رمضان کا استقبال

روزے کی فضیلت سے زیادہ زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ آپ کس...


Amjad Islam Amjad July 23, 2012
[email protected]

عیدین اور دیگر مذہبی نوعیت کے تہواروں کی مبارک ایک دوسرے کو دینا یوں تو ہماری تہذیب کا حصہ ہے لیکن جب سے یہ SMS ''ایجاد'' ہوا ہے یہ رسم گلی محلے سے نکل کر شہروں، صوبوں، ملکوں اور سمندر پار آبادیوں تک پھیل گئی ہے اور یوں اس حوالے سے سیکڑوں کی تعداد میں ایسے پیغامات بھی ملتے ہیں جو یا تو بے نام ہوتے ہیں یا آپ انھیں بھیجنے والوں کے ناموں سے واقف اور آشنا نہیں ہوتے۔

اس بار بھی رمضان کے چاند کے بارے میں سرکاری اعلان سے پہلے ہی ''رمضان مبارک'' کے بے شمار پیغامات آنا شروع ہو گئے اور ایک بار پھر ذہن اسی پرانے سوال میں الجھ گیا جس کا ذکر میں اکثر تحریروں میں کرتا رہتا ہوں کہ ہم پاکستانی بالخصوص اور عالم اسلام بالعموم ''افراد'' کی سطح پر تو انتہائی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں محبت، ایثار، قربانی، خیرات وغیرہ میں بھی انفرادی حوالوں سے ہمارا ریکارڈ، بہت شاندار ہے مگر کیا وجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور معاشرہ اپنے مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے ضمن میں نہ مل جل کر سوچتے ہیں اور نہ عملی طور پر کوئی نتیجہ خیز اور مثبت کارروائی کرتے ہیں؟

الیکٹرانک میڈیا پر بھی رمضان کے حوالے سے تقریباً ہر چینل سے گونا گوں خصوصی پروگراموں کا اعلان کیا جا رہا ہے لیکن یہاں بھی رمضان کے ''پیغام'' سے زیادہ ان پروگراموں میں شامل ناموں کا چرچا ہے، روزے کی فضیلت سے زیادہ زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ آپ کس ''مشہور'' شخصیت کے ساتھ افطار کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔

رمضان کے دنوں میں زیادہ استعمال ہونے والی مصنوعات کے اشتہارات بھی حسب معمول طرح طرح کی انعامی اسکیموں کو رمضان کی برکات کے طور پر پیش کریں گے اور ایک ایسی مہنگائی کا طوفان بھی چاروں طرف سے یلغار کرے گا جس میں ''قاتل اور مقتول'' کی تفریق دھندلا جائے گی اور بقول شاعر ہم پھر اس الجھن میں مبتلا ہوجائیں گے کہ

مرنے والے ہی جہاں مارنے والے ہوں، وہاں

کون بتلائے، کہاں ظلم ہوا، کس پہ ہوا، کس نے کیا!

یعنی جس کا جہاں تک زور چلتا ہے وہ اپنے مفادات کے لیے دوسروں کو روندتا چلا جاتا ہے اور آخر میں ہر طرف صرف سسکیوں کا ایک ایسا شور رہ جاتا ہے جس میں 95/% لوگوں کی آوازیں ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتی ہیں۔
اس تصویر کا ایک اور افسوسناک رخ یہ ہے کہ ہم بالعموم رمضان کو ذاتی نیکیوں اور برکتوں کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی بہت سی تعلیمات مثلاً ضبطِ نفس، قربانی، بھائی چارہ، غریبوں کی روزہ کشائی اور نفس کی تربیت کو معاشرے کی سطح پر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اگر ہم ایسا کرنا سیکھ لیں تو یقینا ہمارے سیاسی، تعلیمی، معاشی، تہذیبی غرض ہر طرح کے مسائل میں واضح اور معیاری تبدیلی ہو سکتی ہے۔

