محنت کشوں سے ناروا سلوک
کوئی نہیں جانتا کہ ملک میں کتنے کسان ہیں، صوبہ سرحد میں پچھلے دنوں ہاریوں کی طرف سے مسلح کارروائی دیکھنے میں آئی ہے ۔
پاکستان میں محنت کش طبقے کے ساتھ رکھا جانے والا ناروا سلوک کوئی نیا نہیں، کم اُجرت پر کام کروانا اور پھر معاوضہ دیے بغیر مزدور کی عزتِ نفس مجروح کرنا ایک عام تاثر ہے۔
پاکستان کی سرزمین زمینی خداؤں سے بھری پڑی ہے، اندرونِ سندھ کسانوں پر کیے جانے والے مظالم اور ان کا استحصال انسانی حقوق کی تنظیموں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور پھر ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور کیوں رینگے؟ تپتے سورج کی جھلسا دینے والی گرمی میں کام کرنا تو کجا اس کے بارے میں سوچ کر ہی انھیں سن برن (Sun Burn) ہو جائے گا۔
اس وقت پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سیکڑوں ہاری و کسان جاگیرداروں کی بنائی ہوئی نجی جیلوں میں قید و بند ہیں اور پاکستان ہیومن رائٹس کے مطابق غربت کی وجہ سے ہزاروں کسان زمینداروں کے کھیتوں میں بلا معاوضہ مزدوریاں کر رہے ہیں، ہوتا کچھ یوں ہے کہ کسان اپنے گھرانے کے خرچے کے لیے جاگیرداروں سے رقم لے لیتے ہیں جو شادی بیاہ، موت و پیدائش کے وقت ان کے کام آتی ہے، لیکن ان کا واپس کرنا محال ہو جاتا ہے اور پھر شرح سُود اس قدر زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایک کے بدلے چار دینا پڑتے ہیں لہٰذا آیندہ آنے والی ساری زندگی ان کو مجبوراً اپنے زمینی خداؤں کے نام لکھنا پڑتی ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی ہوشرُبا پسماندگی کی یہ تصویر ایشیائی ممالک میں صرف پاکستان ہی کے حصے میں آئی ہے، تنزلی تو آ گئی ترقی روٹھ گئی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی انسان بیڑیوں میں قید ہے، اگر کسی صورت مقروض مر جائے تو اس کا بیٹا اور پھر اس کا بیٹا غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔ ان ستم رسیدہ خاندانوں کا لہو چُوسنے کے ذمے دار دو عناصر ہیں۔ ایک جہالت اور دوسرا موجودہ جاگیرداری نظام۔ ماضی میں یورپ، اسکاٹ لینڈ میں بائیکاٹ نامی جاگیردار کے ساتھ اس کے مزارعوں نے جو کچھ کیا تھا وہ آج کے کسانوں کے لیے ایک مثال ہے، لیکن جہالت آڑے آ جاتی ہے۔
ہاری کمیشن رپورٹ کے مطابق سندھ کے بے زمین ہاریوں پر مظالم کی داستانیں زبان زد عام ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ اس وقت ملک میں کتنے کسان ہیں، صوبہ سرحد میں پچھلے دنوں ہاریوں کی طرف سے مسلح کارروائی دیکھنے میں آئی ہے، آج کے دور میں بھی قبل از اسلام کی سی صورتحال ہے، زمیندار ان کا مالک و مختار بنا ہوا ہے، سندھ کے کسان ان کے غلام ہیں، عزت و آبرو، ننگ و نام، آزادی اور تکلیف غرض کہ سب پر وڈیروں کا قبضہ ہے۔
مصنوعی مرشدوں کے بعد یہ طبقہ ظلم و ستم میں سب سے زیادہ طاقتور ہے، سندھ میں وڈیرا با اختیار و بالادست ہے اور غریب عوام اس کے محکوم ہیں، جاگیرداری کے اس ناسُور کے خلاف سندھ کے کسان اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ انھی جاگیرداروں کو ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط رکھیں، موجودہ اور گزشتہ اسمبلیاں انھی بڑے بڑے جاگیرداروں پر مشتمل رہی ہیں اور پاکستان میں یہی بڑے جاگیردار ہر آمر اور نام نہاد جمہوری حکومت کے ستون رہے ہیں۔ وہ لوگ جو صدیوں پہلے رد ہو چکے تھے وہ آج کے دور میں ہم پر مسلط ہیں، ملک کے جاگیرداری ڈھانچے کو زرعی اصطلاحات ہی سے توڑا جا سکتا ہے، صدیوں کے سفر میں ہمارے معاشرے میں جاگیردار اشرافیہ کی سیاسی، سماجی، ثقافتی قدریں رواج پا چکی ہیں۔
