مسائل کی جڑ

نام نہاد قائدین کی صف میں سے کون سا ایسا چہرہ ہے جو بے نقاب نہیں ہوا؟


Zuber Rehman November 27, 2012
[email protected]

بنیادی طور پر ریاست جبر، لوٹ، دولت کی پیداوار، طبقاتی استحصال کا باعث اور تمام تر ناانصافیوں، جنگ، خودکشیوں اور بھوک و افلاس کی بنیاد ہے۔

ہاں مگر اس کی نوعیت اور طریقہ واردات مختلف ہو سکتے ہیں، مگر بنیادی کردار ایک ہی ہے۔ چین میں 22 کروڑ شہری بے گھر فٹ پاتھوں پر پھرتے ہیں تو ہندوستان میں 34 کروڑ بیروزگار، جرمنی میں 50 لاکھ بیروزگار ہیں تو امریکا میں 3 کروڑ اور 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پر پلتے ہیں۔ جاپان میں 65 لاکھ بیروزگار ہیں، سعودی عریبیہ میں 25 فیصد بیروزگار اور افلاس زدہ شہری ہیں تو ایران میں 27 فیصد۔ ہندوستان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''بکرے کو کٹنا ہے رام رام کر کے کاٹیں یا کلمہ پڑھ کر۔'' اور بکرے ہیں عوام۔

پاکستان میں کونسا ادارہ ایسا ہے کہ جہاں سے تڑپنے کی صدا نہیں سنی جا سکتی۔ نا اہل اور طفیلی حکمران طبقہ ایک بندگلی میں پھنس گیا ہے۔ درندگی اور بربریت کو ایک معمول قرار دے کر اسے اپنا لینے کا درس دیا جا رہا ہے، جھوٹ اور مکاری کو مستند اخلاقی اقدار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے، نام نہاد قائدین کی صف میں سے کون سا ایسا چہرہ ہے جو بے نقاب نہیں ہوا؟ مگر پھر بھی زہر آلود مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں۔ جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو خود ان کے مبلغین اور داعی پہچاننے اور ان کا دفاع کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں، حکمران طبقے کی سیاست بے حسی اور جعلسازی کی بہترین تجربہ گاہ بن چکی ہے، اب یہاں بے یقینی کے علاوہ کچھ بھی یقینی نہیں رہا۔

اگر کچھ مستحکم ہے تو وہ ہے عدم استحکام اور اگر کچھ منظم اور مربوط ہے تو وہ ہے متواتر اور لگاتار انتشار۔ پاکستان کی معیشت کب کی دیوالیہ ہو چکی ہے، نہ ماننے والے خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں۔ IMF نے ابھی حال ہی میں مالیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ ضرورت مند ممالک کی جو فہرست شایع کی ہے اس میں پاکستان سرِ فہرست ہے اور باقی انتہائی غریب ترین ممالک میں سے کوئی اس کے نزدیک پھٹک نہیں پایا۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ تیزی سے بڑھتے ہوئے 17کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ریونیو جنریشن کی حقیقی مادی بنیادوں کو تو کب سے کالے دھن کا دیمک چاٹ چکا ہے۔

FBR کی نعرے بازی سے اب کسی قسم کے افاقے کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن ایمنسٹی اسکیم کو پہلے ہی مرحلے میں نقادوں اور سامراجی آقاؤں کی طرف سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ٹیکس چوروں اور نادہندگان کو خراج تحسین پیش کرنے کے مترادف ہے۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ مرض ناقابل علاج سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اب کوئی دوا کارگر نہیں ہو سکتی۔ سب تدبیریں اُلٹی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر GDP کے 31 فیصد کے برابر قرضے کی اشد ضرورت ہے۔ پہلے ہی گزشتہ4 سالوں میں حکومت 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ قرض لے چکی ہے۔

بجلی کا تقریباً نصف اب سُود کی ادائیگی کی نذر ہو جایا کرے گا۔ WB , IMF اور دیگر مالیاتی ادارے پہلے ہی مالیاتی پالیسیوں اور معاہدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ مزید کڑی شرائط عائد کرینگے اور جن پر عمل کروانے کی نہ صرف حکومتی بلکہ ریاستی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے، اگلی حکومتوں کے لیے مسائل کئی گناہ بڑھ جائینگے۔ داخلی قرضے دن بدن مہنگے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا بڑھا ہوا حجم روپے کو مزید سستا کر رہا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضے بہت تیزی سے مہنگے ہو رہے ہیں۔

بینک اور مالیاتی ادارے جو اس بربادی سے بھی ریکارڈ شرح منافع حاصل کر رہے ہیں انھوں نے اس بحران سے جان چھپانے کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرونی کمپنیوں نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 41 ملین ڈالر کا سرمایہ کما کر باہر منتقل کیا جس کی شرح 99 فیصد سے بھی زائد ہے۔ گزشتہ 9 ماہ میں بینکوں کے منافعوں میں 26 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان تمام تر اعداد و شمار کا حقیقی پیداواری معیشت سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سارے کا سارا مالیاتی شعبہ دن بدن مجرد کردار کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔ ترسیلات زر میں معمولی سا بھی تعطل بہت بڑے لیکویڈیٹی کے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔

اپنی جسمانی استطاعت سے تیز بھاگنے والے منہ کے بل گر جایا کرتے ہیں۔ پیداواری معیشت میں سے بیرونی سرمایہ کاری مسلسل باہر جا رہی ہے۔ بجلی کے بحران اور امن و امان کی مخدوش صورتحال سے مزید بڑے انخلاء کے امکانات ہویدا ہیں۔ سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی سے سرمایہ کاری کے انخلاء کو روکنے کے لیے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ریاستی پالیسی سازوں نے دوبارہ سپریم کورٹ کو کراچی کے حالات پر نظر ڈالنے پر مجبور کر دیا ہے۔

حکومت بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ذریعے ریاستی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے، ترقیاتی بجٹ بچا ہی کتنا ہے جس میں سے مزید کٹوتیاں کی جا سکیں؟ ابھی کچھ دن قبل سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ CNG کے ایک کلو گرام پر 35 روپے یا اس سے بھی زیادہ کمائی کی جاتی رہی ہے۔ یہی حال LPG اور باقی گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کا بھی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں کمی کے حالیہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مالیاتی مسائل مزید مشتعل ہو جائینگے۔ عالمی، معاشی بحران کی وجہ سے اگرچہ تیل کی عالمی کھپت میں کمی واقع ہوئی ہے مگر ایران اور اسرائیل کے درمیان سیاسی کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

جنگ فوری طور پر نہ بھی ہو تو بھی سٹے باز آنے والے دنوں میں قیاس آرائیوں سے تیل کی قیمتوں کو بہت تیزی سے اوپر لا سکتے ہیں پھر جنگ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسی صورتحال میں اگر تیل کی عالمی سپلائی لائن متاثر ہوتی ہے تو پاکستان کا بھرکس نکل جائے گا۔ یہاں افراط زر جس سطح تک جا سکتا ہے اس کا شاید کوئی اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

گزشتہ 12سالوں میں ٹیلی کمیونیکیشن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہوئی ہے، کریڈٹ فنانسنگ کے ذریعے مصنوعی طور پر جو مڈل کلاس بنائی گئی ہے اور اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے حاصل کیے گئے گروتھ ریٹ سے جس جدیدیت کو جنم دیا گیا ہے ان سب نے پسماندگی کو ختم کرنے کی بجائے اس سے یارانے بنا لیے ہیں۔ اس سے چونکہ روزگار پیدا نہیں ہوا بلکہ بیروزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اس لیے بڑے پیمانے کی ایسی کیفیت نے جنم لیا ہے جو اب قوم پرستی، فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے مصنوعی غبارے میں بھری گئی ہوا کی شکل میں اپنا سیاسی اظہار کر رہی ہے۔ معیشت کا سماجی شعبہ بھیانک حد تک کسمپرسی کی حالت میں ہے۔

انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، تعلیم، علاج، سڑکیں، سینی ٹیشن کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ بارشوں اور سیلابوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ بنیادی ڈھانچہ (انفرا اسٹرکچر) میں بہتری تو درکنار اس کو مزید برباد ہونے سے بچانے کے لیے جتنی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اس کی حکمران طبقے اور ان کے سامراجی خداؤں کی مالیاتی گنجائش ہی نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں معیار زندگی میں گراوٹ بہت تیزی سے ہو گی، بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں کوئی بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں، زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری معدنیات کے شعبے میں کی جا رہی ہے۔

اس سے عالمی مالیاتی سرمائے کی لوٹ کھسوٹ میں تو کئی گنا اضافہ ہوا ہے مگر روزگار اور سماجی بہبود میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ کک بیکس اور کمیشن پر ریاستی دھڑوں کا داخلی تصادم مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ انحاط پذیری نے انسانی سماج کے پرخچے اُڑا دیے ہیں، شہروں کو جنگلوں اور بیابانوں میں تبدیل کر دیا ہے، آج کا انسان حیران و پریشان اور مفلوک الحال ان جنگلوں میں اور بیابانوں میں مارا مار اپھر رہا ہے، وہ خود اپنے آپ سے بیگانہ ہوتا جا رہا ہے، وہ اپنے معیار اور کردار سے روپوش ہو کر محض کھانے اور جنسی لوازمات کی تلاش میں دیوانہ ہوا جا رہا ہے۔

یہ اس کا طرۂ امتیاز تو نہیں، بھوک اور ہوس اس کے شایان تو نہیں، لاکھوں سال کی محنت سے مرصع انسانی ضمیر، روح، احساس اور تعظیم کی ساری راحت اور لذت فلسفیانہ عرق کی شکل میں انتہائی شفاف اور خوبصورت غلاف اوڑھے ہم انقلابوں کے تناظر اور لائحہ عمل میں مجتمع ہو چکی ہے۔ اسے سماج میں ابھی اپنا اظہار کرنا ہے، یہ ایک انتہائی بھاری بھرکم ذمے داری اور تاریخی فریضے کی شکل اختیار کر چکی ہے، اب انسانوں کی لاچارگی اور بے بسی کا یہ تماشہ دیکھا نہیں جاتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں