گریٹ گیم اور چینجر
دنیا کے (مقدس مذہبی مراکز کو چھوڑ کر) مشرقی خطوں میں بھی مغربی تہذیب وتمدن اپنے جوبن پر ہے
ISLAMABAD:
تقسیم اور برتری کی جنگ: کرۂ ارض کے براعظم افریقہ کی تہذیب مصر سے لے کر ایک طرف چائنا، دوسری طرف تہذیب فارس (ایران) تک ہندوستان کو بھی اپنے گھیرے میں لیے ایک تکون کی شکل میں تقسیم ہونے والے قطعۂ زمین کو مشرق مان لیں، اور آسٹریلیا سے لے کر روس کے برفیلے علاقوں تک کے انگلش کی ''C'' کی شکل لیتے باقی ماندہ زمینی حصے کو مغرب کا خطاب دے دیں تو شاید تقسیم کے ماہر نازک اندام حضرات کو اس تقسیم پر اعتراض نہ ہو گا۔ اس سے کم سطح پر ہم مغرب کو یورپ و امریکا کی شناخت سے تقسیم کرسکتے ہیں، جب کہ مشرق کو تہذیب مصر، تہذیب چائنا، تہذیب فارس، تہذیب ہندوستان، تہذیب فلسطین اور تہذیب خانہ کعبہ سے جڑے انسانوں کی شکل میں دیکھ اور جانچ سکتے ہیں۔
گو کہ موجودہ ارتقائی مرحلے کی دنیا کے (مقدس مذہبی مراکز کو چھوڑ کر) مشرقی خطوں میں بھی مغربی تہذیب وتمدن اپنے جوبن پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان مشرقی انسانوں کی انفرادی حیثیت کو دعوت مبارزت دینا شاید مناسب نہ ہو۔ جب کہ حضرت انسان نے اپنی اس گروہی تقسیم میں زمین کے ہر ایک کونے میں اپنی انفرادی برتری کی جنگ کو مختلف ارتقائی اظہار کے مرحلوں میں برپا کرکے اپنی اپنی معلوم تاریخ اور تقسیم کو رنگینیاں بخشی ہوئی ہیں۔
فکری تفریق اور بے وقوفی: باہمی برتری کی جنگ میں چونکہ یورپ کے انسانوں میں دیوتا کی سربراہی میں ایسی برتری و معتبری حاصل کرنے کی اساسی سوچ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جسے ہم معلوم تاریخ انسانی کے پہلے بڑے ارتقائی مرحلے میں سیزر، جولیس، آگسٹس، ہرکولیس سمیت دیوتاؤں کی ایک لمبی فہرست کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں ۔ زیوس دیوتا کے نام نہاد بیٹے الیگزینڈر یعنی سکندر کے مرحلے میں مغرب کو مشرق (یعنی تہذیب فارس، تہذیب مصر و تہذیب فلسطین) پر حاوی ہوتے دیکھ چکے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں صلیب کے دم پر وہ مشرق پر چڑھ دوڑے (لیکن تھک ہار کر لوٹ گئے) اور تیسرے مرحلے میں جدید معاشی نظریات اور ترقی یافتہ ایجادات (خاص طور جدید ہتھیاروں) کے دم پر مشرق سمیت عالم انسانیت کو اپنے زیرنگیں کیے ہوئے ہیں۔ یعنی مغربی انسانوں کی معلوم تاریخ کی روشنی میں ہم ان میں برتری و معتبری ثابت کرنے کے لیے بربریت، توسیع پسندی اور جارحانہ جنون کچھ نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ موجودہ ارتقائی مرحلے میں دو عالمی خونریز جنگیں اور ہیروشیما و ناگاساکی سانحات اس بات کا ثبوت ہیں۔
جب کہ دوسری جانب مشرق کے انسانوں میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل مسیحاؤں کی ضرورت تو ہر ایک ارتقائی مرحلے میں دیکھنے کو ملتی ہے لیکن ان میں جارحانہ اقدامات سے عیش و عشرت حاصل کرنے کے بجائے ''دوسری دنیا'' میں برتری و معتبری ملنے کی سوچ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لیے ان میں جارحیت پسندی کے دم پر اپنی برتری ثابت کرنے کے عنصر کے بجائے قطع تعلق کرنے کے سلسلے دیکھنے کو ملتے ہیں، جس میں ہندوستانی دیوتا شری رام چندر اور مہاسمراٹ راجہ اشوک کا بنواس کاٹنا، بنی اسرائیلیوں کا اپنے پیغمبر موسیٰؑ کی قیادت میں مصر سے انخلا کرنا، چین میں ''کی شے'' خاندان کی جانب سے جنگجویانہ اور خونریز فطرت کا اظہار کرنے والے انسانوں کے خلاف ایک طرف دیوار چین کی تعمیر کرنا تو دوسری جانب انھیں موجودہ جاپان، کوریا اور تبت کے علاقوں کی جانب دھکیل دینا اس کی مثالیں ہیں۔ جب کہ مشرق کی تہذیب فارس کے انسانوں میں جارحیت پسند دیوتا کا تصور دینے میں اجمیشیا نامی یونانی نژاد لڑکی سرگرم دکھائی دی جاتی ہے۔
