پھر عید آئی ہے غریبوں کو ستانے کے لیے
ہلال عید بام فلک پر نمودار ہوتا ہے تو مبارک سلامت کی وہ دلآویز صدائیں سنائی دیتی ہیں
ہلال عید بام فلک پر نمودار ہوتا ہے تو مبارک سلامت کی وہ دلآویز صدائیں سنائی دیتی ہیں کہ گرد و پیش مسرتوں کی دیپ مالا جگمگا اٹھتی ہے، فضاؤں میں یک دم ست رنگی پھلجھڑیوں کی چھوٹ سی پڑنے لگتی ہے۔ یہ چکا چوند، یہ اجالا، یہ روشنیاں انھی کو دکھائی دیتی ہیں، جن کی کمائی ان گنت روپوںمیں ہو۔ ورنہ عام آدمی تو بقول ساغر صدیقی
حاکمان وقت دیکھیں قوم کا کیا حال ہے
چند لوگوں کی ہیں عیدیں معاشرہ کنگال ہے
آٹا گھی چینی کا بھاؤ اور کہاں تک جائے گا
قیمتیں ہیں آسماں پر کون نیچے لائے گا
پچھلے سال بھی عید کے موقعے پر سول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا تھا اور وہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس سال بھی ان کا یہ مطالبہ پور نہیں ہوا۔ غریب کلرک قلم چھوڑ ہڑتالیں کر کر کے تھک گئے ہیں لیکن حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ پچھلے سال بھی جب یہ عید آئی تھی تو قومی و کمرشل بینکوں کا ایک سو اسی ارب روپے کا خطیر سرمایہ چند سرمایہ داروں کی مضبوط قوت ہاضمہ کی نذر تھا اور اس سال بھی ایک پھوٹی کوڑی کی بازیابی نہیں وہ سکی۔
پچھلے سال بھی جب اس دن مظلوم عدالتوں، تھانوں اور کھلی کچہریوں کے ''سنگ آستاں'' پر سرپھوڑ رہے تھے اور آج بھی مظلوم اپنے حق کی تلاش میں سرگردااں ہے۔ پچھلے سال بھی وزیراعظم نے انصاف کے متلاشیوں اورمظلوموں کو ان کی دہلیز پر انصاف پہنچانے کی خوش خبری سنائی تھی اور اس سال بھی وہ لندن میں بیٹھ کر یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ مظلوم کو اس کا حق دلوانا ہماری قومی ذمے داری ہے۔ ہم یہ کچے پکے راگ نہ جانے کب تک سنیں گے؟ ظلم، ناانصافی، ناہمواری اور طبقاتی امتیازات کے سانپ ان زنجیر بکف 20کروڑ قیدیوں کو کب تک ڈستے رہیں گے۔
کل میں نے اور آپ نے تبدیلی کے خواب دیکھے تھے اور آج بھی ہم پھر اسی قسم کے خواب آنکھوں میں سجائے ''ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم'' کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ وہ دن کب آئے گا جب محروم طبقات کے جھونپڑوں میں روشنی ہوگی اور غاصب مقتدر طبقات کے محلات کو انقلاب کا سیل بے پناہ بلڈوز کر کے دھرتی کے ناسوروں کا خاتمہ کریگا اور جناح آبادیوں، لالو کھیتوں اور دھوپ سڑیوں کے مکین بارگاہ رب العزت میں فرط مسرت سے سجدہ شکرانہ ادا کرتے ہوئے کہیں کہ ''اے زمینوں اور آسمانوں کے مالک! تیرا شکریہ کہ تو نے اس پاک سرزمین کو ان ناسوروں سے پاک کر دیا، جنہوں نے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک بنائے اور کھربوں کے قرضے بغیر سانس لیے ڈکار لیے۔
ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا کیوں کہ یہ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور اسمبلیاں تو ''مقدس''ہیں اور اس مقدس اسمبلی میں بھی کبھی غریب کی بات نہیں کی گئی... ریکارڈ گواہ ہے کہ پارلیمنٹ میں مہنگائی کے موضوع پر بحث کے دوران ارکان کی حاضری افسوسناک حد تک کم ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ مہنگائی ارکان اسمبلی کا مسئلہ نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت معاشرے کے مقتدر طبقات سے تعلق رکھتی ہے، یہ وہ بااختیار مقتدر طبقات ہیں کہ زرعی اراضی سے سالانہ 700 ارب کی دولت سمیٹتے ہیں لیکن قومی خزانہ میں ایک پھوٹی کوڑی بطور ٹیکس جمع کرانے کے روادار نہیں۔ان جاگیرداروں اور دیہہ فرعون کے کتے بھی تازہ گوشت کھاتے ہیں لیکن ان کے 15لاکھ کھیت مزدوروں کو گوشت کھانے کے لیے عید قرباں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یہ وہ'' برہمن'' ہیں جو ہر سال کتا دوڑ،ریچھ کی لڑائی اور دیگر عیاشیوں پر 14ارب 82 کروڑ 27لاکھ روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیںلیکن کوئی احتساب بیورو ان ''مقدس بچھڑوں'' پرہاتھ ڈالنے کا تصور بھی نہیںکر سکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے7فیصد جاگیردار 63 فیصد زمین پر قابض ہیں جب کہ 93فیصد کسان صرف 37 فیصد زمین کے مالک ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عید سے پہلے تو اپنی تنخواہوں میںخاطر خواہ اضافہ فرما لیا مگر انھیں غریب کا خیال نہیں آیا۔ بقول شاعر
قوم کی بے چارگی پہ حکمران ہنسنے لگیں
آستینوں کے وہ بن کر سانپ جب ڈسنے لگیں
مہنگی ہر شے ہے رضا انسان سستا ہو گیا
خودکشی پر اس لیے وہ کمر بستہ ہو گیا
آپ ان حکمرانوں کی اہلی اور نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر سال عید آتی ہے اور ہر سال مہنگائی کا رونا رویا جاتاہے ... ہر سال سیلاب آتے ہیں اور ہرسال سیکڑوں لوگ مرتے ہیں ... لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا... اور نہ ہی اس طرف کوئی سنجیدہ کوشش عمل میں لائی جاتی ہے ... یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ حکمران طبقہ تو ایک طرف بعض تاجر و ذخیرہ اندوز حضرات ہی عوام کو لوٹنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقعوں پر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔
حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد دیگر طبقات کے لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکا میں لوگوں کی اکثریت، ایسی چیزیں جو عام دنوں میں گراں ہونے کے باعث نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقعے پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے۔پاکستان میں راشی افسروں، ملاوٹ کرنے والے متشرع تاجروں، تراویح کا ناغہ نہ کرنے والے ذخیرہ اندوزوں، پانچ وقت نماز کی پابندی کرنے والے اور رمضان میں داڑھیاں رکھ لینے والے ٹارگٹ کلرز کے لیے یہ مہینہ بیحد بابرکت ثابت ہوتا ہے۔ ایک روپے کی چیز پندرہ روپے میں فروخت کی جاتی ہیں اور اس صریحاً لوٹ مار کو جائز بھی سمجھا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ عید کے دن جیسے جیسے قریب آتے جاتے ہیں، عام لوگوں کا بلڈپریشر بڑھنے لگتا ہے، اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح مارکیٹوںاور شاپنگ سینٹرز میں خریداروں کا ہجوم تو نظر آرہا تھا، لیکن جب دکانداروں سے بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس ہجوم میں لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے، چیزوں کے دام پوچھنے کے بعد جن کا چہرہ کا رنگ ماندپڑ جاتا ہے اور ان میں سے اکثر کی استطاعت اتنی بھی نہیں ہوتی کہ وہ مول بھاؤ کرسکیں۔ وہ مایوسی کے عالم میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دکاندار بھی اس صورتحال سے سخت پریشان تھے۔ پہلے لوگ کئی کئی چیزیں خریدتے تھے۔
اب کوئی ایک چیز خریدتے وقت بھی کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔ایسا صرف ان حکمرانوں کی وجہ سے ہے جو اس عوام پر مسلط کر دیے گئے ہیں جنھیں نہ تو عوام سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی مارکیٹوں میں چیک اینڈ بیلنس رکھنے میں ، یہ وہ حکمران ہیں جو اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ''رمضان بازاروں '' کا ڈرامہ لگاتے ہیں ، اگر یہی حکمران مارکیٹوں میں موجود اشیاء خورونوش پر اپنا مکمل کنٹرول دکھائیں تو ایسے بازاروں کی ضرورت ہی نہ پڑے لیکن قسمت اس قوم کی کہ انھیں شعبدہ باز حکمران میسر ہوئے ہیں ورنہ عوام کا ہر دن عید کا دن ہو...!!!