ہم اپنے اعمال پر بھی نظر کریں

مغرب کی سائنسی ترقی میں 1453میں ایجاد ہونے والے گٹن برگ کے چھاپے خانے نے جو کردار ادا کیا وہ تبدیلی کا نقیب کہلاتا ہے۔

zahedahina@gmail.com

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے کالم ''کیا ہم شتر مرغ ہیں'' کی یوں پذیرائی ہو گی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ مجھے برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنی اور معاشی پسماندگی کے اسباب کے بعض تاریخی حقائق بھی بیان کرنے چاہئیں تا کہ ہماری نئی نسل کو ان معاملات سے کچھ اور آگاہی ہو۔

اس بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ مذکورہ کالم میں دو سطریں ٹائپ ہونے سے جانے کس طرح چھوٹ گئیں اور اس سے ایک صدی کا ہیر پھیر ہو گیا۔ درست جملہ یوں ہے کہ '' اس (اکبر) کے دربار میں تان سین جب سُروں سے کھیل رہا تھا تو ول دیوران کے مطابق اکبر نے پرتگیزی مبلغوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے جدید چھاپے خانے کو شرف قبولیت نہ بخشا۔ ہمارے اکبر اعظم کی ان ہی ترجیحات کا نتیجہ تھا کہ اس کی پیدائش (1542)کے ٹھیک ایک صدی بعد (1642) میں پیدا ہونے والے آئزک نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی'' یاد رہے کہ یہ وہی دن تھے، جب مشہور ہیئت دان گلیلیو گیلی نے اپنے نظریات کی بناء پر کلیسا کے ہاتھوں ذلت آمیز زندگی گزاری۔

یہاں یہ بھی لکھتی چلوں کہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ گوا سے آنے والے ان مسیحی مبلغوں نے 1580 میں اکبر کو بائبل کا ایک نسخہ نذر کیا تھا جو کئی زبانوں میں تھا۔ اسے جدید متحرک چھاپہ خانہ پر چھاپا گیا تھا اور اسے ہندوستان میں بھی یہ چھاپہ خانہ لگانے کی صلاح دی تھی لیکن اکبر نے اس مشورے کو در خور اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے دربار کے خطاط اپنی ہنر مندی میں بے مثال اور بے بدل ہیں۔ اتنے بھدے حروف کو ہم کیسے برداشت کریں گے۔''

''اکبر نامہ'' میں اکبر کے مشہور ''عبادت خانہ'' کی ایک مینا طوری پینٹنگ ہے جس میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں فادر آکوواویو اور فادر ہنری کوئس نیلے لباس اور نیلی ٹوپیوں میں دو زانو بیٹھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان ہی پرتگیزی پادریوں نے اکبر کو جدید چھاپہ خانہ لگانے کی صلاح دی تھی۔ یہ مبلغین ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغی ضروریات کے لیے پہلا چھاپہ خانہ 1556 میں گوا لا چکے تھے۔

مغرب کی علمی اور سائنسی ترقی میں 1453میں ایجاد ہونے والے گٹن برگ کے چھاپے خانے نے جو کردار ادا کیا وہ تبدیلی کا نقیب کہلاتا ہے۔ جدید خیالات کو رد کرنے کا یہ رویہ صرف شہنشاہ اکبر کا ہی نہیں تھا سلطنت عثمانیہ پر سند رکھنے والی پروفیسر ڈاکٹر ثریا فاروقی نے لکھا ہے کہ مذہبی وجوہ کی بناء پر سلطنت عثمانیہ میں 1484 سے 1729 تک فقیہوں اور علماء کے فتوئوں کے سبب جدید چھاپے خانے کے ذریعے عربی کتابوں کی اشاعت پر مکمل پابندی رہی۔ اس ''جرم'' کے ارتکاب کی سزا موت تھی۔

تاہم پوپ جولیس ثانی (1503-1512) نے وینس سے عربی ٹائپ پر کچھ کتابوں کے نسخے چھپوائے۔ جدید چھاپہ خانے سے قرآن کا قدیم ترین نسخہ 1537 اور 1538کے درمیان طبع ہوا تھا۔ ڈاکٹر ثریا فاروقی جرمن ماں اور ہندوستانی باپ کی بیٹی ہیں۔ 1941 میں برلن میں پیدا ہوئیںاور استنبول یونیورسٹی میں عمر لطفی برکان کی طالبہ ہوئیں۔ انھوں نے سلطنت عثمانیہ کی معاشی اور سماجی تاریخ کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کی۔ انگریزی، ترکی اور جرمن میں ان کی درجنوں کتابیں اس عہد پر سند تسلیم کی جاتی ہیں۔

1453میں گٹن برگ اور اس کے چھاپے خانے میں سرمایہ لگانے والے اگر اس بات پر ناز کر رہے تھے کہ وہ ایک انقلابی کام کر رہے ہیں تو مسلم اُمہ کو اس بات پر جشن منانا چاہیے کہ اسی برس ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا، شہنشاہ کو قتل کیا، بازنطینی سلطنت کا خاتمہ بالخیر ہوا اور عظیم کلیسا سینٹ صوفیہ کو مسجد بنا دیا جو مسجد ابا صوفیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔


ہم نے عظیم الشان فتوحات کیں۔ کلیسائوں اور مندروں کو مسجدوں میں تبدیل کیا۔ ہمارے یہاں بڑے خطاط، معمار، مینا طوری تصویریں بنانے والے، سنگ ساز، شاعر اور حکیم پیدا ہوئے کیونکہ دربار اور امراء ان کی سرپرستی کرتے تھے۔ رصد گاہیں تعمیر ہوئیں لیکن ہمارے وہ کیمیا داں، ریاضی دان، مکانکس میں مہارت رکھنے والے اور ہیئت دان جن کے خیالات یا جن کی تحقیق مذہب کے ماتحت نہ تھی۔ کبھی ملحد اور کبھی زندیق کہے گئے اور کبھی انھیں جھوٹے الزامات پر دربار سے نکلوایا گیا۔ تحقیق و جستجو کے لیے فضا اس قدر تنگ تھی کہ بہت سے قتل کیے گئے اور بہت سے گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔

اندلس میں فلسفے سے نفرت کی جاتی تھی اور مولانا عبدالسلام ندوی کے مطابق فلسفے اور اس سے متعلقہ علوم کی تعلیم حاصل کرنے والے ملحد اور بے دین سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ خلیفہ حکم کا جب انتقال ہوا تو اس کے بعد آنے والے نے عوام میں ہر دل عزیزی حاصل کرنے کے لیے اس کے عظیم الشان کتب خانے سے فلسفے کی بے شمار کتابیں نکلوا کر جلا دیں۔

ہم 1492 میں سقوط غرناطہ پر گریہ کرتے ہیں جس کے بعد ہسپانیہ سے مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت مٹ گئی، قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیطلہ بھولی بسری کہانی ہوئے۔ مسجد قرطبہ کیتھڈرل بنی لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس سلطنت کے متعدد خلفا نے اپنے جاہل عوام کو خوش کرنے کے لیے کیسی علم دشمنی اختیار کی۔ ہم اس پر بھی غور نہیں کرتے کہ ازابلا اور فرڈی ننڈ غرناطہ پر قبضے کی خوشی میں کوئی محل تعمیر کرنے یا باغ لگانے کے بجائے اطالوی جہاز راں اور مہم جو کرسٹوفر کولمبس کو 'نئی دنیا' کی تلاش میں روانہ کرتے ہیں اور اس مہم کے اخراجات ادا کرتے ہیں۔ یہ وہی بحری مہم ہے جس کے نتیجے میں امریکا دریافت ہوا اور مغرب کے لیے واقعی نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔

سقوط غرناطہ سے 234 برس پہلے سقوط بغداد ہوا۔ اس کا بنیادی سبب خلیفہ کی عاقبت نااندیشی اور دنیا پر چھا جانے والے منگول لشکر کی ناقابل یقین فتوحات کو نظر انداز کرنا تھا۔ خلیفہ کے حکم پر منگول سفیر مجمع عام کے سامنے ذلیل کیے گئے اور بغداد سے نکال دیے گئے۔ ہلاکو خان کے لیے اپنے سفیروں کی یہ توہین ناقابل ِبرداشت تھی۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ خلافت اسلامیہ کے مرکز بغداد پر چڑھ دوڑا۔ خلیفہ کے دربار میں جب یہ خبر پہنچی تو کچھ علماء ان وظائف کو پڑھنے میں مصروف ہوئے جن کی ایک پھونک ہلاکو خان کے لشکر کو جلا کر خاکستر کرنے والی تھی اور ایک روایت کے مطابق کچھ اس بحث میں مصروف رہے کہ روز حساب لوگ سوئی کے ناکے سے گزر کر جنت میں داخل ہو سکیں گے یا نہیں، 40 دن کے محاصرے کے بعد ہلاکو کی فوجیں بغداد میں داخل ہوئیں اس کے بعد عروس البلاد شہر بغداد پر جو گزری اس کا نقشہ پنڈت جواہر لال نہرو نے یوں کھینچا ہے۔

''الف لیلہ کا یہ شہر اور وہ مال و دولت جو پانچ سو برس کے دور میں حکومت میں جمع ہوا تھا۔ اس طرح غارت ہو گیا۔ خلیفہ اس کے بیٹے اور اس کے تمام قریبی رشتے دار تہہ تیغ کر دیے گئے۔ ہفتوں تک قتل عام جاری رہا۔ یہاں تک کہ دریائے دجلہ میلوں تک خون سے رنگین ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ 15 لاکھ انسان موت کے گھاٹ اتر گئے۔ علم وفن کے تمام بیش بہا ذخیرے اور کتب خانے برباد ہو گئے یہاں تک کہ ہلاکو نے مغربی ایشیا کا ہزاروں برس پرانا آبپاشی کا نظام بھی تباہ کر ڈالا۔ حلب، ادیسی اور دوسرے شہروں کی بھی یہی گت بنی اور جہالت کی تاریکی سارے مغربی ایشیا پر چھا گئی ۔ اس زمانہ کا ایک مورخ لکھتا ہے کہ ' یہ دور علم اور نیکی کے قحط کا دور تھا۔''

یہ درست ہے کہ ہندوستان میں لگ بھگ ایک ہزار برس مسلمانوں نے حکومت کی، اس طرح ترک یورپ کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن گئے لیکن ان حکومتوں نے علمی اور سائنسی ترقی کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جو ان پر واجب تھا۔ مغلوں کے دور میں پرتگیزی، ولندیزی، فرانسیسی اور برطانوی ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں مغل سرکار کی اجازت سے اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر رہے تھے۔ تبلیغی کتابچے اور کتابیں چھاپنے کے لیے جدید چھاپے خانے لگا رہے تھے۔ کلکتے، مدراس، بمبئی اور گوا میں تعلیمی ادارے قائم کر رہے تھے، یورپ سے آئی ہوئی نئی روشنی پھیل رہی تھی۔ اخبارات نکل رہے تھے۔ یورپ والوں کے بحری جہاز ہندوستان کے سمندروں پر آزادانہ سفر کر رہے تھے۔ لیکن ہم اقتدار پر قبضے کی جنگیں لڑ رہے تھے۔ ہمارے فقہا فروعی معاملات پر ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ ہمارے عوام بٹیر بازی، پتنگ بازی اور ایسے ہی دوسرے کھیلوں میں مصروف تھے خواص کی حویلیوں میں بھنگ گھٹ رہی تھی، پیالوں میں افیون گھولی جا رہی تھی۔ ارباب نشاط کی ایک ایک ادا پر خزانے لٹائے جا رہے تھے۔

(جاری ہے)
Load Next Story