اشرافیہ کا عوام پر غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ آخری حصہ

17 مئی 2016ء کو عالمی مارکیٹ میں پٹرول 48.90 ڈالر کا ایک بیرل تھا۔

k_goraya@yahoo.com

17 مئی 2016ء کو عالمی مارکیٹ میں پٹرول 48.90 ڈالر کا ایک بیرل تھا۔ اس طرح 67 سالوں میں یورپی عوام کے لیے عالمی سطح پر پٹرول 2864 فیصد مہنگا ہوا۔ پاکستان میں 1949ء میں 3.318 روپے کا ڈالر تھا۔ عالمی مارکیٹ میں 1.65 ڈالر ایک بیرل کے حساب سے پاکستان نے یہ پٹرول 5.4747 روپے کا لیا۔ 17 مئی 2016ء کو 105.10 روپے کا ایک ڈالر تھا۔

عالمی مارکیٹ میں پٹرول 48.90 ڈالر کا ایک بیرل تھا۔ پاکستانی روپے کی قیمت کے حساب سے 5139.39 روپے کا یہ پٹرول خریدا۔ پاکستانی عوام کے لیے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں اضافہ 93775 فیصد کردیا گیا۔ یورپی ملکوں کی جنت نما زندگیوں کے گیت گانے والے کالم نگاروں، سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ یورپی ترقی کے ماتھے کا جھومر معاشی غلام ملکوں کے اربوں عوام کا خون نچوڑ کر یورپی اعلیٰ معیارات کے اعلیٰ نمونے کے محلات کی اینٹوں اور بنیادوں میں غریبوں کی آہیں، سسکیاں، چیخیں اور تمام تر وسائل سے محرومیاں شامل ہیں۔

کتاب IFS Book Year 1975 IMF کے صفحے 77 پر اشیا قیمتیں دی گئی ہیں۔ گندم 1949ء میں عالمی مارکیٹ میں اوسطاً 2.517 ڈالر کی (باشل) Bushal تھی اور مارچ 2015ء کو 230.8 ڈالر کا میٹرک ٹن تھی۔ ایک میٹرک ٹن برابر 10160.0 کلوگرام کے ہوتا ہے۔ (ایک باشل میں 27.25 کلوگرام ہوتے ہیں) مارچ 2015ء میں ایک ڈالر کی گندم 4.400 کلوگرام تھی۔

1949ء میں گندم 2.517 ڈالر باشل کے حساب سے ایک ڈالر کی 10.826 کلوگرام تھی۔ گندم کی قیمت میں یورپی ملکوں میں 66 سالوں میں اضافہ 146 فیصد ہوا۔ کتاب Statistical Digest of Pakistan Government Pakistan Karachi جو 1950ء میں شایع ہوئی تھی اس کے صفحے 232-33 پر نومبر 1948ء میں گندم کراچی میں (12 پیسے) 0.12 روپے فی سیر تھی۔ اور 2016ء جون میں 50 روپے فی کلو چکی کا آٹا بک رہا ہے۔ اس طرح 68 سالوں کے دوران آٹے (گندم) کی قیمت میں 41567 فیصد اضافہ ہوا۔ جو یورپی ملکوں کے 146 فیصد نکالنے کے بعد بھی 41421 فیصد زیادہ ہے۔ جو روپیہ 1948ء میں 3.318 روپے کا ڈالر تھا۔ 17 مئی 2016ء کو 105.10 روپے کا ڈالر تھا۔ روپے کی قیمت میں کمی 3068 فیصد کی گئی تھی۔

سڈ مڈ یہ وہ سامراجی ڈالر ٹیکس ہے جو ہمیں باہر سے ہر شے خریداری پر ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2015-16ء کے صفحے 58-59 پر مالی سال 2014-15ء کو مرکزی بجٹ خسارہ 1456725.00 ملین روپے اور تجارتی خسارہ اسی کتاب کے صفحے 99 پر 2246639.0 ملین روپے ہوا۔ جو مجموعی 3703364.0 ملین روپے بنتا ہے۔ اس خسارے کو بڑھانے میں سڈمڈ سامراجی ڈالر ٹیکس 3068 فیصد بھی شامل ہے۔ معیشت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی درس گاہوں نے عوام الناس اور معیشت کے طالب علموں کو جو ڈگریوں اور اعلیٰ نوکریوں کی دوڑ میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ سب ICMA, IBP, MS Economic, Accounting, MA Economic, ACCA, CFA, CA, M.Phill, MBA, Finance, Banking, Finance اور PHD کرنے والوں کو شاید زمینی حقائق معلوم نہیں ہیں کہ ہماری معیشت کی شہ رگ پر امریکا قابض ہے۔ کیا اس میں آزاد ہونے کا کوئی فارمولا، تھیوری پڑھ رہے ہیں کہ نہیں؟ غیر پیداواری بڑھتے ہاتھوں سے پیداواری ہاتھ کیوں کم ہوتے جا رہے ہیں؟ یاد رکھیے غلاموں اور آقاؤں میں فرق سرمایہ دارانہ سسٹم میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔


ایک دن لازماً پاکستان سامراج سے معاشی آزادی چھین لے گا۔ اور پھر فوجی قوت، عوامی قوت، معاشی قوت کی کیمسٹری سے ایسے ملکوں کے لوگ ملک اور شہریوں کو احتراماً پیش آئیں گے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو علم ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی معیشت کو CDMED کا گن، دیمک سامراج اور حکمرانوں کی منشا سے تباہ کررہا ہے۔ سامراج سڈ مڈ لگا کر اداروں کو خسارے میں ڈالتا ہے۔ اور خسارے سے نکلنے کے لیے مہنگے قرضے دیتا ہے۔ اور جو ادارے خسارے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سامراج حکمرانوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کی نجکاری کرکے بجٹ خسارہ پورا کرو۔ تجارتی خسارے کے لیے قرض دیتا ہے۔ یاد رہے کہ جنرل ایوب خان کے بعد معیشت پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے سڈمڈ لگنا شروع ہوا۔

اس کے ساتھ ادارے خدارے میں لگاتار جاتے گئے۔ بھٹو نے ان اداروں کو حکومتی ملکیت میں لینا شروع کردیا اور جوں جوں پاکستانی معیشت پر سڈمڈ لگتا گیا توں توں اداروں کی نجکاری تیز ہوتی گئی۔ ملکی پیداواری اور نفع بخش ادارے، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، پی ٹی سی ایل، بینکنگ سیکٹر سب کو خسارے میں ڈال دیا گیا۔ ان کی نجکاری کے ساتھ ساتھ سڈمڈ کے شکار ملکوں کی معیشت میں سامراج نے اپنی مارکیٹوں کو تیزی سے امپورٹ کی شکل میں داخل کیا۔ سڈمڈ کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سستی لیبر، خام مال حاصل کرنا شروع کردیا۔

مقامی صنعتی کلچر کو امپورٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تباہ کردیا۔ افواج کو کمزور کرنے کے لیے حکمرانوں کو استعمال کرکے دہشت گرد تنظیمیں بنوا کر خاص کر ملکی دفاع کو کمزور کرنے کی پلاننگ پر عمل کیا جا رہا ہے۔ سامراج کے راستے میں سب سے بڑی دیوار افواج ہیں اور عوام ہیں سامراج عوام اور افواج کے درمیان تضادات پیدا کرکے دونوں کے درمیان فاصلے بڑھانے پر عمل کر رہا ہے۔ ملکی پیداواری اداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنے حمایتیوں سے نجکاری کروا رہا ہے اور حکومتی اداروں کو چلانے کے لیے جنرل سیل ٹیکس تک محدود کرکے اپنی پسند کا ملکی انتظامی ڈھانچہ لا رہا ہے۔

بینکنگ کلچر ختم کرکے اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ سامراج اب تک براہ راست حکمرانی کی جگہ ان ڈائریکٹ غداروں کے ذریعے حکمرانی کر رہا ہے۔ ''عالمی سامراج حکومت'' کا ایجنڈا ہے کہ پوری دنیا کے معاشی غلام ملکوں کے وسائل اور ضروری افرادی قوت باقی رہے۔ باقی دنیا کی آبادی کو آپس میں لڑا کر ختم کیا جائے۔ اس کے لیے سامراج کو ہر معاشی غلام ملک کے ایسے کرتا دھرتا لوگوں کی ضرورت ہے جن کے مفادات امریکا اور یورپ سے جڑے ہوں تاکہ وہ سامراج کے حکم کی تعمیل کرتے رہیں۔ آف شور کمپنیاں، سوئس بینک اور طاہر القادری، عمران خان یورپ کی ترقی اور لا اینڈ آرڈر کی مثالیں کیوں دیتے ہیں؟ کیا ان کو یورپی ترقی میں معاشی غلام ملکوں کے عوام کا خون شامل نظر نہیں آتا ہے؟ پاکستان کی افواج کو جبراً آزمائش میں ڈال دیا گیا۔ عوام اور فوج دونون مل کر سامراجی دلالوں اور سامراج کو شکست دیں گے۔

''بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اداروں کا خساروں میں جانا حقیقتاً سڈمڈ کا نتیجہ ہے۔'' پاکستانی روپے کی قیمت میں جس فیصد نسبت سے کمی ہوگی اسی فیصد نسبت سے پٹرولیم مصنوعات عوام کی پہنچ سے دور ہوں گے ادارے خسارے کا شکار ہوں گے۔ حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کے لیے لوڈ شیڈنگ کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ کیونکہ ان کے پاس افراط زر ہے۔ یہ مہنگی ترین اشیا خرید سکتے ہیں۔ طاہر القادری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، نواز شریف، آصف علی زرداری، چوہدری شجاعت حسین ودیگر پارٹیاں عوام کو روزگار، سستے مکان، سستی اشیا، لوڈ شیڈنگ اور روپے کی قیمت کی کمی کو ختم کرسکتے ہیں؟ اگر ہاں تو عوام ان کو ایک نہیں ہزار ووٹ دیں۔

ورنہ نہیں، کیونکہ یہ تمام لیڈران اپنا معاشی تحفظ یورپی ملکوں میں محفوظ رکھتے ہیں وہ عوام کا معاشی تحفظ کہاں بحال کریں گے؟ آج عوام اور پاکستان تاریخ کے ایسے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے ایک طرف سامراج کی معاشی غلامی اور اس کی ملک میں بڑھتی جارحیت و مداخلت دوسری طرف اشرافیہ ان حالات پر پردہ ڈال کر عوام کو جمہوری غلام بناکر اپنا معاشی غلام بنائے رکھنے پر مصر یا بضد ہے کیونکہ اشرافیائی جمہوری کلچر میں ہی اس کی معاشی بقا ہے۔ عوام کو اپنی جمہوری و معاشی بقا اور آزادی کی جنگ لڑنی ہے اور پھر اکثریت کا کامیاب ہونا ایک فطری امر ہے۔ کیونکہ غربت زدہ عوام اکثریت میں ہیں۔
Load Next Story