دوسرے ممالک کے صنعتی شعبوں میں تو خالص تجارتی و غیر ذاتی رشتے پروان چڑھ رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں ابھی بھی پدرانہ سرپرستی اور ذاتی نوعیت کے تعلقات، اقربا پروری، جاہ پرستی، قانون کی خلاف ورزی، معاہدوں کی پاسداری سے متعلق روگردانی کا رواج عام ہے، پاکستانی اشرافیہ کے مختلف پرتوں کے مابین جو قدر مشترک ہے وہ ان کی موقع پرستی اور حرص و ہوس ہے، جس کا صاف اور واضح مظاہرہ سیاسی و افسر شاہی ہر سطح پر ہو رہا ہے، سیاستدان جو اس پاکستانی اشرافیہ کا ایک جزو ہیں انھوں نے عوامی وسائل کو اپنے نجی فوائد و مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔
سیاستدان سیاسی مال پر ہاتھ صاف کرنے والے بن بیٹھے ہیں، انھوں نے اس ملک کو ایک نجی تجارتی کھاتہ بنا لیا ہے اس سطح کی حرص و ہوس دیکھ کر عام آدمی دنگ ہی رہ جاتا ہے، راتوں رات امیر بننے کی جستجو اس قدر قوی ہے کہ سیاست محض ایک دھندہ بن کر رہ گئی ہے، ایک ایسا کاروبار جہاں نوازشات کی خوب خرید و فروخت ہوتی ہے قومی دولت کو مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر قبضہ کر لیا اور اس کی لوٹ کھسوٹ کی خاطر نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
ہر سطح پر کرپشن، لوٹ مار، افراتفری اور اختیارات اور مراعات کا ناجائز اور بے دریغ استعمال ہو رہا ہے، معاشی قدروں، رسوم و رواج اور بعض اوقات قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، کسی بھی ملک میں اگر ترقی ہو رہی ہو تو وہاں کرپشن حد درجہ کم ہوتی ہے، پاکستان میں ترقی تو نہیں ہو رہی، ہاں کرپشن میں ہم ترقی یافتہ ہو گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ترقی کی شرح نمو کم ہو رہی ہو تو سیاستدان اور افسر شاہی کی کرپشن عوام کی ناراضگی کو بالخصوص دعوت دیتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ عوام افراط زر کی غارت گری سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ سیاستدان اور افسر شاہی اس کے خوب مزے لوٹ رہے ہیں، معاشرے کے غریب عوام بھی اس صورتحال سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں جہاں تک مختلف خدمات اور دوسری مراعات کا تعلق ہے وہ تو غریبوں اور مطلوبہ لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔
جس کی وجہ سے وسائل کا زیاں ہے، چاہے وہ کرپشن کی نذر ہو گیا ہو یا فنڈز ایسے لوگوں کی طرف منتقل ہو گئے ہیں جو ان خدمات سے فائدہ اٹھانے کی مقابلتاً زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اب عام آدمی کی یہ سوچ ہے کہ سیاستدان اور سرکاری افسران، دیانت دار نہیں ہو سکتے اور جب یہ سوچ اجتماعی سوچ ہو جائے تو ترقی کی راہوں پر ماسوائے خاردار تاروں کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ کمزور جمہوریت پر سے بھی اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے، چوری اور کرپشن ہر جگہ عام ہے، پاکستان سے باہر نکلیے تو آپ کو اپنے آپ میں آنے کے لیے وقت درکار ہو گا، آپ اس شریف آدمی کو بھی زیادہ پیسے دے رہے ہوں گے جو آپ سے کم مانگ رہا ہے۔ جب کہ کرپشن کرنے والے اسمبلیوں میں، ہاؤس آف سینیٹ میں براجمان ہو جائیں جن کا کالا دھن باہر کے بینکوں میں ہے آپ ان سے تعمیراتی سوچ کی کیا اُمید کر سکتے ہیں۔
