برطانوی فوج کو عراق جنگ میں جھونکنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر
عراق جنگ میں فوجیوں کی ہلاکت پر اتنا معذرت خواہ ہوں جتنا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، ٹونی بلیئر
لاہور:
عراق جنگ کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے برطانوی فوجیوں کو جنگ میں جھونکنے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ عراق کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ غلط تھی جس پر اتنا افسوس اور معذرت خواہ ہوں جتنا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق غلط انٹیلی جنس رپورٹ کے اثرات اتنے طویل، ذلت آمیز اور خون آلود ہوں گے ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے خلاف فوجی کارروائی کے فیصلے کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتا ہوں تاہم فیصلہ اچھی نیت سے کیا تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لئے عراق جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ 10 سالہ دور حکومت کا مشکل ترین فیصلہ تھا۔
ٹونی بلیئر نے کہا کہ امریکا کی سرپرستی میں بننے والے 40 ملکی اتحاد نے عراق جنگ کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اس کے بجائے دوسرا جنگی طریقہ اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ قوم جسے ہم صدام حسین کے عذاب سے بچانا چاہتے تھے وہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئی۔ عراق جنگ میں برطانوی و دیگر ممالک کے فوجیوں اور مقامی شہریوں کی ہلاکت پر دلی افسوس ہے۔
واضح رہے کہ عراق جنگ میں برطانوی فوجیوں کی شمولیت کے فیصلے کے حوالے سے بننے والے انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنگ میں شمولیت کے ٹونی بلیئر کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کی تیاری ثابت نہ ہو سکی۔
عراق جنگ کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے برطانوی فوجیوں کو جنگ میں جھونکنے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ عراق کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ غلط تھی جس پر اتنا افسوس اور معذرت خواہ ہوں جتنا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق غلط انٹیلی جنس رپورٹ کے اثرات اتنے طویل، ذلت آمیز اور خون آلود ہوں گے ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے خلاف فوجی کارروائی کے فیصلے کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتا ہوں تاہم فیصلہ اچھی نیت سے کیا تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لئے عراق جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ 10 سالہ دور حکومت کا مشکل ترین فیصلہ تھا۔
ٹونی بلیئر نے کہا کہ امریکا کی سرپرستی میں بننے والے 40 ملکی اتحاد نے عراق جنگ کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اس کے بجائے دوسرا جنگی طریقہ اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ قوم جسے ہم صدام حسین کے عذاب سے بچانا چاہتے تھے وہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئی۔ عراق جنگ میں برطانوی و دیگر ممالک کے فوجیوں اور مقامی شہریوں کی ہلاکت پر دلی افسوس ہے۔
واضح رہے کہ عراق جنگ میں برطانوی فوجیوں کی شمولیت کے فیصلے کے حوالے سے بننے والے انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنگ میں شمولیت کے ٹونی بلیئر کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کی تیاری ثابت نہ ہو سکی۔