عبدالستار ایدھی انسانی خدمت کی عظیم داستان

عبدالستار ایدھی کو متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جن میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی شامل ہے۔


ویب ڈیسک July 08, 2016
عبدالستار ایدھی کو متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جن میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی شامل ہے۔ فوٹو: فائل

عبدالستار ایدھی، جو ''مولانا عبدالستار ایدھی'' کے نام سے جانے جاتے تھے، انسانی خدمت اور فلاح و بہبود کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتے تھے۔ امریکی جرائد انہیں ''فادر ٹیریسا آف پاکستان'' کا خطاب بھی دے چکے ہیں۔

عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارتی گجرات کے شہر ''بانٹوا'' میں پیدا ہوئے، ان کے والد کپڑوں کے ایک تاجر تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے کراچی آئے۔ 1951ء میں انہوں نے ذاتی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر شفاخانہ کھولا۔



ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز 1957ء میں اس وقت ہوا جب کراچی میں بڑے پیمانے پر زکام (فلو) کی وبا پھیلی اور اس موقع پرایدھی صاحب نے مخیر حضرات کی مدد سے کراچی کے قرب و جوار میں مفت طبّی کیمپ لگوائے۔ ان کے کام سے متاثر ہوکر مخیر حضرات نے انہیں خطیر رقم کا عطیہ کیا، جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری قائم تھی۔ اسی عمارت میں انہوں نے ایک زچہ خانہ اور نرسوں کے لئے ایک تربیتی ادارہ قائم کیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔



بتدریج ترقی کرتے کرتے ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی خدمات کا دائرہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے علاوہ دیگر ممالک تک بھی وسیع کیا۔ انہوں نے ایمبولینس سروس کا آغاز صرف ایک ایمبولینس سے کیا اور اب ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے پاس تقریباً 1800ایمبولینسیں ہیں جن میں ہیلی کاپٹر ایمبولینس بھی شامل ہے۔ ایدھی ایمبولینس سروس، اس وقت دنیا میں کسی بھی این جی او کے تحت چلنے والی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے۔



ایدھی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے مفت شفا خانے (کلینکس)، زچہ خانے (میٹرنٹی ہومز)، پاگل خانے، معذوروں کے لئے رہائش اور علاج کے خصوصی مراکز، بلڈ بینک، یتیم خانے، اپنا گھر (لاوارث بچوں کےلئے مراکز)، مُردہ خانے، دارالامان، اسکول اور ایسے درجنوں ادارے اور منصوبے کام کررہے ہیں جن کا مقصد رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔



انسانیت کی بے لوث خدمت میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود، مولانا عبدالستار ایدھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ انتہائی معمولی قمیض شلوار پہنتے تھے جبکہ جوتوں کا ایک ہی جوڑا گزشتہ 20 سال سے ان کے استعمال میں تھا۔





حالیہ دنوں میں جب مولانا عبدالستار ایدھی شدید بیمار ہوئے تو انہیں مختلف مالدار شخصیات اور سیاستدانوں کی جانب سے بیرونِ ملک علاج کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کی اور اشارے سے کہا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گے جس کے بعد ان کا علاج ایس آئی یو ٹی میں کیا جارہا تھا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

عبدالستار ایدھی کو متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جن میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی شامل ہے۔ عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس ایدھی اور صاحبزادے فیصل ایدھی گزشتہ چند سال سے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں