پیپلز پارٹی پنجاب تنظیمی مسائل کا شکار
چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈآصف ہاشمی، منظور وٹو سے اختلافات کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوئے.
NEW YORK:
پیپلزپارٹی 30نومبر کو اپنا 45واں یوم تاسیس منارہی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے لاہور میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اورہمیشہ یوم تاسیس کی مرکزی تقریب کا اہتمام بھی لاہور میں کیا جاتارہا۔
تاہم اس بار ڈویژنل سطح پر یوم تاسیس منایا جارہا ہے۔ 70ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور 1988ء میں بے نظیر بھٹو اس شہر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئیں، دونوں پارٹی قائدین کی سیاست کا مرکز لاہور رہا۔86 ء میں بے نظیر بھٹو شہید نے عملی سیاست کا آغاز لاہور سے ہی کیا۔لاہور پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے ۔ 90ء سے لاہو رمیں پیپلزپارٹی کے ووٹ کم ہوتے گئے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنا مؤثر سیاسی وجود برقرار رکھا۔ 2002 ء اور2008 ء کے الیکشن میں پارٹی قیادت نے لاہور کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ ایسے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیئے گئے جو انتخابی سیاست کے اہل نہیں تھے۔ لاہور میں پیپلزپارٹی جہاں تنظیمی حوالے سے مسائل کا شکار ہے وہاں پارٹی کو سیاسی طور پر بھی لاوارث چھوڑدیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے لاہور پارٹی کے ساتھ سوتیلے پن کا ثبوت دیا۔
وہ ہر ہفتے لاہور آتے تھے مگر یہاں ان کی کو ئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوتی تھیں ۔ لاہور میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کو بھی سابق وزیراعظم سے بہت سی شکایات رہیں۔ ان کے دور میں وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کے فنڈز دئیے، اسی لئے پیپلزپارٹی کے بعض لوگ انہیں (ن) لیگ کا وزیراعظم کہتے تھے۔ پنجاب حکومت نے لاہور کو ریپڈ بس منصوبہ دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت یہاں اپنے دور میں کوئی ایک منصوبہ بھی شروع نہیں کرسکی جس کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں ووٹ حاصل کرسکے۔ آج بھی تخت لاہور کی سیاست پورے پنجاب پر اثر انداز ہورہی ہے۔صدرآصف زرداری بھی لاہور میں بیٹھ کر سیاست کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اسی طرح بلاول بھٹو کو بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح لاہور سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنا چاہئے۔
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے گزشتہ دنوں میاں مصباح الرحمن کی رہائش گاہ پر لاہور کے پارٹی رہنماؤں کا اجلاس کیا۔ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر ، سینیٹر چودھری اعتزاز احسن اور طارق شبیر میو اسلام آباد میں مصروفیات کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سید آصف ہاشمی، میاں منظور وٹو سے اختلافات کے باعث لاہور میں موجود ہونے کے باوجود اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور اگلے روز ماڈل ٹاون میں ایک تقریب میں میاں منظور وٹو اور آصف ہاشمی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوگئی۔
میاں منظور احمد وٹو نے آصف ہاشمی سے پوچھا کہ وہ پارٹی اجلاس میں کیوں نہیں آئے ،جس پر آصف ہاشمی نے جواب دیا کہ میں آپ کے بلائے گئے اجلاس میں کیوں آتا، آپ ان لوگوں کو سپورٹ کررہے ہیں جنہوں نے شاہدرہ میرے حلقے میں گرو نانک ہسپتال کیلئے مختص 18کنال اراضی پر قبضہ کیا۔ آپ نے بطور وزیر امور کشمیر آزاد کشمیر یونیورسٹی کے متعلقہ افسر کو مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے ملک ریاض کی جعلی ڈگری کی تصدیق کی اجازت نہیں دی ، مجھے آپ کی وجہ سے پٹیشن واپس لینا پڑی۔آصف ہاشمی نے میاں منظور وٹو پر واضح کر دیا کہ اگر میں نے الیکشن نہ لڑا تو اس کی بڑی وجہ آپ ہوں گے۔ میاں منظور وٹو نے جواب دیا کہ پیپلز پارٹی کے بہت ورکر ہیں، اگر آپ نہیں لڑیں گے تو کوئی اور لڑے گا۔آصف ہاشمی صدر زرداری سے حالیہ ملاقات میں شکایت کر چکے ہیں کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ان کے حلقے کے اکثر منصوبے روک دیئے گئے ہیں جن میں شٹل ٹرین سروس اور واٹر فلٹریشن پلانٹ منصوبے بھی شامل ہیں ۔
یوں لاہور کے پہلے اجلاس کو ہی سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔ اگر چوہدری اعتزازاحسن ، جہانگیر بدر اور آصف ہاشمی اجلاس میں آتے تو اس سے یہ تاثر ضرور ملتا کہ پیپلزپارٹی نے لاہور کو سنجیدگی سے لیا ہے ۔ اگر اعتزاز احسن اور جہانگیر بدر اسلام آباد سینیٹ اجلاس میں مصروف تھے تو بشریٰ اعتزازاور علی بدر اجلاس میں آسکتے تھے مگر وہ بھی نہیں آئے۔ اس طرح اجلاس میں سینیئر لیڈر شپ کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔ اجلاس میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے مقابلے میں سنجیدہ لیڈر شپ کو سامنے لایا جائے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ( ن) لاہورمیں آئندہ الیکشن کیلئے بڑی سنجیدہ ہیں ۔ یہ دونوں جماعتیں اپنی صف اول کی لیڈر شپ کو لاہور سے الیکشن لڑانے کی تیاری کر رہی ہیں۔کیا پیپلزپارٹی بھی لاہور میں ایسی سنجیدگی سے کام کر رہی ہے؟کیا وہ بھی اپنی صف اول کی لیڈر شپ چوہدری اعتزاز احسن، جہانگیر بدر ، مصباح الرحمٰن ، قاسم ضیاء، طارق رحیم، آصف ہاشمی، اسلم گل اور دیگر اہم رہنماؤںکو ان کے مقابلے میں لائے گی۔ حمزہ شہباز کے مقابلے میں میاں مصباح الرحمٰن یا قاسم ضیاء خود الیکشن لڑیںتو زیادہ بہتر ہے، یہ ان کا آبائی حلقہ ہے اوریہاں ان کا ووٹ بنک بھی موجود ہے ۔ این اے 120میں جہانگیر بدر خود الیکشن لڑیں، وہ ہاریں یا جیتیں، الیکشن کا میدان ضرور گرم ہوگا۔ بعض حضرات عائشہ احد کو حمزہ شہباز کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ الیکشن کے ساتھ مذاق ہوگا ، اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی سنجیدہ نہیں اور یہ سیٹ پلیٹ میں رکھ کر ن لیگ کے حوالے کرنا چاہتی ہے ۔ اس وقت پیپلزپارٹی کیلئے فیصلے کی گھڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ الیکشن میں اے ٹیم لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
پیپلزپارٹی 30نومبر کو اپنا 45واں یوم تاسیس منارہی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے لاہور میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اورہمیشہ یوم تاسیس کی مرکزی تقریب کا اہتمام بھی لاہور میں کیا جاتارہا۔
تاہم اس بار ڈویژنل سطح پر یوم تاسیس منایا جارہا ہے۔ 70ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور 1988ء میں بے نظیر بھٹو اس شہر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئیں، دونوں پارٹی قائدین کی سیاست کا مرکز لاہور رہا۔86 ء میں بے نظیر بھٹو شہید نے عملی سیاست کا آغاز لاہور سے ہی کیا۔لاہور پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے ۔ 90ء سے لاہو رمیں پیپلزپارٹی کے ووٹ کم ہوتے گئے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنا مؤثر سیاسی وجود برقرار رکھا۔ 2002 ء اور2008 ء کے الیکشن میں پارٹی قیادت نے لاہور کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ ایسے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیئے گئے جو انتخابی سیاست کے اہل نہیں تھے۔ لاہور میں پیپلزپارٹی جہاں تنظیمی حوالے سے مسائل کا شکار ہے وہاں پارٹی کو سیاسی طور پر بھی لاوارث چھوڑدیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے لاہور پارٹی کے ساتھ سوتیلے پن کا ثبوت دیا۔
وہ ہر ہفتے لاہور آتے تھے مگر یہاں ان کی کو ئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوتی تھیں ۔ لاہور میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کو بھی سابق وزیراعظم سے بہت سی شکایات رہیں۔ ان کے دور میں وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کے فنڈز دئیے، اسی لئے پیپلزپارٹی کے بعض لوگ انہیں (ن) لیگ کا وزیراعظم کہتے تھے۔ پنجاب حکومت نے لاہور کو ریپڈ بس منصوبہ دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت یہاں اپنے دور میں کوئی ایک منصوبہ بھی شروع نہیں کرسکی جس کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں ووٹ حاصل کرسکے۔ آج بھی تخت لاہور کی سیاست پورے پنجاب پر اثر انداز ہورہی ہے۔صدرآصف زرداری بھی لاہور میں بیٹھ کر سیاست کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اسی طرح بلاول بھٹو کو بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح لاہور سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنا چاہئے۔