اب ترقیاتی حکمت عملیاں بنانا اور ان کا انتظام کرنا حد درجہ مشکل ہو گیا ہے، نسلی اور سماجی اور لسانی تصادم کی وجہ سے سیاسی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، غریبوں کی خواری اور دولت مندوں کی آسودگی کے بیچ اس قدر بڑھتی ہوئی خلیج ہے کہ سماج میں بے چینی اورobssesive comprehensive disorder کا ذہنی مرض جنم لے رہا ہے۔ طاقت کے زور پر مراعات کا حصول آسان تو ہوسکتا ہے لیکن زیادہ دیرپا نہیں، ظلم کی حد زیادہ ہو سکتی ہے لیکن تا عمر نہیں۔ ہمارے یہاں آج سیاستدان قائد اعظم کے زرّیں اُصولوں پر سیر حاصل گفتگو تو کرتے ہیں لیکن وہ مغرب کی قدروں کے دلدادہ ہوتے ہیں، میرے مطالعے کے مطابق قائداعظم نے متعدد بار اپنی تقریریوں میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی و جمہوری ریاست کہا ہے، پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی، سماجی، فلاحی، جمہوری، ثقافتی صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
آج انسان کا لہو پانی سے ارزاں ہو چکا ہے، بھتہ خوری نے چھوٹے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، گلی کوچوں کے جرائم بے قابو ہو چکے ہیں، غیر قانونی اسلحہ بے دھڑک آ رہا ہے، قاتلوں کے مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، سیاسی چہیتوں پر مشتمل پولیس مفلوج ہو چکی ہے، رینجرز کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عوام کا ان پر اعتماد اُٹھ چکا ہے، معیشت بیٹھ چکی ہے، کراچی کے تاجر دوسرے ملکوں تنزانیہ، بنگلہ دیش، مراکش میں جا رہے ہیں، ساڑھے چار سال بیت گئے اور حکومت کھوکھلے دعوؤں اور وعدوں سے باہر نہیں نکلی۔
پاکستان کی سرزمین زمینی خداؤں سے بھری پڑی ہے، اندرونِ سندھ کسانوں پر کیے جانے والے مظالم اور ان کا استحصال انسانی حقوق کی تنظیموں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور پھر ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور کیوں رینگے؟ تپتے سورج کی جھلسا دینے والی گرمی میں کام کرنا تو کجا اس کے بارے میں سوچ کر ہی انھیں سن برن (Sun Burn) ہو جائے گا۔
اس وقت پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سیکڑوں ہاری و کسان جاگیرداروں کی بنائی ہوئی نجی جیلوں میں قید و بند ہیں اور پاکستان ہیومن رائٹس کے مطابق غربت کی وجہ سے ہزاروں کسان زمینداروں کے کھیتوں میں بلا معاوضہ مزدوریاں کر رہے ہیں، ہوتا کچھ یوں ہے کہ کسان اپنے گھرانے کے خرچے کے لیے جاگیرداروں سے رقم لے لیتے ہیں جو شادی بیاہ، موت و پیدائش کے وقت ان کے کام آتی ہے، لیکن ان کا واپس کرنا محال ہو جاتا ہے اور پھر شرح سُود اس قدر زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایک کے بدلے چار دینا پڑتے ہیں لہٰذا آیندہ آنے والی ساری زندگی ان کو مجبوراً اپنے زمینی خداؤں کے نام لکھنا پڑتی ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی ہوشرُبا پسماندگی کی یہ تصویر ایشیائی ممالک میں صرف پاکستان ہی کے حصے میں آئی ہے، تنزلی تو آ گئی ترقی روٹھ گئی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی انسان بیڑیوں میں قید ہے، اگر کسی صورت مقروض مر جائے تو اس کا بیٹا اور پھر اس کا بیٹا غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔ ان ستم رسیدہ خاندانوں کا لہو چُوسنے کے ذمے دار دو عناصر ہیں۔ ایک جہالت اور دوسرا موجودہ جاگیرداری نظام۔ ماضی میں یورپ، اسکاٹ لینڈ میں بائیکاٹ نامی جاگیردار کے ساتھ اس کے مزارعوں نے جو کچھ کیا تھا وہ آج کے کسانوں کے لیے ایک مثال ہے، لیکن جہالت آڑے آ جاتی ہے۔
ہاری کمیشن رپورٹ کے مطابق سندھ کے بے زمین ہاریوں پر مظالم کی داستانیں زبان زد عام ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ اس وقت ملک میں کتنے کسان ہیں، صوبہ سرحد میں پچھلے دنوں ہاریوں کی طرف سے مسلح کارروائی دیکھنے میں آئی ہے، آج کے دور میں بھی قبل از اسلام کی سی صورتحال ہے، زمیندار ان کا مالک و مختار بنا ہوا ہے، سندھ کے کسان ان کے غلام ہیں، عزت و آبرو، ننگ و نام، آزادی اور تکلیف غرض کہ سب پر وڈیروں کا قبضہ ہے۔
مصنوعی مرشدوں کے بعد یہ طبقہ ظلم و ستم میں سب سے زیادہ طاقتور ہے، سندھ میں وڈیرا با اختیار و بالادست ہے اور غریب عوام اس کے محکوم ہیں، جاگیرداری کے اس ناسُور کے خلاف سندھ کے کسان اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ انھی جاگیرداروں کو ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط رکھیں، موجودہ اور گزشتہ اسمبلیاں انھی بڑے بڑے جاگیرداروں پر مشتمل رہی ہیں اور پاکستان میں یہی بڑے جاگیردار ہر آمر اور نام نہاد جمہوری حکومت کے ستون رہے ہیں۔ وہ لوگ جو صدیوں پہلے رد ہو چکے تھے وہ آج کے دور میں ہم پر مسلط ہیں، ملک کے جاگیرداری ڈھانچے کو زرعی اصطلاحات ہی سے توڑا جا سکتا ہے، صدیوں کے سفر میں ہمارے معاشرے میں جاگیردار اشرافیہ کی سیاسی، سماجی، ثقافتی قدریں رواج پا چکی ہیں۔
دوسرے ممالک کے صنعتی شعبوں میں تو خالص تجارتی و غیر ذاتی رشتے پروان چڑھ رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں ابھی بھی پدرانہ سرپرستی اور ذاتی نوعیت کے تعلقات، اقربا پروری، جاہ پرستی، قانون کی خلاف ورزی، معاہدوں کی پاسداری سے متعلق روگردانی کا رواج عام ہے، پاکستانی اشرافیہ کے مختلف پرتوں کے مابین جو قدر مشترک ہے وہ ان کی موقع پرستی اور حرص و ہوس ہے، جس کا صاف اور واضح مظاہرہ سیاسی و افسر شاہی ہر سطح پر ہو رہا ہے، سیاستدان جو اس پاکستانی اشرافیہ کا ایک جزو ہیں انھوں نے عوامی وسائل کو اپنے نجی فوائد و مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔
سیاستدان سیاسی مال پر ہاتھ صاف کرنے والے بن بیٹھے ہیں، انھوں نے اس ملک کو ایک نجی تجارتی کھاتہ بنا لیا ہے اس سطح کی حرص و ہوس دیکھ کر عام آدمی دنگ ہی رہ جاتا ہے، راتوں رات امیر بننے کی جستجو اس قدر قوی ہے کہ سیاست محض ایک دھندہ بن کر رہ گئی ہے، ایک ایسا کاروبار جہاں نوازشات کی خوب خرید و فروخت ہوتی ہے قومی دولت کو مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر قبضہ کر لیا اور اس کی لوٹ کھسوٹ کی خاطر نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
