوں میں بارہ سے بہتر گھنٹے تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔ بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے دھابیجی کے پانی فراہم کرنے والے اسٹیشن خاموش ہوگئے۔ شہر میںکئی گھنٹے تک پانی کی فراہمی معطل رہی، پھر شہر کے مختلف علاقوں میں پانی گھروں تک پہنچانے والے پمپنگ اسٹیشن بھی بجلی نہ ہونے سے پانی نہ کھینچ سکے۔ اس طرح شہر میں پانی کی مزید قلت بڑھ گئی۔
کراچی میں بلدیاتی ادارے کئی سال سے مفلوج ہیں۔ کے ایم سی کے صفائی کے عملے کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی اور صفائی کے لیے ضروری سامان مہیا نہیں ہوتا، اس لیے ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ سیوریج لائنوں کی مرمت نہ ہونے کی بنا پر گندا پانی سڑکوں پر اکٹھا ہونا ایک معمول بن گیا۔ بارش کی وجہ سے یہ صورتحال مزید خراب ہوجاتی ہے۔ سپریم کورٹ کی مسلسل مداخلت کے بعد گزشتہ سال کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے، ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، مگر بلدیاتی ادارے اب تک بحال نہ ہوسکے۔ منتخب اداروں کا کردار نظر نہیں آیا۔
جب سابق صدر پرویز مشرف نے بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا، اس نظام کے تحت 2003 میں جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ پہلے منتخب ناظم بنے تھے، اس سال مون سون کی بدترین بارشیں ہوئی تھیں، شاہراہ فیصل کے پانی کی نکاسی اور پھنسی ہوئی گاڑیوں کو نکالنے کے لیے فوج کے دستے آگئے تھے۔
پھر سٹی گورنمنٹ نے بارش سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بنایا تھا، بہت سے نالے صفائی کے بعد بحال ہوئے۔ جب مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو بارش کے پانی سے نمٹنے کے لیے پلان تیار کیا تھا، گجر نالے پر تجاوزات کو ختم کیا گیا، آئی آئی چندریگر روڈ پر کھدائی کرکے قدیم نالہ برآمد کیا گیا اور بارش کے فوراً بعد صفائی کے عملے کی موجودگی کو یقینی بنانے اور پانی کی نکاسی کے اقدامات کیے گئے۔ اس طرح کراچی میں حالات بہتر ہوتے نظر آتے تھے، مگر منتخب بلدیاتی ادارے کے خاتمے کے بعد صورتحال بگڑ رہی ہے۔ اگر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور کراچی میں مسلسل بارشیں ہوئیں تو شہر کا جو حال ہوگا اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
منگل کی رات ایک گھنٹے کے قریب ہونے والی بارش اور بدھ کو اتنی ہی دورانیے کی بارش نے کراچی کو ایک نئے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں پر پانی جمع ہوگیا، بجلی بند ہوگئی۔ منگل کو افطاری کے بعد شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، گلشن اقبال، لیاری ایکسپریس وے اور دوسری سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیاں رک گئیں۔ ایک طرف ٹریفک جام ہوا، دوسری طرف کاروں کے انجن ناکارہ ہوگئے۔ عید کی شاپنگ کے لیے کھلنے والے بازار ویران ہوئے اور بہت سے بازار تو دو دن تک کھل ہی نہ پائے۔ سڑکوں پر بجلی کے تار گرنے سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ اندھیرا بھی پھیل گیا۔
کراچی میں صفائی کی صورتحال ہمیشہ سے خراب ہے، نالے بند ہوچکے ہیں۔ بارش نے صورتحال کو خراب کردیا۔ گلستان جوہر اور سپر ہائی وے سے متصل سعدی ٹاؤن سپر ہائی وے کے اطراف سے آنے والے پانی سے خطرناک صورتحال سے دوچار ہوا اور اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ 2013 کی طرح سعدی ٹاؤن اور سادات امروہہ پھر پانی میں ڈوب جائیں گے۔ بلدیہ کراچی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نچلے متوسط طبقے کی آبادی سعدی ٹاؤن کی ایک بڑے نالے پر تعمیر ہوئی ہے، اس نالے کی صفائی نہ ہونے سے پانی کا قدرتی راستہ بند ہوگیا ہے۔
سپر ہائی وے، گڈاپ اور اطراف کے علاقوں میں ہونے والی بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم اربن ریسورس سینٹر، ممتاز آرکیٹیکٹ عارف حسن کی قیادت میں شہری مسائل پر تحقیق اور ان کے حل کی کوششوں میں مصروف ہے، کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی شہر میں پانی کی نکاسی کا ایک قدرتی نظام موجود تھا جو اب ناکارہ ہوچکا ہے اور اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ کے ماہر سلیم علیم الدین جو شہر کے ذیلی سسٹم پر 1980 سے کام کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ شہر میں پانی کی نکاسی کے چالیس نالے ہیں، ان نالوں پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں۔
ان نالوں کی بحالی اور سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے کے لیے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے۔ سلیم کی تجویز ہے کہ ان تجاوزات کے خاتمے کا معاملہ سیاسی ہے، اس لیے حکومت کو نالے کی بچی ہوئی جگہوں کو محفوظ کرنا چاہیے اور تقریباً دس فٹ تک پانی کی نکاسی کے لیے راستہ بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کی بیشتر سیوریج لائنیں ان نالوں سے منسلک ہیں۔ شدید بارش سے سارا نظام معطل ہوجاتا ہے۔ اربن ریسورس سینٹر کے ایک اور ماہر زاہد فاروق کہتے ہیں کہ پورا بلدیاتی نظام معطل ہے، دو کروڑ آبادی والے شہر کا شمار دنیا کے پانچ میگا شہروں میں ہوتا ہے، مگر اس شہر کی وراثت کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بلدیہ کراچی کے ایک اعلیٰ افسر کہتے ہیں معاملہ فنڈ کی کمی کا ہے۔
اس افسر کا کہنا ہے کہ شہر میں چھوٹے 559 نالے ہیں، جو پانی لیاری اور ملیر ندی میں پھینکتے ہیں، 12 نالے سمندر میں براہ راست گندا اور بارش کا پانی منتقل کرتے ہیں۔ ایک ماہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے نالوں میں بارش کا پانی بہت کم سمندر میں منتقل ہوتا ہے، بیشتر پانی شہر میں ہی پھیل جاتا ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ وزیر بلدیات جام خان شورو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کراچی کے بیشتر نالوں پر تجاوزات اور کچی آبادیاں قائم کردی گئی ہیں، جس کی بنا پر نالوں کی چوڑائی کم ہوگئی ہے اور اکثر مقامات پر نالے بند ہورہے ہیں۔ وزیر موصوف یکم جولائی کو نالوں کے معائنے پر نکلے اور یہ خوشخبری سنائی کہ پانچ بڑے نالوں کی صفائی کا کام آؤٹ سورس کردیا گیا ہے اور ان کے کنٹریکٹ دیے جاچکے ہیں۔
سابق ناظم مصطفیٰ کمال اپنے تجربے کی بنیاد پر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر سال نالوں کی صفائی کے لیے رقم بجٹ میں مختص کی جاتی ہے، یہ رقم کہاں خرچ ہوئی، کوئی نہیں جانتا ۔ بارش شروع ہونے کے دوسرے دن وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے 47 ملین روپے نالوں کی صفائی کے لیے جاری کیے۔ بلدیاتی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ چھ ماہ قبل یہ رقم کیوں نہ جاری کی اور اب یہ رقم کس طرح خرچ ہوگی۔ مصطفیٰ کمال نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس وقت اتنی بڑی رقم جاری کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔
کراچی میں بارش سے بجلی کا بھی شدید بحران پیدا ہوا۔ بارش شروع ہوتے ہی شہر کے بیشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، کچھ علاقوں میں چار گھنٹے، بعض علاقوں میں بارہ گھنٹے اور غریبوں کی آبادیوں میں 48 سے 72 گھنٹوں بعد بجلی بحال ہوئی۔ کے الیکٹرک نے صورتحال پر معذرت تو کی، پہلے کہا کہ فیڈر ٹرپ ہوئے، پھر کہا کہ تار جل گئے اور کئی کھمبے گرگئے، مگر بجلی والوں نے بجلی کی بحالی کے لیے طبقاتی پالیسی اختیار کی۔ امرا کے علاقوں ڈیفنس، کلفٹن، باتھ آئی لینڈ، متوسط طبقے کے علاقوں پی ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ میں چند گھنٹوں بعد بجلی بحال ہوگئی۔
غریبوں کے علاقوں لیاقت آباد، سلطان آباد، اورنگی، لیاری ، ملیر اور دوسرے علاقوں میں بارہ سے بہتر گھنٹے تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔ بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے دھابیجی کے پانی فراہم کرنے والے اسٹیشن خاموش ہوگئے۔ شہر میںکئی گھنٹے تک پانی کی فراہمی معطل رہی، پھر شہر کے مختلف علاقوں میں پانی گھروں تک پہنچانے والے پمپنگ اسٹیشن بھی بجلی نہ ہونے سے پانی نہ کھینچ سکے۔ اس طرح شہر میں پانی کی مزید قلت بڑھ گئی۔
کراچی میں بلدیاتی ادارے کئی سال سے مفلوج ہیں۔ کے ایم سی کے صفائی کے عملے کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی اور صفائی کے لیے ضروری سامان مہیا نہیں ہوتا، اس لیے ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ سیوریج لائنوں کی مرمت نہ ہونے کی بنا پر گندا پانی سڑکوں پر اکٹھا ہونا ایک معمول بن گیا۔ بارش کی وجہ سے یہ صورتحال مزید خراب ہوجاتی ہے۔ سپریم کورٹ کی مسلسل مداخلت کے بعد گزشتہ سال کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے، ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، مگر بلدیاتی ادارے اب تک بحال نہ ہوسکے۔ منتخب اداروں کا کردار نظر نہیں آیا۔
جب سابق صدر پرویز مشرف نے بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا، اس نظام کے تحت 2003 میں جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ پہلے منتخب ناظم بنے تھے، اس سال مون سون کی بدترین بارشیں ہوئی تھیں، شاہراہ فیصل کے پانی کی نکاسی اور پھنسی ہوئی گاڑیوں کو نکالنے کے لیے فوج کے دستے آگئے تھے۔
پھر سٹی گورنمنٹ نے بارش سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بنایا تھا، بہت سے نالے صفائی کے بعد بحال ہوئے۔ جب مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو بارش کے پانی سے نمٹنے کے لیے پلان تیار کیا تھا، گجر نالے پر تجاوزات کو ختم کیا گیا، آئی آئی چندریگر روڈ پر کھدائی کرکے قدیم نالہ برآمد کیا گیا اور بارش کے فوراً بعد صفائی کے عملے کی موجودگی کو یقینی بنانے اور پانی کی نکاسی کے اقدامات کیے گئے۔ اس طرح کراچی میں حالات بہتر ہوتے نظر آتے تھے، مگر منتخب بلدیاتی ادارے کے خاتمے کے بعد صورتحال بگڑ رہی ہے۔ اگر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور کراچی میں مسلسل بارشیں ہوئیں تو شہر کا جو حال ہوگا اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