گیس سلنڈر کا ایک اور دھماکا
سی این جی گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے والےکہیں نظرنہیں آتے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پرسرعام پھرتی نظر آتی ہیں۔
پاکستان میں بسوں اور ویگنوں میں گیس سلنڈر پھٹنے سے مسافروں کی ہلاکت کے واقعات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔
پیر کو لاہور میں ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ ہوا جس میں سات مسافر جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔اس حادثے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مسافر ویگن میں نصب گیس سلنڈر میں گیس کے اخراج کے باعث آگ لگی ۔ آگ لگتے ہی ویگن ڈرائیور اور کنڈیکٹر چھلانگ لگا کر بھاگ گئے۔ کئی مسافروں نے بھی وین سے چھلانگ لگا کر جان بچائی مگر جو لوگ ویگن سے باہر نہ نکل سکے وہ جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔اس قسم کے حادثات پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں ہو رہے ہیں۔ ملک بھر میں ویگنوں اور بسوں کے مالکان پیسے بچانے کے لیے غیر معیاری سلنڈر ان میں فٹ کراتے ہیں ۔حکومت کے اداروں کی جو کارکردگی ہے اسے تو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غیر معیاری سلنڈر گیس بھرواتے وقت ہی پریشر ذرا سا زیادہ ہونے سے پھٹ جاتے ہیں مگر متذکرہ حادثے میں سلنڈر کے پھٹنے کا ذکر نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کنڈکٹر سی این جی کا سلنڈر خالی ہو جانے پر اس سلنڈر میں ایل پی جی بھر رہا تھا کہ لیکیج یا گیس کے اخراج کے باعث آگ لگ گئی۔ خبر میں آگ لگنے کی وجہ کسی سواری کا سگریٹ سلگانا بھی بتایا گیا ہے حالانکہ مسافر بسوں اور ویگنوں وغیرہ میں سگریٹ نوشی کی مکمل پابندی نافذ ہے اس کے باوجود بعض لوگ اپنی کم عقلی کے باعث بے احتیاطی کا مظاہرہ کر کے مہلک حادثات کا سبب بن جاتے ہیں اور یہ چیز قوم کی عمومی طرز عمل کی نشاندہی کرتی ہے جس کا فی الفور کوئی علاج بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔پاکستان میں ٹریفک حادثے میں کوئی جان چلی جائے یا گیس سلنڈر پھٹنے سے مسافر جاں بحق ہو جائیں 'ان حادثات کی عموماً کوئی تحقیقات نہیں ہوتی۔
اگر کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو وقتی طور پر حکومتی شخصیات اخباری بیانات کے ذریعے افسوس کا اظہار کر دیتے ہیں یا تحقیقات کا حکم دے کر فارغ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد معاملات دوبارہ روٹین کے مطابق چلنے لگتے ہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے میگا سٹیز میں ٹریفک حادثات روز مرہ کا معمول ہے۔ گاڑیوں میں نصب سی این جی سلنڈر میں بھی آگ لگتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود حکومتی اداروں کی جانب سے کارروائی نظر نہیں آتی۔ سی این جی گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پر سرعام پھرتی نظر آتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جن مسافر بسوں 'ویگنوں اور لوڈر گاڑیوں میں گیس سلنڈر نصب ہیں انھیں سڑکوں پر آنے سے پہلے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا پابند کیا جائے جس گاڑی کا سلنڈر پھٹ جائے اور اس کی تحقیقات کی روشنی میں ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کی جائے جو حادثے کا ذمے دار ہے۔ اگر سرکاری محکمے کے اہلکاروں نے رشوت لے کر یا کسی سفارشی دبائو کے تحت غلط طور پر فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ سلنڈر نصب کرنے والوں کی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ ان کے پاس جو سلنڈر موجود ہیں ان کی کوالٹی بھی چیک ہونی چاہیے۔ اس طریقے سے ہی ان جان لیوا حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔
پیر کو لاہور میں ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ ہوا جس میں سات مسافر جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔اس حادثے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مسافر ویگن میں نصب گیس سلنڈر میں گیس کے اخراج کے باعث آگ لگی ۔ آگ لگتے ہی ویگن ڈرائیور اور کنڈیکٹر چھلانگ لگا کر بھاگ گئے۔ کئی مسافروں نے بھی وین سے چھلانگ لگا کر جان بچائی مگر جو لوگ ویگن سے باہر نہ نکل سکے وہ جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔اس قسم کے حادثات پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں ہو رہے ہیں۔ ملک بھر میں ویگنوں اور بسوں کے مالکان پیسے بچانے کے لیے غیر معیاری سلنڈر ان میں فٹ کراتے ہیں ۔حکومت کے اداروں کی جو کارکردگی ہے اسے تو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غیر معیاری سلنڈر گیس بھرواتے وقت ہی پریشر ذرا سا زیادہ ہونے سے پھٹ جاتے ہیں مگر متذکرہ حادثے میں سلنڈر کے پھٹنے کا ذکر نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کنڈکٹر سی این جی کا سلنڈر خالی ہو جانے پر اس سلنڈر میں ایل پی جی بھر رہا تھا کہ لیکیج یا گیس کے اخراج کے باعث آگ لگ گئی۔ خبر میں آگ لگنے کی وجہ کسی سواری کا سگریٹ سلگانا بھی بتایا گیا ہے حالانکہ مسافر بسوں اور ویگنوں وغیرہ میں سگریٹ نوشی کی مکمل پابندی نافذ ہے اس کے باوجود بعض لوگ اپنی کم عقلی کے باعث بے احتیاطی کا مظاہرہ کر کے مہلک حادثات کا سبب بن جاتے ہیں اور یہ چیز قوم کی عمومی طرز عمل کی نشاندہی کرتی ہے جس کا فی الفور کوئی علاج بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔پاکستان میں ٹریفک حادثے میں کوئی جان چلی جائے یا گیس سلنڈر پھٹنے سے مسافر جاں بحق ہو جائیں 'ان حادثات کی عموماً کوئی تحقیقات نہیں ہوتی۔
اگر کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو وقتی طور پر حکومتی شخصیات اخباری بیانات کے ذریعے افسوس کا اظہار کر دیتے ہیں یا تحقیقات کا حکم دے کر فارغ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد معاملات دوبارہ روٹین کے مطابق چلنے لگتے ہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے میگا سٹیز میں ٹریفک حادثات روز مرہ کا معمول ہے۔ گاڑیوں میں نصب سی این جی سلنڈر میں بھی آگ لگتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود حکومتی اداروں کی جانب سے کارروائی نظر نہیں آتی۔ سی این جی گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پر سرعام پھرتی نظر آتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جن مسافر بسوں 'ویگنوں اور لوڈر گاڑیوں میں گیس سلنڈر نصب ہیں انھیں سڑکوں پر آنے سے پہلے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا پابند کیا جائے جس گاڑی کا سلنڈر پھٹ جائے اور اس کی تحقیقات کی روشنی میں ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کی جائے جو حادثے کا ذمے دار ہے۔ اگر سرکاری محکمے کے اہلکاروں نے رشوت لے کر یا کسی سفارشی دبائو کے تحت غلط طور پر فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ سلنڈر نصب کرنے والوں کی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ ان کے پاس جو سلنڈر موجود ہیں ان کی کوالٹی بھی چیک ہونی چاہیے۔ اس طریقے سے ہی ان جان لیوا حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