ہر سطح پر کرپشن، لوٹ مار، افراتفری اور اختیارات اور مراعات کا ناجائز اور بے دریغ استعمال ہو رہا ہے، معاشی قدروں، رسوم و رواج اور بعض اوقات قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، کسی بھی ملک میں اگر ترقی ہو رہی ہو تو وہاں کرپشن حد درجہ کم ہوتی ہے، پاکستان میں ترقی تو نہیں ہو رہی، ہاں کرپشن میں ہم ترقی یافتہ ہو گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ترقی کی شرح نمو کم ہو رہی ہو تو سیاستدان اور افسر شاہی کی کرپشن عوام کی ناراضگی کو بالخصوص دعوت دیتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ عوام افراط زر کی غارت گری سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ سیاستدان اور افسر شاہی اس کے خوب مزے لوٹ رہے ہیں، معاشرے کے غریب عوام بھی اس صورتحال سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں جہاں تک مختلف خدمات اور دوسری مراعات کا تعلق ہے وہ تو غریبوں اور مطلوبہ لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔
جس کی وجہ سے وسائل کا زیاں ہے، چاہے وہ کرپشن کی نذر ہو گیا ہو یا فنڈز ایسے لوگوں کی طرف منتقل ہو گئے ہیں جو ان خدمات سے فائدہ اٹھانے کی مقابلتاً زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اب عام آدمی کی یہ سوچ ہے کہ سیاستدان اور سرکاری افسران، دیانت دار نہیں ہو سکتے اور جب یہ سوچ اجتماعی سوچ ہو جائے تو ترقی کی راہوں پر ماسوائے خاردار تاروں کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ کمزور جمہوریت پر سے بھی اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے، چوری اور کرپشن ہر جگہ عام ہے، پاکستان سے باہر نکلیے تو آپ کو اپنے آپ میں آنے کے لیے وقت درکار ہو گا، آپ اس شریف آدمی کو بھی زیادہ پیسے دے رہے ہوں گے جو آپ سے کم مانگ رہا ہے۔ جب کہ کرپشن کرنے والے اسمبلیوں میں، ہاؤس آف سینیٹ میں براجمان ہو جائیں جن کا کالا دھن باہر کے بینکوں میں ہے آپ ان سے تعمیراتی سوچ کی کیا اُمید کر سکتے ہیں۔
اب ترقیاتی حکمت عملیاں بنانا اور ان کا انتظام کرنا حد درجہ مشکل ہو گیا ہے، نسلی اور سماجی اور لسانی تصادم کی وجہ سے سیاسی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، غریبوں کی خواری اور دولت مندوں کی آسودگی کے بیچ اس قدر بڑھتی ہوئی خلیج ہے کہ سماج میں بے چینی اورobssesive comprehensive disorder کا ذہنی مرض جنم لے رہا ہے۔ طاقت کے زور پر مراعات کا حصول آسان تو ہوسکتا ہے لیکن زیادہ دیرپا نہیں، ظلم کی حد زیادہ ہو سکتی ہے لیکن تا عمر نہیں۔ ہمارے یہاں آج سیاستدان قائد اعظم کے زرّیں اُصولوں پر سیر حاصل گفتگو تو کرتے ہیں لیکن وہ مغرب کی قدروں کے دلدادہ ہوتے ہیں، میرے مطالعے کے مطابق قائداعظم نے متعدد بار اپنی تقریریوں میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی و جمہوری ریاست کہا ہے، پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی، سماجی، فلاحی، جمہوری، ثقافتی صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
آج انسان کا لہو پانی سے ارزاں ہو چکا ہے، بھتہ خوری نے چھوٹے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، گلی کوچوں کے جرائم بے قابو ہو چکے ہیں، غیر قانونی اسلحہ بے دھڑک آ رہا ہے، قاتلوں کے مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، سیاسی چہیتوں پر مشتمل پولیس مفلوج ہو چکی ہے، رینجرز کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عوام کا ان پر اعتماد اُٹھ چکا ہے، معیشت بیٹھ چکی ہے، کراچی کے تاجر دوسرے ملکوں تنزانیہ، بنگلہ دیش، مراکش میں جا رہے ہیں، ساڑھے چار سال بیت گئے اور حکومت کھوکھلے دعوؤں اور وعدوں سے باہر نہیں نکلی۔