جس نے اپنے منہ بولے بھائی، شہنشاھ دارا کے بیٹے، فارس کے فرمانروا Xerxes کو یونان، ایتھنز اور اسپارٹا کو راکھ کا ڈھیر بناکر دیگر انسانوں سے خود کے دیوتا ہونے کا اقرار کرانے پر اکسایا تھا۔
اس ایک مثال کے علاوہ مشرقی انسانوں کی تاریخ میں مغرب کی جانب دیوتائی جارحیت اور توسیع پسندی کی کوئی دوسری مثال دستیاب نہیں ہے۔ جب کہ مشرق ومغرب کے انسانوں کے مابین اس بنیادی طور پر بہت بڑی فکری تفریق کے باوجود آج مغربی انسانوں نے مشرقی انسانوں کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ اقتصادی وفوجی طاقت ہونے کے باوجود اگر ان کی جانب سے کسی جارحیت پسند دیوتا یا غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل مسیحا کے بغیر مغربی اجارہ داری اور برتری کے خلاف آواز اٹھائی تو یہ ان کی حماقت اور بے وقوفی ہی ہوگی۔
جب کہ حیرت انگیز طور پر مغرب کے دارالحکومت یعنی امریکا کو اپنے زیرنگیں رکھنے والے انسان دیگر انسانوں پر اتنی واضح برتری حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنی مکمل فتح کا جھنڈا لہرانے کا اعلان کرنے کے لیے کسی دیوتا کے منتظر نظر آتے ہیں۔ اور اس کے ظاہر ہونے تک یہ دنیا کے ہر ایک کونے سے مادی وسائل ولوازمات حیات اپنے زیر تسلط لے کر مقامی انسانوں کو اپنی ایجادات تھماتے آئے ہیں۔ فکر انگیز پہلو کہ آج عالم انسانیت دیوتاؤں اور مسیحاؤں کے انتظار میں مغربی انسانوں کی متعارف کردہ ایجادات کو اپنانے اور اجارہ داری کو سر تسلیم خم کرنے کی وسیع النظری دکھانے کی مجبوری خود پر مسلط کیے ہوئے ہے۔
بیماریوں پر پلنا: کرۂ ارض پر مغرب ومشرق کے فرق کے باوجود عالم انسانیت کے تمام گروہوں سے متعلق افراد کے مابین ایجادات اور ان کی فروخت کی برتری حاصل کرنے کے سوال پر ایک اقتصادی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور اس جنگ میں مغربی انسان مشرقی انسانوں سے لگ بھگ چار صدیاں آگے ہیں۔ شاید یہی وجہ کہ آج مشرق میں بھی پیداواری وسائل ہونے کے باوجود ذرایع پیداوار ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
مشینیں انسانوں کی جگہ لینے لگی ہیں، جس کے باعث مشینی انداز کی طرز حیات کے لیے ذرایع پیداوار میں ایجاداتی یا ان ایجادوں کی بہترین فروخت کی تعلیم ہی بقائے حیات تصور کی جانی لگی ہے، جس میں اب مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی گھروں سے نکل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے پر مجبور کر دینے جیسی بیماری لاحق ہو چکی ہے۔
مزیدار بات یہ کہ یورپ کے قدیم انسان لگ بھگ گزشتہ چار صدیوں سے اس قسم کی مزید بیماریوں میں بھی نہ صرف مبتلا ہوتے چلے آرہے ہیں، بلکہ اب تو یہ آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان بیماریوں کے بغیر یورپی انسانوں یعنی ''C'' اور تکون کے زمینی خطوں میں مغربی نظام تمدن اپنانے والے ممالک کا تمام تر معاشرتی ڈھانچہ دھڑام سے زمیں بوس ہوجائے گا۔ شاید اسی لیے ''وہ'' امریکی مغربیت کے زیر سایہ صرف ''آم کھانے'' کی سوچ رکھنے لگے ہیں۔
چینجر کون؟ گریٹ گیم کیا؟: مغرب پرستوں کی نام نہاد انسان دوستی کے دائرے میں نہتے اور مغرب کے ''منکر'' (فلسطینی و کشمیری) مشرقی انسان نہیں آتے۔ جب کہ شناخت کے لحاظ سے خانہ کعبہ کے تہذیبی وتمدنی نظام سے تہذیبی طور پر تعلق رکھنے والے ممالک کی صف میں پاکستان مغرب کے ان ''منکرین'' کا اتنا بڑا حمایتی ہے کہ اس مشرقی منکریت کو زندہ رکھنے کے لیے وہ کسی مسیحا کے انتظار میں رہنے کے بجائے خود کو وقت کا جدید مسیحا ثابت کرنے کی نہ صرف جنگ لڑتا آیا ہے بلکہ اس جنگ میں اس نے تو خود کو ناقابل تسخیر بھی بنالیا ہے۔ جب کہ اس جنگ میں اس کا سب سے بڑا ساتھی وہ چائنا ہے، جس نے اپنی ایجادات سے انسانوں کی قوت خرید کو استحکام بخشا۔ تو نائن الیون کے تسلسل میں عالم انسانیت کو ہراساں رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چائنا کا گھیراؤ کرنے کی مغربیت عالم انسانیت کے سامنے کھل کر آنے لگی ہے۔
جس کے نتیجے میں مشرق و مغرب میں ایک بے وجہ قتل عام جاری ہے اس طرح کے سیاق وسباق میں پاک چین اکانومک کوریڈور کے ذریعے انسانوں کی قوت خرید کے عین مطابق ایجادات کی Demand And Supply کو ممکن بنالیے جانے کے بعد مغرب ومشرق کے انسانوں کا رخ کس طرف ہوگا اور ایسا ہونا مغربیت کو کھلی دعوت مبازرت جیسا ہی ہے۔ جس کے جواب میں مغرب کی جانب سے ایک عرصے سے ہر حد پار کر جانے کے عملی اشارات بھی دیے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب منظر میں اس بات کا اظہار ہے جس طرح کہ پاکستان اور چائنا یہ جانتے ہیں کہ انسانوںکے موجودہ مرحلے پر گیم چینجر کی شکل میں مشرق ومغرب کے مسیحا کا کردار ادا کرنے کی ذمے داریاں انھی پر عائد ہوتی ہیں۔
تقسیم اور برتری کی جنگ: کرۂ ارض کے براعظم افریقہ کی تہذیب مصر سے لے کر ایک طرف چائنا، دوسری طرف تہذیب فارس (ایران) تک ہندوستان کو بھی اپنے گھیرے میں لیے ایک تکون کی شکل میں تقسیم ہونے والے قطعۂ زمین کو مشرق مان لیں، اور آسٹریلیا سے لے کر روس کے برفیلے علاقوں تک کے انگلش کی ''C'' کی شکل لیتے باقی ماندہ زمینی حصے کو مغرب کا خطاب دے دیں تو شاید تقسیم کے ماہر نازک اندام حضرات کو اس تقسیم پر اعتراض نہ ہو گا۔ اس سے کم سطح پر ہم مغرب کو یورپ و امریکا کی شناخت سے تقسیم کرسکتے ہیں، جب کہ مشرق کو تہذیب مصر، تہذیب چائنا، تہذیب فارس، تہذیب ہندوستان، تہذیب فلسطین اور تہذیب خانہ کعبہ سے جڑے انسانوں کی شکل میں دیکھ اور جانچ سکتے ہیں۔
گو کہ موجودہ ارتقائی مرحلے کی دنیا کے (مقدس مذہبی مراکز کو چھوڑ کر) مشرقی خطوں میں بھی مغربی تہذیب وتمدن اپنے جوبن پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان مشرقی انسانوں کی انفرادی حیثیت کو دعوت مبارزت دینا شاید مناسب نہ ہو۔ جب کہ حضرت انسان نے اپنی اس گروہی تقسیم میں زمین کے ہر ایک کونے میں اپنی انفرادی برتری کی جنگ کو مختلف ارتقائی اظہار کے مرحلوں میں برپا کرکے اپنی اپنی معلوم تاریخ اور تقسیم کو رنگینیاں بخشی ہوئی ہیں۔
فکری تفریق اور بے وقوفی: باہمی برتری کی جنگ میں چونکہ یورپ کے انسانوں میں دیوتا کی سربراہی میں ایسی برتری و معتبری حاصل کرنے کی اساسی سوچ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جسے ہم معلوم تاریخ انسانی کے پہلے بڑے ارتقائی مرحلے میں سیزر، جولیس، آگسٹس، ہرکولیس سمیت دیوتاؤں کی ایک لمبی فہرست کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں ۔ زیوس دیوتا کے نام نہاد بیٹے الیگزینڈر یعنی سکندر کے مرحلے میں مغرب کو مشرق (یعنی تہذیب فارس، تہذیب مصر و تہذیب فلسطین) پر حاوی ہوتے دیکھ چکے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں صلیب کے دم پر وہ مشرق پر چڑھ دوڑے (لیکن تھک ہار کر لوٹ گئے) اور تیسرے مرحلے میں جدید معاشی نظریات اور ترقی یافتہ ایجادات (خاص طور جدید ہتھیاروں) کے دم پر مشرق سمیت عالم انسانیت کو اپنے زیرنگیں کیے ہوئے ہیں۔ یعنی مغربی انسانوں کی معلوم تاریخ کی روشنی میں ہم ان میں برتری و معتبری ثابت کرنے کے لیے بربریت، توسیع پسندی اور جارحانہ جنون کچھ نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ موجودہ ارتقائی مرحلے میں دو عالمی خونریز جنگیں اور ہیروشیما و ناگاساکی سانحات اس بات کا ثبوت ہیں۔
جب کہ دوسری جانب مشرق کے انسانوں میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل مسیحاؤں کی ضرورت تو ہر ایک ارتقائی مرحلے میں دیکھنے کو ملتی ہے لیکن ان میں جارحانہ اقدامات سے عیش و عشرت حاصل کرنے کے بجائے ''دوسری دنیا'' میں برتری و معتبری ملنے کی سوچ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لیے ان میں جارحیت پسندی کے دم پر اپنی برتری ثابت کرنے کے عنصر کے بجائے قطع تعلق کرنے کے سلسلے دیکھنے کو ملتے ہیں، جس میں ہندوستانی دیوتا شری رام چندر اور مہاسمراٹ راجہ اشوک کا بنواس کاٹنا، بنی اسرائیلیوں کا اپنے پیغمبر موسیٰؑ کی قیادت میں مصر سے انخلا کرنا، چین میں ''کی شے'' خاندان کی جانب سے جنگجویانہ اور خونریز فطرت کا اظہار کرنے والے انسانوں کے خلاف ایک طرف دیوار چین کی تعمیر کرنا تو دوسری جانب انھیں موجودہ جاپان، کوریا اور تبت کے علاقوں کی جانب دھکیل دینا اس کی مثالیں ہیں۔ جب کہ مشرق کی تہذیب فارس کے انسانوں میں جارحیت پسند دیوتا کا تصور دینے میں اجمیشیا نامی یونانی نژاد لڑکی سرگرم دکھائی دی جاتی ہے۔
جس نے اپنے منہ بولے بھائی، شہنشاھ دارا کے بیٹے، فارس کے فرمانروا Xerxes کو یونان، ایتھنز اور اسپارٹا کو راکھ کا ڈھیر بناکر دیگر انسانوں سے خود کے دیوتا ہونے کا اقرار کرانے پر اکسایا تھا۔
اس ایک مثال کے علاوہ مشرقی انسانوں کی تاریخ میں مغرب کی جانب دیوتائی جارحیت اور توسیع پسندی کی کوئی دوسری مثال دستیاب نہیں ہے۔ جب کہ مشرق ومغرب کے انسانوں کے مابین اس بنیادی طور پر بہت بڑی فکری تفریق کے باوجود آج مغربی انسانوں نے مشرقی انسانوں کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ اقتصادی وفوجی طاقت ہونے کے باوجود اگر ان کی جانب سے کسی جارحیت پسند دیوتا یا غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل مسیحا کے بغیر مغربی اجارہ داری اور برتری کے خلاف آواز اٹھائی تو یہ ان کی حماقت اور بے وقوفی ہی ہوگی۔
جب کہ حیرت انگیز طور پر مغرب کے دارالحکومت یعنی امریکا کو اپنے زیرنگیں رکھنے والے انسان دیگر انسانوں پر اتنی واضح برتری حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنی مکمل فتح کا جھنڈا لہرانے کا اعلان کرنے کے لیے کسی دیوتا کے منتظر نظر آتے ہیں۔ اور اس کے ظاہر ہونے تک یہ دنیا کے ہر ایک کونے سے مادی وسائل ولوازمات حیات اپنے زیر تسلط لے کر مقامی انسانوں کو اپنی ایجادات تھماتے آئے ہیں۔ فکر انگیز پہلو کہ آج عالم انسانیت دیوتاؤں اور مسیحاؤں کے انتظار میں مغربی انسانوں کی متعارف کردہ ایجادات کو اپنانے اور اجارہ داری کو سر تسلیم خم کرنے کی وسیع النظری دکھانے کی مجبوری خود پر مسلط کیے ہوئے ہے۔
بیماریوں پر پلنا: کرۂ ارض پر مغرب ومشرق کے فرق کے باوجود عالم انسانیت کے تمام گروہوں سے متعلق افراد کے مابین ایجادات اور ان کی فروخت کی برتری حاصل کرنے کے سوال پر ایک اقتصادی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور اس جنگ میں مغربی انسان مشرقی انسانوں سے لگ بھگ چار صدیاں آگے ہیں۔ شاید یہی وجہ کہ آج مشرق میں بھی پیداواری وسائل ہونے کے باوجود ذرایع پیداوار ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
مشینیں انسانوں کی جگہ لینے لگی ہیں، جس کے باعث مشینی انداز کی طرز حیات کے لیے ذرایع پیداوار میں ایجاداتی یا ان ایجادوں کی بہترین فروخت کی تعلیم ہی بقائے حیات تصور کی جانی لگی ہے، جس میں اب مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی گھروں سے نکل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے پر مجبور کر دینے جیسی بیماری لاحق ہو چکی ہے۔
مزیدار بات یہ کہ یورپ کے قدیم انسان لگ بھگ گزشتہ چار صدیوں سے اس قسم کی مزید بیماریوں میں بھی نہ صرف مبتلا ہوتے چلے آرہے ہیں، بلکہ اب تو یہ آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان بیماریوں کے بغیر یورپی انسانوں یعنی ''C'' اور تکون کے زمینی خطوں میں مغربی نظام تمدن اپنانے والے ممالک کا تمام تر معاشرتی ڈھانچہ دھڑام سے زمیں بوس ہوجائے گا۔ شاید اسی لیے ''وہ'' امریکی مغربیت کے زیر سایہ صرف ''آم کھانے'' کی سوچ رکھنے لگے ہیں۔
چینجر کون؟ گریٹ گیم کیا؟: مغرب پرستوں کی نام نہاد انسان دوستی کے دائرے میں نہتے اور مغرب کے ''منکر'' (فلسطینی و کشمیری) مشرقی انسان نہیں آتے۔ جب کہ شناخت کے لحاظ سے خانہ کعبہ کے تہذیبی وتمدنی نظام سے تہذیبی طور پر تعلق رکھنے والے ممالک کی صف میں پاکستان مغرب کے ان ''منکرین'' کا اتنا بڑا حمایتی ہے کہ اس مشرقی منکریت کو زندہ رکھنے کے لیے وہ کسی مسیحا کے انتظار میں رہنے کے بجائے خود کو وقت کا جدید مسیحا ثابت کرنے کی نہ صرف جنگ لڑتا آیا ہے بلکہ اس جنگ میں اس نے تو خود کو ناقابل تسخیر بھی بنالیا ہے۔ جب کہ اس جنگ میں اس کا سب سے بڑا ساتھی وہ چائنا ہے، جس نے اپنی ایجادات سے انسانوں کی قوت خرید کو استحکام بخشا۔ تو نائن الیون کے تسلسل میں عالم انسانیت کو ہراساں رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چائنا کا گھیراؤ کرنے کی مغربیت عالم انسانیت کے سامنے کھل کر آنے لگی ہے۔
جس کے نتیجے میں مشرق و مغرب میں ایک بے وجہ قتل عام جاری ہے اس طرح کے سیاق وسباق میں پاک چین اکانومک کوریڈور کے ذریعے انسانوں کی قوت خرید کے عین مطابق ایجادات کی Demand And Supply کو ممکن بنالیے جانے کے بعد مغرب ومشرق کے انسانوں کا رخ کس طرف ہوگا اور ایسا ہونا مغربیت کو کھلی دعوت مبازرت جیسا ہی ہے۔ جس کے جواب میں مغرب کی جانب سے ایک عرصے سے ہر حد پار کر جانے کے عملی اشارات بھی دیے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب منظر میں اس بات کا اظہار ہے جس طرح کہ پاکستان اور چائنا یہ جانتے ہیں کہ انسانوںکے موجودہ مرحلے پر گیم چینجر کی شکل میں مشرق ومغرب کے مسیحا کا کردار ادا کرنے کی ذمے داریاں انھی پر عائد ہوتی ہیں۔