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے گزشتہ دنوں میاں مصباح الرحمن کی رہائش گاہ پر لاہور کے پارٹی رہنماؤں کا اجلاس کیا۔ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر ، سینیٹر چودھری اعتزاز احسن اور طارق شبیر میو اسلام آباد میں مصروفیات کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سید آصف ہاشمی، میاں منظور وٹو سے اختلافات کے باعث لاہور میں موجود ہونے کے باوجود اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور اگلے روز ماڈل ٹاون میں ایک تقریب میں میاں منظور وٹو اور آصف ہاشمی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوگئی۔
میاں منظور احمد وٹو نے آصف ہاشمی سے پوچھا کہ وہ پارٹی اجلاس میں کیوں نہیں آئے ،جس پر آصف ہاشمی نے جواب دیا کہ میں آپ کے بلائے گئے اجلاس میں کیوں آتا، آپ ان لوگوں کو سپورٹ کررہے ہیں جنہوں نے شاہدرہ میرے حلقے میں گرو نانک ہسپتال کیلئے مختص 18کنال اراضی پر قبضہ کیا۔ آپ نے بطور وزیر امور کشمیر آزاد کشمیر یونیورسٹی کے متعلقہ افسر کو مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے ملک ریاض کی جعلی ڈگری کی تصدیق کی اجازت نہیں دی ، مجھے آپ کی وجہ سے پٹیشن واپس لینا پڑی۔آصف ہاشمی نے میاں منظور وٹو پر واضح کر دیا کہ اگر میں نے الیکشن نہ لڑا تو اس کی بڑی وجہ آپ ہوں گے۔ میاں منظور وٹو نے جواب دیا کہ پیپلز پارٹی کے بہت ورکر ہیں، اگر آپ نہیں لڑیں گے تو کوئی اور لڑے گا۔آصف ہاشمی صدر زرداری سے حالیہ ملاقات میں شکایت کر چکے ہیں کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ان کے حلقے کے اکثر منصوبے روک دیئے گئے ہیں جن میں شٹل ٹرین سروس اور واٹر فلٹریشن پلانٹ منصوبے بھی شامل ہیں ۔
یوں لاہور کے پہلے اجلاس کو ہی سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔ اگر چوہدری اعتزازاحسن ، جہانگیر بدر اور آصف ہاشمی اجلاس میں آتے تو اس سے یہ تاثر ضرور ملتا کہ پیپلزپارٹی نے لاہور کو سنجیدگی سے لیا ہے ۔ اگر اعتزاز احسن اور جہانگیر بدر اسلام آباد سینیٹ اجلاس میں مصروف تھے تو بشریٰ اعتزازاور علی بدر اجلاس میں آسکتے تھے مگر وہ بھی نہیں آئے۔ اس طرح اجلاس میں سینیئر لیڈر شپ کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔ اجلاس میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے مقابلے میں سنجیدہ لیڈر شپ کو سامنے لایا جائے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ( ن) لاہورمیں آئندہ الیکشن کیلئے بڑی سنجیدہ ہیں ۔ یہ دونوں جماعتیں اپنی صف اول کی لیڈر شپ کو لاہور سے الیکشن لڑانے کی تیاری کر رہی ہیں۔کیا پیپلزپارٹی بھی لاہور میں ایسی سنجیدگی سے کام کر رہی ہے؟کیا وہ بھی اپنی صف اول کی لیڈر شپ چوہدری اعتزاز احسن، جہانگیر بدر ، مصباح الرحمٰن ، قاسم ضیاء، طارق رحیم، آصف ہاشمی، اسلم گل اور دیگر اہم رہنماؤںکو ان کے مقابلے میں لائے گی۔ حمزہ شہباز کے مقابلے میں میاں مصباح الرحمٰن یا قاسم ضیاء خود الیکشن لڑیںتو زیادہ بہتر ہے، یہ ان کا آبائی حلقہ ہے اوریہاں ان کا ووٹ بنک بھی موجود ہے ۔ این اے 120میں جہانگیر بدر خود الیکشن لڑیں، وہ ہاریں یا جیتیں، الیکشن کا میدان ضرور گرم ہوگا۔ بعض حضرات عائشہ احد کو حمزہ شہباز کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ الیکشن کے ساتھ مذاق ہوگا ، اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی سنجیدہ نہیں اور یہ سیٹ پلیٹ میں رکھ کر ن لیگ کے حوالے کرنا چاہتی ہے ۔ اس وقت پیپلزپارٹی کیلئے فیصلے کی گھڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ الیکشن میں اے ٹیم لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