شام کی بگڑتی صورتحال اور او آئی سی کی خاموشی

صدر بشارالاسد کی دمشق سے منتقلی اور خود کش حملوں سے واضح ہوتا ہے...

بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر عرب لیگ اور او آئی سی کو آگے بڑھ کر مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے

شام کی صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ وہاں جاری جنگی صورت حال کے باعث یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ صدر بشار الاسد دمشق سے نکل کر ساحلی شہر لتاکیہ یا طرطوس منتقل ہو گئے ہیں جہاں ان کے حامی آباد ہیں۔ انقلابیوں نے چند روز قبل دمشق میں نیشنل سیکیورٹی ہیڈکوارٹرز پر خودکش حملہ کر کے وزیر دفاع' نائب وزیر دفاع کو ہلاک' وزیر داخلہ اور نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ جنرل حشام اختیار سمیت متعدد افراد کو زخمی کر دیا تھا۔

نائب وزیر دفاع آصف شوکت بشار الاسد کے برادر نسبتی تھے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ زخمی ہونے والے جنرل حشام بھی جاں بحق ہو گئے ہیں۔ صدر بشارالاسد کا دمشق سے کسی دوسرے شہر منتقل ہونا اور اس خود کش حملے سے واضح ہوتا ہے کہ شام کی صورت حال حکومت کے اختیار سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور اس کے اعلیٰ اہلکار بھی انقلابیوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہے ۔ شام میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز 15 مارچ 2011ء کو ہوا۔ حکومت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے گولی کا استعمال کیا تو یہ تحریک دبنے کے بجائے مزید پھیل گئی اور آہستہ آہستہ کئی شہر اس کی لپیٹ میں آ گئے۔

شامی حکومت نے گھبرا کر بڑے پیمانے پر طاقت کا استعمال کیا تو بے شمار شہری ہلاک ہو گئے جس سے ناصرف شہریوں میں اشتعال پھیلا بلکہ اپنے ہی شہریوں کے تڑپتے لاشے دیکھ کر بہت سے سرکاری فوجی بھی منحرف ہو گئے اور باغیوں سے جا ملے۔ انحراف کا یہ سلسلہ نچلی سطح سے شروع ہو کر اعلیٰ سطح تک جا پہنچا ہے۔ اب تازہ ترین اطلاع کے مطابق شام کے مزید تین جنرل دس فوجیوں کے ساتھ منحرف ہو کر ترکی میں داخل ہو گئے ہیں اور اس طرح اب تک چوبیس جنرل منحرف ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔


اگر صورت حال یونہی بگڑتی رہی اور اس میں بہتری کے آثار پیدا نہ ہوئے تو اس امکان کو رد کرنا مشکل امر ہے کہ شامی فوج میں مزید توڑپھوڑ کا عمل جاری رہے گا اور سرکاری فوجی انقلابی گروپ فری سیرین آرمی کے ساتھ شامل ہوتے چلے جائیں گے اور نوبت یہاں تک بھی پہنچ سکتی ہے کہ انقلابی کامیاب ہو جائیں اور سرکاری فوجوں کو ہتھیار ڈالنے پڑیں جیسا کہ یہ بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ سرکاری فوج اور فری سیرین آرمی کے درمیان شدید لڑائی ہو رہی ہے اور یہ لڑائی دارالحکومت دمشق کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

بشار الاسد حکومت کو ہراساں کرنے اور اس پر دباؤ مزید بڑھانے کے لیے انقلابیوں نے لیبیا کے سابق حکمران کرنل معمر قذافی کی باغیوں کے ہاتھوں قتل کی نئی ویڈیو فوٹیج انٹرنیٹ پر جاری کر دی ہے کہ بشار الاسد نے انقلابیوں کے مطالبات نہ مانے تو ان کا انجام بھی یہی ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے شام میں امن مشن بھیج رکھا ہے مگر وہاں کی صورت حال بہتر ہونے کے بجائے روزبروز بگڑتی جا رہی ہے۔ شامی حکومت کئی بار یہ الزام عائد کر چکی ہے کہ اس کے ملکی حالات بگاڑنے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے۔

بشار الاسد کو اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بڑی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انھیں عراق اور لیبیا کے حکمرانوں کے انجام کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اب بھی جب صورت حال بڑی تیزی سے ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انقلابیوں پر مسلسل حملوں کا حکم دے رہے ہیں جس کے باعث برسرپیکار گروپوں کے اہلکاروں کے علاوہ شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔خانہ جنگی سے تنگ آ کر شہریوں کی بڑی تعداد عراق' اردن' لبنان اور ترکی کی جانب فرار ہو رہی ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ بشار الاسد باغیوں کے ساتھ مذاکرات کر کے شام میں امن کا راستہ ہموار کریں۔ اس سے پہلے کہ بڑی عالمی طاقتیں شام کو بھی اس صورت حال سے دوچار کر دیں جس سے وہ عراق اور لیبیا کو کر چکی ہیں او آئی سی اور عرب لیگ کو خاموش تماشائی کا کردار چھوڑ کر آگے بڑھتے ہوئے اس مسئلے کو پرامن طور پر حل کرانا چاہیے ۔
Load Next Story