ہم اپنی اجتماعی اور قومی ترجیحات کو اس طرح سے مرتب کر سکتے ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو پہچان سکیں بلکہ اپنی اجتماعی دانش اور روزوں سے حاصل کی ہوئی تربیت کے باعث ان کا بھر پور مقابلہ اور دفاع بھی کر سکیں۔

بلاشبہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا براہ راست تعلق ان حقوق سے ہے جو رب کریم نے اپنے لیے مخصوص کر رکھے ہیں اور جن کا حساب بھی صرف اور صرف اسی کے دربار میں ہوگا لیکن اگر اس کی غائت پر غور کیا جائے تو ہم اسی ازلی اور ابدی حقیقت کے روبرو ہوتے ہیں کہ اﷲ کا دین اور اس کے تمام تر احکامات کا اصل اصول بنی نوع انسان کی اصلاح اور اجتماعی فلاح ہے۔

سو روزہ جہاں ہمیں مخصوص اوقات میں کچھ پابندیوں کا درس دیتا ہے وہاں اس کی معرفت ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اس تربیت کا اثر سال کے باقی گیارہ مہینوں پر کس طرح پھیلایا جا سکتا ہے اور کسی فرد کی ذات سے اس کے اردگرد، معاشرے، قوم اور ملت کی سطح پر کس طرح اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یعنی اس کا دائرہ صرف انفرادی تربیت اور ثواب و گناہ کے روایتی تصورات تک محدود نہیں، روزہ ہمیں روحانی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان اور شہری بننے کے آداب بھی سکھاتا ہے، اپنے حقوق کی حفاظت اور دوسروں کے حقوق کے شعور اور احترام سے آگاہ کرتا ہے، ہمیں ''مہنگائی'' کی تہہ تک پہنچنے اور اس کا مؤثر سدباب کرنے کی صلاحیت بھی عطا کرتا ہے۔

ووٹ کے صحیح استعمال اور ایسا نہ کرنے کے نتائج و عواقب سے بھی خبردار کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی فلمی اداکار کی موت کا بھرپور ماتم کرنے اور برما میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہنے سے کس طرح ان تعلیمات سے روگردانی ہوتی ہے۔ یہ مبارک مہینہ جس کا ایک بہترین استعارہ (ان دو باتوںکے باہمی تعلق اور اثرات پر انشاء اﷲ آیندہ بات ہوگی) فی الوقت ایک تازہ نعت پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ''رمضان'' کو خوش آمدید

کہنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی تحفہ ہو نہیں سکتا۔

وہ چودہ سو برس پہلے یہاں تشریف لائے تھے

مگر خوشبو ابھی تک ہے مدینے کی ہوائوں میں

جو ایک پل میں دلوں کی بستیاں آباد کرتا ہے

وہی جادو ابھی تک ہے مدینے کی ہوائوں میں

جو ان کی اونٹنی کے نقش پاکے ساتھ چلتے تھے

مدینے کے فلک سے اب وہ بادل جا چکے لیکن

ابھی تک ان کا سایا ہے مدینے کی ہوائوں میں

سواگت کے لیے جو بچیوں نے گیت گائے تھے

ابھی تک ان کا چرچا ہے مدینے کی ہوائوں میں

وہ مسجد کے مناروں کے جلو میں گنبد خضریٰ

اور اس گنبد کے نیچے ''باغ جنت'' کے کنارے پر

وہ ایک جالی سنہری سی

کہ جس کے روزنوں کے پار ایک ایسا اُجالا ہے

کہ جس کا نور ہے تاباں مدینے کی ہوائوں میں

عجب ایک کیف کا ماحول ہے اس''راہ داری'' میں

جسے اظہار میں لانا نہ ممکن ہے نہ ممکن تھا

''ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا''

قلم لکھنے سے عاجز ہے زباں میں گرہیں پڑتی ہیں

یہ کیسا راز ہے پنہاں، مدینے کی ہوائوں میں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں